وزیراعظم صاحب مُہلت مبارک ہو لیکن

وزیراعظم صاحب! مُہلت میں اضافے یا اس کے خاتمے کا انحصار آپ کے درست فیصلوں اور درست رفقاء کے انتخاب پر ہے

کیا عمران خان ایک مردم شناس رہنما ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

PESHAWAR:
پاکستان کا المیہ قحط الرجال نہیں قحط الانتخاب ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ یہاں تمام شعبوں کےلیے موزوں افراد موجود نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں اقرباپروری، دوست نوازی یا نظریہ ضرورت کے تحت ہر شعبے میں غیرموزوں افراد کے تقرر کا چلن رائج ہے۔ چنانچہ یہ نااہل مردان و زنانِ وطن جہاں جہاں جاتے ہیں، داستان چھوڑ آتے ہیں۔

ملک کے موجودہ وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اپنی ملازمت کے آخری برسوں میں آئی ایس آئی میں اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے ڈی جی کو بائی پاس کرکے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے خفیہ روابط استوار کیے اور وزیراعظم نواز شریف کے جنرل ضیاء الدین بٹ سے راہ و رسم کی اطلاعات پرویز مشرف تک پہنچاتے رہے۔ بقول جنرل (ر) بٹ، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی اس حرکت پر انہوں نے جنرل (ریٹائرڈ) ضیاء الدین بٹ سے معذرت بھی کی۔ تاہم دوسری طرف ان ''خدمات'' کے صلے میں چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف نے انہیں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب میں ہوم سیکریٹری لگا دیا اور اس عہدے پر ہوتے ہوئے شاہ صاحب نے اپنے باس پرویز مشرف کےلیے ق لیگ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس خدمت کے اعتراف میں صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اس پرانے وفادار کو ڈی جی آئی بی تعینات کر دیا۔

جب بی بی شہید پاکستان تشریف لائیں تو شاہ صاحب اسی عہدۂ جلیلہ پر متمکن تھے۔ بی بی کو کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگیں مگر ان کی سیکیورٹی کا خاطرخواہ انتظام نہ کیا گیا۔ الٹا آمر اور اس کا ٹولہ انہیں انتخابی مہم چھوڑ کر گھر بیٹھنے کی تلقین کرتا رہا۔ بی بی نے شہادت سے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک خط میں اپنے ممکنہ قاتلوں کی فہرست میں دیگر افراد کے ساتھ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا نام بھی لکھا۔

یوں شاہ صاحب اپنے پورے کیریئر کے دوران ہر وہ کام بصد شوق کرتے رہے جو ان کا نہیں تھا؛ اور ہر اُس کام کو کرنے سے احتراز کرتے رہے جو اُن کا تھا۔

پاکستان مبینہ طور پر ایک جمہوری ملک ہے۔ جلسے، جلوس، مظاہرے، دھرنے جمہور کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ ان مظاہرین کو سیکیورٹی فراہم کرنا اور ان کے ممکنہ طور پر متشدد ہونے کی صورت میں دیگر شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا، تنی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی میں عمر گزارنے والا شخص انٹیلی جنس معلومات کے حصول، خفیہ سیکیورٹی آپریشنز اور اسی طرح کی دیگر خاموش اور پس پردہ مہمات کا ماہر تو ہوسکتا ہے لیکن پولیس آپریشنز، ہنگاموں، مظاہروں اور دھرنوں سے نمٹنا اس کی ٹریننگ کا حصہ نہیں ہوتا۔ اور اگر ہو بھی تو اس کا ان معاملات سے نمٹنے کا طریقہ جمہوری یعنی نرم اور کھلے عام نہیں بلکہ آمرانہ یعنی سخت گیر اور خفیہ سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔

