بے صبرے لوگ
جنرل پرویز مشرف کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال حکومت کی
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بے صبرے عوام 13 ماہ بعد پوچھتے ہیں کہ کدھر ہے نیا پاکستان ؟ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ریاست مدینہ پہلے دن نہیں بن گئی تھی۔ پاکستان بھی بدلے گا پولیس کے نظام اور اسپتالوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ نئے پاکستان کی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ نیا پاکستان ایک فلاحی ریاست کا قیام ہو گا۔ ملک میں بتدریج تبدیلی آئے گی لوگ ابھی صبر کریں کیونکہ 70 سال کے مسائل ایک دن میں حل نہیں ہو سکتے وقت لگے گا۔ لوگ 13 ماہ میں پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہے نیا پاکستان اور انتظار نہیں کر رہے۔
وزیر اعظم کی طرف سے 13 ماہ گزرنے کے بعد عوام کو بے صبرا کہنے کو جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے وزیر اعظم کا اعتراف شکست قرار دیا ہے۔ ملک کے نامور تجزیہ کاروں نے جن میں عمران خان کے ایک بڑے حامی حسن نثار نے وزیر اعظم کے بیان کو عجیب وغریب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے لوگ 72 سال سے ذلیل و خوار ہو کر سستے خواب خرید رہے ہیں جس کے بعد اب بھی یہ لوگ بے صبرے اور قصور وار ہیں تو لوگوں کے ساتھ وزیر اعظم کا بھی خدا ہی حافظ ہے۔ ان سے زیادہ صابر لوگ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتے جو پہلی اور آخری بار حکومت کے خلاف اس وقت نکلے تھے جب صدر ایوب خان نے چینی کی قیمت بڑھائی تھی۔
عوام کے ایک طویل عرصے صبر کا ثبوت تو واضح ہے جنھوں نے ایوب حکومت کے آخری دور میں چینی کی قیمت میں صرف 25 پیسے کے اضافے پر احتجاج شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں صدر ایوب خان مستعفی ہو گئے تھے جنھوں نے مبینہ طور پر اس وقت کا مقبول نعرہ ''کتا ہائے ہائے'' اپنے پوتے کے منہ سے سن لیا تھا اور حکومت چھوڑ دی تھی کیونکہ ایک غیرت مند انسان کے لیے اتنا ہی کافی تھا انھوں نے اقتدار پر عزت کو ترجیح دی تھی اور مزید اقتدار میں رہ کر ملک و قوم کا مزید جانی و مالی نقصان ہونا گوارا نہیں کیا تھا۔
ایوب خان نے مارچ 1969 میں آخری نشری تقریر کی اور اقتدار سے با عزت طور پر الگ ہو گئے تھے۔ ایوب خان کے خلاف انھی کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک چلائی ۔ اس وقت اپوزیشن متحد تھی اور ایوب خان کی جگہ صدر وچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں جو عام انتخابات کرائے تھے۔ انھیں ملک کے واحد منصفانہ انتخابات قرار دیا جاتا ہے جو اگرچہ یحییٰ خان کی توقعات کے برعکس نتائج کے حامل تھے مگر ان کو بھی بھٹو صاحب کے سوا پوری اپوزیشن نے تسلیم کیا تھا اور اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر بھٹو صاحب راضی نہیں تھے۔
جنھیں پنجاب اور سندھ میں اکثریت ملی تھی جب کہ پورے مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب الرحمن کو اپنی مکمل نمایندگی کا حق دیا تھا۔ اس وقت کے صوبوں سرحد اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی بھی شیخ مجیب کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں تھیں اور صرف پیپلز پارٹی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ محلاتی اور سیاسی سازشوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ ایوب خان کی زندگی ہی میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان رہ جانے والے باقی پاکستان کے وزیر اعظم بنا دیے گئے تھے اور کچھ عرصے بعد ایوب خان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت تک کسی سیاستدان پر کرپشن کے اتنے سنگین الزامات نہیں لگے تھے جو ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد 50 سال میں بننے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مختلف گروپوں کی حکومتوں میں لگے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت 2008 تک قائم رہی مگر ان کی حکومت پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات نہیں لگے بلکہ انھوں نے نواز حکومت بر طرف کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کرپشن کی تحقیقات نیب سے کرائی تھی اور دونوں پارٹیوں کے کرپشن میں ملوث لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر تقریباً 9 سال حکومت کی۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال حکومت کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مہنگائی ضرور بڑھی مگر مہنگائی اتنی نہیں تھی کہ عوام سڑکوں پر آتے کیونکہ مہنگائی قابل برداشت رہی۔ مشرف دور سے قبل بھی ہر حکومت میں مہنگائی ہوئی مگر مہنگائی کے خلاف عوام کبھی سڑکوں پر اس لیے نہیں آئے کہ مہنگائی دنیا بھر میں بڑھ رہی تھی اور مہنگائی کی وجوہات کو حقیقت سمجھ کر خاموش رہے اور لوگ مہنگائی پر صبر کرتے کرتے اتنے صابر بن گئے کہ انھوں نے مہنگائی اور کرپشن کو قبول ہی کر لیا۔ ہر حکومت سے یہ امید ہی نہیں لگائی کہ وہ اس طرف توجہ دے۔
