بابا نانک
بابا گرو نانک نے ضلع شیخوپورہ کے گاؤں تلونڈی کے ایک متوسط ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی
ان دنوں بابا گرو نانک کا کیسا چرچا ہے۔ کرتا پور راہداری کھل رہی ہے۔ ہر شخص اس راستے کے کھلنے کا سہرا اپنے سر باندھ رہا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ 1999 میں یہ کام میاں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی نے کیا تھا۔ برس دو برس پہلے یہی سب کچھ ہوتا تو وہ حکمران غدار ٹہرتے اورکرتا پور راہداری کو جاسوسوں کی سہولت کاری کا راستہ قرار دیا جاتا۔ لیکن آج یوں محسوس ہورہا ہے جیسے یہ امن کی وہ پر نور راہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے تمام مسائل سے نبرد آزما ہو جائیں گے۔
اقبال کی نظم ''نانک'' یاد آتی ہے جس میں وہ گوتم کے پیغام کی ناقدری پرکفِ افسوس ملتے ہیں اور پھر گرو نانک کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نورِ ابراہیمؑ سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اقبال اسی رو میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ''آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا''۔ پھر ایک نظم میں ہمیں یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ''نانک نے جس زمیں پر وحدت کا گیت گایا۔''
آج کرتارپور راہداری کے قصیدے پڑھتے ہوئے جانے کتنے لوگو ں کو یہ یاد ہے کہ اگر بابا گرو نانک نہ ہوتے اور انھوں نے فرید الدین گنج شکر کے کلام کو گروگرنتھ صاحب کا حصہ نہ بنایا ہوتا، اس کی حفاظت کو سکھ مذہب کا لازمی حصہ نہ بنایا ہوتا تو حضرت گنج شکر کا جانے کتنا کلام وقت کی دست برد سے محفوظ نہ رہا ہوتا۔ یہ ہندوستان کی مذہبی روا داری اور انسانی یکجہتی کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ جس میں ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خیالات و افکار کے تحفظ کو اپنی دینی روایت کا حصہ سمجھتا ہے۔ اور آج بھی بابا گنج شکر کے اشلوک گرو گرنتھ صاحب کا حصہ ہیں۔ گرو نانک مذہبی یکتائی کا کیسا حسین نقشہ کھینچتے ہیں۔
دیکھ توریت، انجیل توں زبورے فرقاں
ایہو چار کتیب ہن پڑھ کے دیکھ قرآن
بابا گرو نانک نے ضلع شیخوپورہ کے گاؤں تلونڈی کے ایک متوسط ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی۔ طوائف الملوکی کا ایک ایسا زمانہ جس کے بارے میں گرو نانک نے ہوش سنبھال کر کہا ظلم کے دھار دار خنجر چل رہے ہیں۔ حکمران قصائی بن چکے ہیں، دین دھرم پَر لگاکر اڑ گیا، جھوٹ کی اندھی کالی رات ہے اور سچ کا چاند کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔
بابا نانک کی زندگی کے نشیب و فرازکو سید افضل حیدر نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''یہ سیاسی ابتری کا دور تھا۔ افق پر مغل شہنشاہ بابر ابھر رہا تھا۔ ابراہیم لودھی کا راج سنگھاسن پہلے ہی ڈانواں ڈول سا محسوس ہو رہا تھا۔ 1526 میں جب نانک جی قید میں تھے اور قید خانے ہی میں اپنے خیالات کا پرچار کر رہے تھے کہ پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ اور تخت دہلی پر ظہیر الدین بابر کا قبضہ ہو گیا۔ یہ قید اگرچہ چند ماہ کی تھی تاہم اسے حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اسی لیے ہم شہنشاہیت اور ہر اس طرز حکومت کو قابل نفرت کہتے ہیں جو انسانوں کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے حق سے محروم کر دے۔
شہنشاہ بابر اپنی شاندار فتح کے بعد پہلی فرصت میں جیل خانہ جات کے دورے پر آیا تو اس کی نگاہ بابا نانک پر پڑی۔ اس نے داروغہ جیل سے استفسارکیا۔ ''اس درویش صفت انسان کوکس جرم کی پاداش میں قید کر رکھا ہے۔''
داروغہ جیل کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ لہٰذا مغل شہنشاہ نے نانک جی کی فوری رہائی کا حکم دیا اور عزت و احترام سے ان کو دربار میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے۔ گرو نانک جی کو بابر کا رویہ بہت پسند آیا۔ اسی سلسلے میں ایک حکایت مشہور ہے کہ گرو جی نے مغلوں کو پشت در پشت بادشاہی کی دعا دی تھی۔ 1539 میں نانک جی کی وفات کے بعد جب نصیر الدین ہمایوں نے1540 میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھائی اور ہندوستان سے کوچ کیا تو اس کی ملاقات گروانگد سے ہوئی تو ہمایوں نے گرو انگد کو نانک کی دعا کی یاد دلائی جس کے جواب میں گروانگد نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ''اگر گرو نانک نے پشت در پشت بادشاہی کی دعا کی تھی تو وہ ضرور پوری ہو گی۔''