بینظیر بھٹو پر چاروں جانب سے حملہ کیا گیا، کئی لوگوں نے فائرنگ کی، خودکش حملہ ہوا۔ کئی دہشت گرد اتنی بڑی لیڈر کے جلسے پر حملے کےلیے شہر میں آئے، وہاں رہے، اسلحہ لے کر اپنی کمین گاہوں سے جلسہ گاہ تک پہنچے لیکن آئی بی اور اس کے سربراہ کو نہ حملے سے پہلے کسی کا کوئی سراغ ملا اور نہ اس کے بعد۔


آج شاہ صاحب وزیر داخلہ ہیں۔ تمام سول سیکیورٹی ادارے ان کے ماتحت ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں کی بڑی تعداد سراپا احتجاج ہے۔ کیا شاہ صاحب ان سب کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ جب وہ پہلے بھی ایک بڑی رہنما کے جلسے سے قبل فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنانے میں ناکام رہ چکے ہیں اور الٹا سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث رہ چکے ہیں تو پھر آج ان سے یہ توقع کیسی کی جارہی ہے کہ وہ ملک کے تمام رہنماؤں اور شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنا پائیں گے؟

بات صرف اس ایک وزیر کے تقرر یا صرف ایک احتجاج کی نہیں۔ بات وزراء اور اداروں کے سربراہان کے تقرر کے طریقۂ کار یا ان تقرریوں کے معیار کی ہے۔ اہم عہدوں پر نااہل افراد کا تقرر حکومت کی بدنامی اور اہل افراد کا تقرر حکومت کی نیک نامی کا سبب بنتا ہے۔

شبر زیدی کا تقرر اور ان کی قیادت میں ایف بی آر کا قدرے فعال کردار، ٹیکس نیٹ میں بتدریج اضافہ اور کرنٹ اکاؤنٹس کے خسارے میں کمی حکومت کی نیک نامی اور وزیراعظم کے مردم شناس ہونے اور میرٹ پسند ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مراد سعید کی زیرقیادت محکمہ ڈاک میں بہتری، اس کے خسارے میں کمی، آمدن میں اضافہ اور محکمے کی جانب سے ملازمین کی فلاح کےلیے اٹھائے گئے اقدامات کا کریڈٹ بھی وزیراعظم کے کھاتے میں ہی ڈالا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک محنتی شخص کا تقرر کرکے ایک ایسے ادارے کو جو سفید ہاتھی بن چکا تھا، اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے۔

اس کے برعکس شیخ رشید صاحب کی چلے ہوئے کارتوسوں جیسی بوگس سیاسی پیش گوئیوں میں زیادہ اور ریلوے کے انتظام و معیار کو بہتر بنانے میں کم دلچسپی بھی عمران خان صاحب ہی کے کھاتے میں پڑے گی۔ شہری مسلسل شیخ صاحب کے عہدِ وزارت کا خواجہ سعد رفیق کے عہدِ وزارت سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اگر ٹرینیں یونہی تاخیر کا شکار ہوتی رہیں اور سہولیات سے عاری رہیں اور دعوؤں کے باوجود شیخ صاحب ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے میں ناکام ہی رہے، تو انہیں شاید اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑے لیکن عمران خان صاحب کو اگلے الیکشن میں عوام کے غصے کا سامنا ضرور کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا عمران خان ایک مردم شناس رہنما ہیں؟ کیا ان میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ ہر شعبے کےلیے موزوں سربراہ کا انتخاب کرسکیں؟ کیا ان کے مقرر کردہ وزراء اور مشیران و معاونین درست کام کررہے ہیں یا محض باتوں کے طوطے اُڑا رہے؟ عمران خان صاحب کے پاس ان سوالات کے جواب دینے کی کوئی فرصت نہیں۔ ان سوالات کا جواب عوام دیں گے، اگلے الیکشن میں!

وزیراعظم صاحب! مُہلت مبارک ہو لیکن اس میں اضافے یا اس کے خاتمے کا انحصار آپ کے درست فیصلوں اور درست رفقاء کے انتخاب پر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story