عمران خان نے 2011ء میں کرپشن اور مہنگائی کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کی سیاست کو عروج پر پہنچایا اور پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں شامل کرتے رہے اور انھوں نے عوام کو قائل کر دیا کہ ملک میں موجود کرپشن اور مہنگائی کی ذمے دار ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہیں۔ بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا جس سے عام لوگوں کو نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو ہی بہت کچھ ملا تھا اور بھٹو صاحب کی من مانیوں اور طفل تسلیوں سے عوام اسی طرح مایوس ہوئے تھے مگر پھر بھی ملکی معاشی حالت اچھی، مہنگائی کم اور روزگار تھا۔
بھٹو مرحوم بھی عمران خان کی طرح اپوزیشن کے خلاف اور اپنی حکومت کے غلط کاموں کی بھی واہ واہ چاہتے تھے اور حکومت کے 13 ماہ میں بھی یہی ہو رہا ہے اور آفرین ہے ان خوشامدیوں کو جب وہ عوام کی آواز بننے کی بجائے حکومت کی آواز بن کر عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ عوام کو دن میں خواب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور سب اچھا کی بنسری بجا رہے ہیں۔ عمران خان نے ہر مسئلے کا حل ملکی کرپشن کو قرار دیا تھا اور یہ تاثر دیا تھا کہ ان کی حکومت آتے ہی نہ صرف کرپشن ختم ہو جائے گی بلکہ ملک سے لوٹا گیا پیسہ بھی واپس آ جائے گا۔
عمران خان نے عوام کو بڑے سنہری خواب دکھائے تھے وہ تو پورے نہ ہوئے بلکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آگیا تو عوام 13 ماہ انتظار کے بعد یہ پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ کہاں ہے نیا پاکستان جس میں ایمان دار وزیر اعظم آتے ہی خوشحالی، روزگار کی فراوانی ہونی تھی مگر یہاں تو سب کچھ الٹ ہو گیا اور عوام بے صبرے ہو کر عمران خان سے پوچھنے لگے کہ وہ وعدے اور دعوے کہاں گئے جو چور ڈاکو حکمرانوں سے نجات کے بدلے ملنے تھے مگر یہاں تو صرف مہنگائی، بے روزگاری اور وعدے ہی ملے تو اب صبر کیسے ہو؟
وزیر اعظم کی طرف سے 13 ماہ گزرنے کے بعد عوام کو بے صبرا کہنے کو جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے وزیر اعظم کا اعتراف شکست قرار دیا ہے۔ ملک کے نامور تجزیہ کاروں نے جن میں عمران خان کے ایک بڑے حامی حسن نثار نے وزیر اعظم کے بیان کو عجیب وغریب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے لوگ 72 سال سے ذلیل و خوار ہو کر سستے خواب خرید رہے ہیں جس کے بعد اب بھی یہ لوگ بے صبرے اور قصور وار ہیں تو لوگوں کے ساتھ وزیر اعظم کا بھی خدا ہی حافظ ہے۔ ان سے زیادہ صابر لوگ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتے جو پہلی اور آخری بار حکومت کے خلاف اس وقت نکلے تھے جب صدر ایوب خان نے چینی کی قیمت بڑھائی تھی۔
عوام کے ایک طویل عرصے صبر کا ثبوت تو واضح ہے جنھوں نے ایوب حکومت کے آخری دور میں چینی کی قیمت میں صرف 25 پیسے کے اضافے پر احتجاج شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں صدر ایوب خان مستعفی ہو گئے تھے جنھوں نے مبینہ طور پر اس وقت کا مقبول نعرہ ''کتا ہائے ہائے'' اپنے پوتے کے منہ سے سن لیا تھا اور حکومت چھوڑ دی تھی کیونکہ ایک غیرت مند انسان کے لیے اتنا ہی کافی تھا انھوں نے اقتدار پر عزت کو ترجیح دی تھی اور مزید اقتدار میں رہ کر ملک و قوم کا مزید جانی و مالی نقصان ہونا گوارا نہیں کیا تھا۔
ایوب خان نے مارچ 1969 میں آخری نشری تقریر کی اور اقتدار سے با عزت طور پر الگ ہو گئے تھے۔ ایوب خان کے خلاف انھی کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک چلائی ۔ اس وقت اپوزیشن متحد تھی اور ایوب خان کی جگہ صدر وچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں جو عام انتخابات کرائے تھے۔ انھیں ملک کے واحد منصفانہ انتخابات قرار دیا جاتا ہے جو اگرچہ یحییٰ خان کی توقعات کے برعکس نتائج کے حامل تھے مگر ان کو بھی بھٹو صاحب کے سوا پوری اپوزیشن نے تسلیم کیا تھا اور اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر بھٹو صاحب راضی نہیں تھے۔