اس حکایت کی سچائی پر ہمیں اصرار ہے نہ انکار۔ ہم اور دنیا جانتی ہے کہ ہمایوں اپنا کھویا ہوا تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مغل بادشاہی پشت در پشت چلتی رہی۔ لیکن اس میں تو شک نہیں کہ گرو نانک صاحب خدا کے سچے پُر خلوص عاشق تھے اور خدا کے بندے کے دل سے نکلنے والی دعا خدا ضرورت قبول کرتا ہے۔ سکھ روایات کے مطابق ایمن آباد میں گرو نانک نے بھائی لالو کو آنے والے حالات سے باخبر کر دیا تھا۔
تاریخ کی کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ ظہیر الدین بابر نے گرو نانک سے وہی سلوک کیا جو بزرگان دین کے شایان شان ہوتا ہے۔ تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسے سکھوں کی روایت میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ بابر نے گرو جی سے مشفقانہ برتاؤ کیا۔ عزت و احترام سے رخصت کرنے سے پیشتر حاکم وقت نے نانک کو تحائف بھی پیش کیے۔ مگر گرو جی نے تحائف قبول کرنے سے انکار کیا۔
پنجاب کے شیر دل نوجوان عبد اللہ بھٹی (دلا بھٹی) اور اس کے والد کی مغل شہنشاہوں سے دشمنی کا سبب فصلوں کی تباہی بیان کیا جاتا ہے۔ مغل سوار پنجاب میں داخل ہوتے ہی فصلیں اجاڑ دیا کرتے تھے۔ پھر یہ چپقلش سیاسی رنگ اختیارکر گئی اور دلا بھٹی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مگر مرتے مرتے وہ مغلوں کو نہ بھولنے والا سبق سکھا گیا۔
بورا اپنے گاؤں کی فصلوں کی بربادی دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوا اور اپنا قصہ غم لے کر نانک جی کے آستانے پر حاضر ہوا۔ کرتا پور ان دنوں سکھ مت کا مرکز بن چکا تھا۔ نانک جی نے آنے والے کی داستان الم سن کر کہا۔ ''خوف اور خطر میں مبتلا کرنے والے ظالموں کا حشر بہت برا ہوتا ہے اور ان کو سزا ضرور ملے گی۔ اس مقام پر مجھے بابا فرید کا بول یاد آ گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ محرومین کا استحصال کر کے اپنی روٹی کو گھی میں ڈبوتے ہیں سب سے زیادہ دکھ ایسے لوگوں ہی کے حصے میں آئیں گے۔ یہ وہی سوچ ہے جو ہمیں گرونانک جی کی تعلیمات میں نظر آتی ہے۔
'' گروہ جی! میرے دل میں خوف نے بسیرا کر رکھا ہے۔'' بورا نے ملتجی لہجے میں کہا۔ ''میں بڑی امید لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ ازراہ کرم مجھے اس خوف سے نجات دلا دیں۔'' گرو نانک نے یہ سن کر بورا کو غور سے دیکھا اور اپنے سامنے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ بورا ایسا بیٹھا کہ پھر آستانے سے زندگی بھر نہ اٹھ سکا۔ نانک نے جو پہلا سبق دیا اس کا لب لباب یہ تھا۔ ''خوف سے نجات چاہتے ہو تو اپنے آپ کو ہر شے کے خالق کے سپرد کر دو۔ خالق تمہیں اپنی عافیت کے حصار میں لے لے گا۔'' اس سیدھی سادی بات نے بورا کی زندگی بدل دی۔ نانک نے اسے بھائی بدھا کا خطاب دیا۔
بھائی بدھا کم عمر ضرور تھا مگر کم عقل ہرگز نہیں تھا۔ اس کا شمارکرتار پور کے مرکزی پرچارکوں میں ہوتا ہے۔ نانک نے بھائی بدھا کو گروؤں کی تعیناتی جیسا اہم فریضہ سونپا اور تاریخی حقیقت ہے کہ بورا المعروف بھائی بدھا نے بابا نانک کے بعد یکے بعد دیگر پانچ گروؤں کو مرکزی ''منجی'' پر بٹھانے کا شرف حاصل کیا۔ سکھوں میں یہ مقام اور کسی فرد کو نصیب نہ ہو سکا۔
بابا نانک اس دور کی پیداوار ہیں جب کہ انقلابی روحانی دورکے بعد تصوف کا دور دورہ تھا۔ یہ عرصہ کئی صدیوں پر محیط ہے جس طرح پیغمبروں کا روحانی دور کئی صدیوں پر پھیلا ہوا تھا۔ تصوف کے اس دور میں پہلے دور کی ایک بنیادی صفت بہت نمایاں نظر آتی ہے اور وہ ہے عوام تک بات پہنچانے کی لگن۔ اس رابطے کی وجہ سے توہمات کی زنجیروں کو توڑا گیا اور لوگوں کو زندگی کے مقاصد سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس دور میں اللہ کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرنے کا رجحان نمایاں نظرآتا ہے اور پیرو مرشد اپنے خاص مریدوں کو تعلق باللہ کے لیے تیارکرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں جو کچھ ہوا وہ بالکل نیا تھا۔ نہیں یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ آفاقی سچائیاں کسی ایک گروہ یا عہد کے فکر کا نتیجہ نہیں ہوتیں نہ ہی کوئی فرد تن تنہا ان سچائیوں کو پیش کر سکتا ہے۔
کرتارپور راہداری 9 نومبر کو کھلے گی، اس کے افتتاح کا ہمیں بہت اشتیاق ہے۔ وہ کام جو 1999میں شروع ہوا تھا اور جسے درمیان کے دنوں میں غداری وغیرہ کے زمرے میں رکھا گیا، اب وہ رواداری اور انسان دوستی کا نشان بن چکا ہے۔ ہم 9 نومبر کے انتظار میں ہیں۔ آپ بھی انتظار کیجیے اور ان لوگوں کو یاد کیجیے جن کی دانش مندی اور دوست داری کے سبب برصغیر میں امن کا یہ راستہ کھلنے والا ہے۔ یوں بھی دیکھیے کہ یہ پنجاب کے دو ٹکڑوں کی یکجائی کا ایک رنگ بھی ہے۔