آزادی مارچ نیا سیاسی اتحاد وجود میں آسکتا ہے

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی طرف سے پرامن رہنے کی شرط پر ان قافلوں کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کی گئی۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی طرف سے پرامن رہنے کی شرط پر ان قافلوں کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کی گئی۔

ISLAMABAD:
جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیراہتمام آزادی مارچ بخیر و خوبی بلوچستان کی حدود پار کر کے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔

بلوچستان سے آزادی مارچ کے شرکاء نے تین روٹس استعمال کئے۔ ایک روٹ خضدار، لسبیلہ، کراچی، دوسرا روٹ کوئٹہ ،مچھ ،سبی،ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ اﷲ یار سے جیکب آباد سکھر اور تیسرا روٹ کوئٹہ کچلاک ،خانوزئی ،قلعہ سیف اﷲ ،لورالائی ،فورٹ منڈو ،رکھنی ،ڈیرہ غازی خان ،ملتان تک کا تھا۔

کوئٹہ سے ملتان تک کے قافلے کی قیادت جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع نے کی ان کے ہمراہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور پشتونخوامیپ کی صوبائی قیادت بھی تھی۔ بلوچستان سے سینکڑوں کی تعداد میں مختلف چھوٹی بڑی گاڑیوں پر مشتمل قافلے روانہ ہوئے قافلوں کے شرکاء کیلئے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد میں دھرنے کیلئے بھی شرکاء نے انتظامات کر رکھے تھے۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی طرف سے پرامن رہنے کی شرط پر ان قافلوں کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کی گئی۔تاہم دکی کے قریب ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں لیویز اہلکاروں اور جمعیت کے بعض کارکنوں کے درمیان بدمزگی ہوئی۔ اس کے علاوہ بلوچستان بھر میں آزادی مارچ کے قافلے پرامن ماحول میں بلوچستان کی حدود سے نکل کر پنجاب اور سندھ میں داخل ہوئے۔

بلوچستان سے روانگی سے قبل جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع ، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی (ف) کے قافلوں کو روکا جاتا ہے تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ہم عوام کے حقوق ، اسلامی قوانین کے نفاذ اور جمہوریت کے استحکام کیلئے نکلے ہیں اگر ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی تو ہم پیدل مارچ کریں گے اور پرامن رہتے ہوئے سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے۔

بلوچستان سے اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کیلئے نکلنے سے قبل جے یو آئی (ف) کی صوبائی قیادت نے اپنی مرکزی قیادت کی گائیڈ لائن پر عمل کرتے ہوئے باقاعدہ حکمت عملی بھی ترتیب دی جس کے تحت اگر قیادت کو گرفتار کیا جاتا ہے تو دوسرے درجے کے قائدین قیادت سنبھالیں گے اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی بعض رہنماؤں کو قافلے اسلام آباد تک پہنچنے اور صورتحال کا جائزہ لینے تک اپنے اپنے علاقوں میں رہنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں ۔


سیاسی مبصرین کے مطابق جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں آیا مولانا فضل الرحمان اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس کا فیصلہ اب چند روز میں ہو جائے گا؟۔ جبکہ اس مارچ کے بلوچستان کی سیاست پر کس حد تک اثرات مرتب ہونگے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم بعض سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ ملکی سیاست پر مستقبل قریب میں اس آزادی مارچ کے اثرات مرتب ہوں یا نہ ہوں لیکن بلوچستان کی سیاست میں ضرور ہونگے کیونکہ بلوچستان کی پشتون قوم پرست جماعتوں خصوصاً پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، اے این پی اور بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی نے جس طرح سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے اس آزادی مارچ کی حمایت کی ہے وہ بلوچستان کی سیاست میں آگے چل کر ایک بڑے سیاسی اتحاد کا بھی موجب بن سکتا ہے؟۔

ماضی میں یہ جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت کے باعث ہی عوام میں اپنی جگہ بناتی آئی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف سیاست کر کے ہی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہیں تاہم اس مرتبہ ان سیاسی جماعتوں میں قربتیں بڑھی ہیں جس کے اثرات مستقبل قریب میں صوبے کی سیاست پر مرتب ہوسکتے ہیں اگر یہ جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں تو بلوچستان کی سیاست کا رخ بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران حکومت کی توجہ ایک مرتبہ پھر اس طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں غیر جانبدارانہ الیکشن کی گارنٹی دی جائے تو مولانا فضل الرحمان کو میں منالوں گا کیونکہ اس وقت ملک بڑے نازک دور سے گزررہا ہے جسے بچانے کیلئے ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اُنہوں نے آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے پارٹی کارکنوں کو آزادی مارچ میں شرکت ، حالات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کی ہراسمنٹ کے ایک افسوسناک اسکینڈل نے جہاں صوبائی حکومت کو ہلا کر رکھا ہوا ہے وہاں ضوبے کی تمام سیاسی جماعتیں ، طلباء تنظیمیں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس اسکینڈل پر سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی اس اسکینڈل کی باز گشت سنائی دی جس کے بعد ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس اسکینڈل کے حوالے سے اپنی رپورٹ مرتب کرکے ایوان میں پیش کرے گی۔

رکن صوبائی اسمبلی محترمہ ماہ جبین شیران کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس پارلیمانی کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے جبکہ بلوچستان یونیورسٹی کے چانسلر و گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اﷲ خان یاسین زئی نے اس اسکینڈل کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کیلئے وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی ڈاکٹر جاوید اقبال کو ہٹادیا ہے اور ان کی جگہ ایک سینئر پروفیسر کو عبوری طور پر وائس چانسلر مقرر کیا ہے جبکہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے گورنر بلوچستان کو معاملے کی تحقیقات ہونے تک عہدے سے دستبرداری کی درخواست دی تھی جو اُنہوں نے قبول کرلی۔

صوبے کی سیاسی جماعتیں اور قبائلی شخصیات کی جانب سے اس اسکینڈل کے حوالے سے سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے طلباء تنظیمیں احتجاج پر چلی گئی ہیں اور سیاسی و قوم پرست جماعتیں اس افسوسناک واقعے کو صوبے کے سیاسی و قبائلی ننگ و ناموس اور اسلامی اقدار کے بھی منافی قرار دے رہی ہیں۔
Load Next Story