جنھیں پنجاب اور سندھ میں اکثریت ملی تھی جب کہ پورے مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب الرحمن کو اپنی مکمل نمایندگی کا حق دیا تھا۔ اس وقت کے صوبوں سرحد اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی بھی شیخ مجیب کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں تھیں اور صرف پیپلز پارٹی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ محلاتی اور سیاسی سازشوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ ایوب خان کی زندگی ہی میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان رہ جانے والے باقی پاکستان کے وزیر اعظم بنا دیے گئے تھے اور کچھ عرصے بعد ایوب خان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت تک کسی سیاستدان پر کرپشن کے اتنے سنگین الزامات نہیں لگے تھے جو ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد 50 سال میں بننے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مختلف گروپوں کی حکومتوں میں لگے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت 2008 تک قائم رہی مگر ان کی حکومت پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات نہیں لگے بلکہ انھوں نے نواز حکومت بر طرف کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کرپشن کی تحقیقات نیب سے کرائی تھی اور دونوں پارٹیوں کے کرپشن میں ملوث لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر تقریباً 9 سال حکومت کی۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال حکومت کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مہنگائی ضرور بڑھی مگر مہنگائی اتنی نہیں تھی کہ عوام سڑکوں پر آتے کیونکہ مہنگائی قابل برداشت رہی۔ مشرف دور سے قبل بھی ہر حکومت میں مہنگائی ہوئی مگر مہنگائی کے خلاف عوام کبھی سڑکوں پر اس لیے نہیں آئے کہ مہنگائی دنیا بھر میں بڑھ رہی تھی اور مہنگائی کی وجوہات کو حقیقت سمجھ کر خاموش رہے اور لوگ مہنگائی پر صبر کرتے کرتے اتنے صابر بن گئے کہ انھوں نے مہنگائی اور کرپشن کو قبول ہی کر لیا۔ ہر حکومت سے یہ امید ہی نہیں لگائی کہ وہ اس طرف توجہ دے۔
عمران خان نے 2011ء میں کرپشن اور مہنگائی کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کی سیاست کو عروج پر پہنچایا اور پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں شامل کرتے رہے اور انھوں نے عوام کو قائل کر دیا کہ ملک میں موجود کرپشن اور مہنگائی کی ذمے دار ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہیں۔ بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا جس سے عام لوگوں کو نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو ہی بہت کچھ ملا تھا اور بھٹو صاحب کی من مانیوں اور طفل تسلیوں سے عوام اسی طرح مایوس ہوئے تھے مگر پھر بھی ملکی معاشی حالت اچھی، مہنگائی کم اور روزگار تھا۔
بھٹو مرحوم بھی عمران خان کی طرح اپوزیشن کے خلاف اور اپنی حکومت کے غلط کاموں کی بھی واہ واہ چاہتے تھے اور حکومت کے 13 ماہ میں بھی یہی ہو رہا ہے اور آفرین ہے ان خوشامدیوں کو جب وہ عوام کی آواز بننے کی بجائے حکومت کی آواز بن کر عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ عوام کو دن میں خواب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور سب اچھا کی بنسری بجا رہے ہیں۔ عمران خان نے ہر مسئلے کا حل ملکی کرپشن کو قرار دیا تھا اور یہ تاثر دیا تھا کہ ان کی حکومت آتے ہی نہ صرف کرپشن ختم ہو جائے گی بلکہ ملک سے لوٹا گیا پیسہ بھی واپس آ جائے گا۔
عمران خان نے عوام کو بڑے سنہری خواب دکھائے تھے وہ تو پورے نہ ہوئے بلکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آگیا تو عوام 13 ماہ انتظار کے بعد یہ پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ کہاں ہے نیا پاکستان جس میں ایمان دار وزیر اعظم آتے ہی خوشحالی، روزگار کی فراوانی ہونی تھی مگر یہاں تو سب کچھ الٹ ہو گیا اور عوام بے صبرے ہو کر عمران خان سے پوچھنے لگے کہ وہ وعدے اور دعوے کہاں گئے جو چور ڈاکو حکمرانوں سے نجات کے بدلے ملنے تھے مگر یہاں تو صرف مہنگائی، بے روزگاری اور وعدے ہی ملے تو اب صبر کیسے ہو؟