خدارا ایسا نہ کیجیے
آوارہ لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی لڑکی کو جب آٹے دال کا بھاؤ پتا چلتا ہے تو محبت ہی سب سے پہلے بھاگتی ہے
میری ایک دور کی کزن کی اسکول میں ایک دوست تھی جس کا نام نائلہ تھا، دونوں نے ساتھ میں میٹرک کیا۔ نائلہ چار بہن بھائی تھے۔ وہ بڑی تھی، پھر اس کے دو بھائی تھے۔ جو دماغی لحاظ سے کمزور تھے، پھر اس کی سب سے چھوٹی بہن تھی۔ وہ لوگ گاؤں سے آئے تھے۔ ان کا تعلق بہت روایت پسند خاندان سے تھا، لیکن اس سب کے باوجود اس کے والد سب کو لے کر کراچی آگئے، اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دینے کےلیے۔
اس کی امی بہت پر امید تھیں کہ نائلہ کے پڑھنے سے ان کے دن ضرور بدلیں گے۔ آج کی مشکلات، کل کی آسانی میں ضرور بدلیں گی۔ محدود آمدنی کی وجہ سے وہ گھر کا کام، اور اپنے دونوں معذور بچوں کا کام خود کرتی تھیں۔ نائلہ کو پڑھانا، ان کی فیملی میں کسی امتحان سے کم نہیں تھا کیونکہ ان کی فیملی میں لڑکیوں کو نہیں پڑھایا جاتا۔ نائلہ کے والدین اسے پڑھانا چاہتے تھے، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے اور اپنے خاندان میں باقی لڑکیوں کےلیے اچھی مثال بنے۔
میٹرک امتحانات کے کوئی چار مہینے بعد اچانک نائلہ گھر سے غائب ہوگئی۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی اس کا کچھ پتا نہیں چل پایا۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ بھاگنے کے کوئی تین ماہ بعد نائلہ میری کزن کے گھر آئی، لگ بھگ رات آٹھ بجے، تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ لے۔ میری کزن کے گھر والے بھی ڈر گئے کہ کسی نے دیکھ لیا تو مشکل ہوجائے گی۔ اس کے گھر والے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے تھے۔
میری کزن نے اس سے دروازے پر ہی کوئی پانچ منٹ بات کی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شادی کر لی ہے، اس کی ساس کا رویہ ٹھیک نہیں، لیکن اس کا شوہر اچھا ہے۔ اس کے بعد اسے کبھی یہاں نہ آنے کا کہہ کر رخصت کیا گیا، کیونکہ اگر اس کی فیملی کو پتا چل جاتا تو وہ یہی سمجھتے کہ ان کی بیٹی کے بھاگنے میں یہ لوگ بھی شامل ہیں۔ ہر عزت دار آدمی ایسے جھمیلوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہے۔ اس کا شوہر اس کی گلی میں بیٹھنے والا آوارہ لڑکا تھا۔ زیادہ کیسز میں ایسے آوارہ اس محلے کے نہیں ہوتے، دور کی دوستی میں وہاں آتے ہیں جن کا آگے پیچھے کا کسی کو بھی پتا نہیں ہوتا۔ اس کیس میں بھی یہی ہوا۔
نائلہ نابالغ تھی، مگر پیار جیسی جھوٹی مایا کے جھانسے میں آکر ایسا قدم اٹھا لیا۔ وہ اپنے گھر کی غربت سے بھی تنگ تھی، تو اس نے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے، پڑھائی کے ذریعے اسے بدلنے کے بجائے ایسا راستہ چنا جس میں صرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔
اس بات کو آٹھ سال ہوچکے ہیں، اب تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اس کے والدین آج بھی اس کے حوالے سے لوگوں کے طعنے سننے پر مجبور ہیں۔ جس بیٹی کےلیے اتنا سب کیا، اس نے ایسا کرنے سے پہلے ایک بار بھی اپنے والدین کے بارے میں نہیں سوچا۔
آوارہ لڑکے کے ساتھ بھاگنے کا انجام اچھا ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسے معاملات میں جب آٹے دال کا بھاؤ پتا چلتا ہے تو محبت ہی سب سے پہلے بھاگتی ہے۔
ایسے اور نہ جانے کتنے ہی واقعات ہوئے ہیں جن کے آپ بھی شاہد ہوں گے۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے کہ لڑکیاں کوچنگ سینٹر جانے کےلیے نکلیں لیکن وہاں نہیں گئیں، اور کسی کے ساتھ چلی گئیں۔ ابھی کچھ دن پہلے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا کہ ایک لڑکا اپنی کلاس فیلو کے ساتھ برقع پہن کر گرلز ہوسٹل میں جا رہا تھا، جہاں وہ رہتی تھی، کہ پکڑا گیا۔ لڑکی نے معافی مانگ لی۔ آپ فیصلہ کیجیے کہ اس میں غلطی کس کی تھی؟ وہ لڑکی اسے گرلز ہوسٹل میں لے کر جا رہی تھی۔
ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں بچوں کو پڑھنے کےلیے شہر کے اسکول، کالج یا یونیورسٹی بھیجا گیا، اور ان کی خودکشی، یا قتل کی وارداتوں کے بعد والدین کو پتا چلا کہ ان کے بچے غلط سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ایسے معاملات میں والدین کیا کریں؟
باہر کی دنیا سے آپ کو خود مقابلہ کرنا ہے۔ اچھے برے کی تمیز بھی خود ہی کرنی ہے... والدین ہر جگہ تو ساتھ نہیں ہوسکتے ناں!
