جے یو آئی ف کا دھرنا سیاسی جلسے میں تبدیل ہونے جا رہا ہے

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات پر کھڑی ہے۔

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات پر کھڑی ہے۔

ان ہی سطور میں کہاگیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف آزادی مارچ کے نام پر جو مطالبات لے کر اٹھے ہیں ان کی وجہ سے وہ بند گلی میں جا کھڑے ہوں گے کیونکہ چودہ ماہ کے بعد نہ تو وزیراعظم کا استعفیٰ ممکن نظر آتا ہے اور نہ ہی نئے انتخابات اور حکومت و اپوزیشن کمیٹیوں کے درمیان جس انداز میں مذاکرات کے نتیجے میں اسلام آباد جلسے کے حوالے سے جو معاہدہ طے پایا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید یہ معاملہ جلسے کے انعقاد تک ہی محدود رہے اور اس سے آگے کچھ نہ ہو۔

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات پر کھڑی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے یہ دونوں مطالبات ماننے نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں اگر اپوزیشن کی یہ جاری تحریک ناکام ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی سیاست کو ہوگا کیونکہ اب اگر وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے ہیں تو تب بھی خسارے کا شکار ہوں گے اور اگر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو بزور منوانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے سامنے حکومت اور حکومتی مشینری کھڑی نظر آرہی ہے جس سے ٹکراؤ کا مطلب نقصان ہوگا۔

اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کی بنیادوں پر ضمانت کو بھی مذکورہ معاملے کے تناظر ہی میں دیکھاجا رہا ہے اور سمجھا یہ جا رہا ہے کہ شاید ان کی ضمانت ہونے اور ممکنہ طور پر ان کی بیرون ملک روانگی سے معاملات میں کوئی تبدیلی آجائے۔

تاہم اگر سابق وزیراعظم کو اسلام آبادہائی کورٹ سے بھی باقاعدہ طور پرضمانت مل جاتی ہے اور وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک چلے بھی جاتے ہیں تو اس سے مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبات پورے نہیں ہوں گے اور وہ بدستور ایسی پوزیشن پر رہیں گے کہ جس کی وجہ سے ان کا حکومت اور حکومتی مشینری سے ٹکراؤ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، اس ماحول میں اسٹیبلشمنٹ کیا کردار ادا کرتی ہے ؟وہ یقیناًسب سے اہم ہوگا ، مولانا فضل الرحمٰن کی آرمی چیف سے ملاقات کی جو خبریں سامنے آئیں ان کے حوالے سے بھی صورت حال واضح نہیں ہو سکی کہ آیا یہ ملاقات ہوئی تھی یا نہیں ؟اور اگر ملاقات ہوئی تو اس کے نتیجے میں کیا مولانا فضل الرحمٰن کا یہ مارچ صرف خانہ پری کی حد تک ہوگا یا پھر نتیجہ خیز؟ان معاملات کے حوالے سے تاحال صورت حال واضح نہیں۔

اس وقت تک تو ساری توجہ آزادی مارچ پر ہی ہے، خود مولانا فضل الرحمٰن کراچی سے پارٹی ورکروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف آئیں گے جنھیں صوبہ سندھ کی حدود ختم ہونے تک توگرفتاری یا نظربندی کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا تاہم جونہی وہ پنجاب کی حدود میں داخل ہونگے ان کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کے لیے اپنی کارکردگی دکھانے کا اس سے زیادہ اچھا موقع اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا سے جو قافلے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونگے انھیں روکنے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔


اس لیے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ 31 اکتوبر کو ملک بھر میں اچھا خاصا میدان گرم ہوگا جس کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا کیونکہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، تاہم اگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور ورکر اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں ایک نیا امتحان یہ درپیش ہوگا کہ آزادی مارچ کوجلسہ کرتے ہوئے ختم کردیا جائے یا پھر دھرنے کی صورت میں پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی تک جاری رکھاجائے؟

یہ سوال نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کا جواب تاحال کسی کے پاس نہیں اور اس سوال کا جواب رہبر کمیٹی کے لیے چھوڑا جارہا ہے تاکہ وہ حالات کی مناسبت سے اپنے قائدین سے مشاورت کرتے ہوئے اگلا لائحہ عمل وضع کریں، تاہم اگر اسٹیبلشمنٹ 31 اکتوبر سے پہلے ہی درمیان میں آتی ہے تو شاید صورت حال تبدیل ہو جائے،آزادی مارچ کے حوالے سے عوامی نیشل پارٹی بھی اپنے پلان اے کے تحت اب تک چل رہی تھی جو واضح نہیں تھا کیونکہ وہ مارچ میں شرکت کرنے کی بجائے مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر اس میں شرکت کی بات کر رہی تھی جو یقینی طور پر کمزور نوعیت کا پلان تھا تاہم اے این پی کے تھنک ٹینک نے پلان اے کی جگہ پلان بی دے دیا ہے جو مضبوط اور موثر نوعیت کا ہے۔

جس کے تحت اے این پی کے قائد اسفندیارولی خان اپنی پارٹی کے ورکروں کو لے کر خود بھی 31 اکتوبر ہی کو اسلام آباد کی طرف نکلیں گے جس کا باالفاظ دیگر یہی مطلب بنتا ہے کہ وہ جے یوآئی کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں اور بڑے عرصہ کے بعد اے این پی کسی جمہوری سیٹ اپ کے خاتمے کے لیے میدان میں نکل رہی ہے۔

جے یوآئی اور اے این پی توکھل کر میدان میں آگئی ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) بھی میدان میں نکلے گی تاہم خیبرپختونخوا کی حد تک پیپلزپارٹی کی صفوں پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت جس پر ویسے بھی وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہتے ہیں وہ اب تک کھل کر اپنا پلان نہیں لاسکی کہ وہ کس طریقے اور انداز سے آزادی مارچ کا حصہ بنے گی،آیا پیپلزپارٹی کے ورکر اپنے جھنڈے تلے الگ جلوس لے کر نکلیں گے یا پھر پی پی پی کے ورکر مارچ کے شرکاء پر گل پاشی کرتے ہوئے اپنا فریضہ انجام دیں گے یا پھر مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا انتظار کیا جائے گا؟اس سارے ماحول پر تاحال دھند چھائی ہوئی ہے اور حالات کے مطابق ہی صورت حال واضح ہوتی چلی جائے گی۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی میں صورت حال واضح ہو رہی ہے کیونکہ افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر اور عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ کے بعد اب ستارہ ایاز کا باب بھی بند کردیا گیا ہے، اے این پی میں اب ایمل ولی خان کی گرفت مضبوط تر ہوگئی ہے اور وہ سہولت کے ساتھ پارٹی کو چلا پائیں گے جبکہ مرکزی تنظیم چلانے کے لیے خود اسفندیارولی خان موجود ہیں اس لیے اب پارٹی کے اندر اینٹی عنصر ختم اور سب اچھا ہی اچھا ہے۔
Load Next Story