پاکستان میں تو تعلیم کے ویسے ہی بہت برے حالات ہیں۔ ناروے، اقوامِ متحدہ کے تعاون سے پوری دنیا میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے سالانہ رپورٹ مرتب کرتا ہے جو اوسلو، تعلیم اور ترقی کی سربراہی کانفرنس میں پیش کرتا ہے۔ اس کی 2015 کی رپورٹ میں پاکستان کو تعلیم کے حوالے سے دنیا کے بد ترین کارکردگی دکھانے والے ممالک میں شامل کیا گیا، جو بہت افسوس ناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 فیصد بچے ہی میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان میں لڑکیوں کی تعداد، لڑکوں کے مقابلے میں بے حد کم ہے۔ سوچیے آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والدین معاشرتی دباؤ اور مسائل کے باوجود آپ کو پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
میری تمام لڑکیوں سے گزارش ہے کہ خدارا وہ ایسا نہ کریں۔ آپ پڑھنے کےلیے جاتی ہیں تو اپنی پڑھائی پر ہی توجہ مرکوز رکھیے۔ نہ صرف اپنی بہنوں بلکہ خاندان کی دوسری لڑکیوں کےلیے اچھی مثال بنیں تاکہ آنے والے دنوں میں ان سب کےلیے تعلیم کی راہیں آسان ہوں، نہ کہ دشوار۔
عشق و محبت جیسے معاملات سے دور رہیے؛ اور اگر ایسی کسی مشکل میں پھنس گئی ہیں تو خدارا اپنے والدین کو بتانے میں دیر نہ کیجیے ورنہ آپ اس دلدل میں دھنستی چلی جائیں گی جس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ خود سوچیے کہ بھاگ کر شادی کرنے میں کیا عزت ہے؟ جو انسان سب کے سامنے شادی کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، وہ آپ کا ساتھ بھی نہیں دے گا، کل کو وہی طعنے دے گا کہ تم تو بھاگ کر آئی تھیں۔
سفید گھوڑے پر سوار ہیرو آئے گا اور آپ کو اپنے ساتھ لے جائے گا، گھر سے بھاگ جانے کے بعد آپ کروڑ پتی بن جائیں گی، یہ سب فلموں میں ہوتا ہے، حقیقی زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا۔ بڑے خوابوں کی تعبیر کےلیے وقت اور حالات سے لڑنا پڑتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس کی امی بہت پر امید تھیں کہ نائلہ کے پڑھنے سے ان کے دن ضرور بدلیں گے۔ آج کی مشکلات، کل کی آسانی میں ضرور بدلیں گی۔ محدود آمدنی کی وجہ سے وہ گھر کا کام، اور اپنے دونوں معذور بچوں کا کام خود کرتی تھیں۔ نائلہ کو پڑھانا، ان کی فیملی میں کسی امتحان سے کم نہیں تھا کیونکہ ان کی فیملی میں لڑکیوں کو نہیں پڑھایا جاتا۔ نائلہ کے والدین اسے پڑھانا چاہتے تھے، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے اور اپنے خاندان میں باقی لڑکیوں کےلیے اچھی مثال بنے۔
میٹرک امتحانات کے کوئی چار مہینے بعد اچانک نائلہ گھر سے غائب ہوگئی۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی اس کا کچھ پتا نہیں چل پایا۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ بھاگنے کے کوئی تین ماہ بعد نائلہ میری کزن کے گھر آئی، لگ بھگ رات آٹھ بجے، تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ لے۔ میری کزن کے گھر والے بھی ڈر گئے کہ کسی نے دیکھ لیا تو مشکل ہوجائے گی۔ اس کے گھر والے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے تھے۔
میری کزن نے اس سے دروازے پر ہی کوئی پانچ منٹ بات کی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شادی کر لی ہے، اس کی ساس کا رویہ ٹھیک نہیں، لیکن اس کا شوہر اچھا ہے۔ اس کے بعد اسے کبھی یہاں نہ آنے کا کہہ کر رخصت کیا گیا، کیونکہ اگر اس کی فیملی کو پتا چل جاتا تو وہ یہی سمجھتے کہ ان کی بیٹی کے بھاگنے میں یہ لوگ بھی شامل ہیں۔ ہر عزت دار آدمی ایسے جھمیلوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہے۔ اس کا شوہر اس کی گلی میں بیٹھنے والا آوارہ لڑکا تھا۔ زیادہ کیسز میں ایسے آوارہ اس محلے کے نہیں ہوتے، دور کی دوستی میں وہاں آتے ہیں جن کا آگے پیچھے کا کسی کو بھی پتا نہیں ہوتا۔ اس کیس میں بھی یہی ہوا۔
نائلہ نابالغ تھی، مگر پیار جیسی جھوٹی مایا کے جھانسے میں آکر ایسا قدم اٹھا لیا۔ وہ اپنے گھر کی غربت سے بھی تنگ تھی، تو اس نے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے، پڑھائی کے ذریعے اسے بدلنے کے بجائے ایسا راستہ چنا جس میں صرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔
اس بات کو آٹھ سال ہوچکے ہیں، اب تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اس کے والدین آج بھی اس کے حوالے سے لوگوں کے طعنے سننے پر مجبور ہیں۔ جس بیٹی کےلیے اتنا سب کیا، اس نے ایسا کرنے سے پہلے ایک بار بھی اپنے والدین کے بارے میں نہیں سوچا۔
آوارہ لڑکے کے ساتھ بھاگنے کا انجام اچھا ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسے معاملات میں جب آٹے دال کا بھاؤ پتا چلتا ہے تو محبت ہی سب سے پہلے بھاگتی ہے۔
ایسے اور نہ جانے کتنے ہی واقعات ہوئے ہیں جن کے آپ بھی شاہد ہوں گے۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے کہ لڑکیاں کوچنگ سینٹر جانے کےلیے نکلیں لیکن وہاں نہیں گئیں، اور کسی کے ساتھ چلی گئیں۔ ابھی کچھ دن پہلے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا کہ ایک لڑکا اپنی کلاس فیلو کے ساتھ برقع پہن کر گرلز ہوسٹل میں جا رہا تھا، جہاں وہ رہتی تھی، کہ پکڑا گیا۔ لڑکی نے معافی مانگ لی۔ آپ فیصلہ کیجیے کہ اس میں غلطی کس کی تھی؟ وہ لڑکی اسے گرلز ہوسٹل میں لے کر جا رہی تھی۔
ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں بچوں کو پڑھنے کےلیے شہر کے اسکول، کالج یا یونیورسٹی بھیجا گیا، اور ان کی خودکشی، یا قتل کی وارداتوں کے بعد والدین کو پتا چلا کہ ان کے بچے غلط سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ایسے معاملات میں والدین کیا کریں؟
باہر کی دنیا سے آپ کو خود مقابلہ کرنا ہے۔ اچھے برے کی تمیز بھی خود ہی کرنی ہے... والدین ہر جگہ تو ساتھ نہیں ہوسکتے ناں!
پاکستان میں تو تعلیم کے ویسے ہی بہت برے حالات ہیں۔ ناروے، اقوامِ متحدہ کے تعاون سے پوری دنیا میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے سالانہ رپورٹ مرتب کرتا ہے جو اوسلو، تعلیم اور ترقی کی سربراہی کانفرنس میں پیش کرتا ہے۔ اس کی 2015 کی رپورٹ میں پاکستان کو تعلیم کے حوالے سے دنیا کے بد ترین کارکردگی دکھانے والے ممالک میں شامل کیا گیا، جو بہت افسوس ناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 فیصد بچے ہی میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان میں لڑکیوں کی تعداد، لڑکوں کے مقابلے میں بے حد کم ہے۔ سوچیے آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والدین معاشرتی دباؤ اور مسائل کے باوجود آپ کو پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
میری تمام لڑکیوں سے گزارش ہے کہ خدارا وہ ایسا نہ کریں۔ آپ پڑھنے کےلیے جاتی ہیں تو اپنی پڑھائی پر ہی توجہ مرکوز رکھیے۔ نہ صرف اپنی بہنوں بلکہ خاندان کی دوسری لڑکیوں کےلیے اچھی مثال بنیں تاکہ آنے والے دنوں میں ان سب کےلیے تعلیم کی راہیں آسان ہوں، نہ کہ دشوار۔
عشق و محبت جیسے معاملات سے دور رہیے؛ اور اگر ایسی کسی مشکل میں پھنس گئی ہیں تو خدارا اپنے والدین کو بتانے میں دیر نہ کیجیے ورنہ آپ اس دلدل میں دھنستی چلی جائیں گی جس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ خود سوچیے کہ بھاگ کر شادی کرنے میں کیا عزت ہے؟ جو انسان سب کے سامنے شادی کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، وہ آپ کا ساتھ بھی نہیں دے گا، کل کو وہی طعنے دے گا کہ تم تو بھاگ کر آئی تھیں۔
سفید گھوڑے پر سوار ہیرو آئے گا اور آپ کو اپنے ساتھ لے جائے گا، گھر سے بھاگ جانے کے بعد آپ کروڑ پتی بن جائیں گی، یہ سب فلموں میں ہوتا ہے، حقیقی زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا۔ بڑے خوابوں کی تعبیر کےلیے وقت اور حالات سے لڑنا پڑتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