
یہ منظر ہم سے 70 کروڑ 40 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر وقوع پذیر ہورہا ہے جسے ''آرپ میڈور 2026-424'' کا نام دیا گیا ہے۔ ان کہکشاؤں کی اوّلین تصویر بہت سال پہلے ہالٹن آرپ اور بیری میڈور نامی دو ماہرینِ فلکیات نے حاصل کی تھی جسے 1987 میں ''اے کٹیلاگ آف سدرن پیکیولیئر گیلکسیز اینڈ ایسوسی ایشنز'' میں شائع کیا گیا۔ انہوں نے اس منظر کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ دراصل حلقہ دار کہکشاں ہے جس کا بڑا حلقہ، اس کے چھوٹے حلقے سے ٹکرا رہا ہے۔
البتہ، بعد میں جب یہی منظر ہبل خلائی دوربین اور دوسری طاقتور دوربینوں کی مدد سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ دراصل دو الگ الگ کہکشائیں ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکرانے کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ ان کے مرکزوں میں روشن ستاروں کی تعداد زیادہ ہے جو اس چہرے میں آنکھوں کی مانند نظر آرہے ہیں؛ جبکہ مرکزوں سے دور پھیلے ہوئے ستارے کچھ ایسی ترتیب میں آگئے ہیں کہ ایک چہرہ بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں، کہکشاؤں میں جاری تصادم کے باعث ان میں نئے ستارے بھی زیادہ تعداد میں بن رہے ہیں جو تصویر کے دیگر خد و خال کو نمایاں کررہے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ منظر ایسا لگ رہا ہے جیسے تاریک آسمان میں کسی آدمی کا روشن چہرہ، جو ہماری طرف دیکھ رہا ہو۔
اس پراسرار کائناتی چہرے کو ڈاؤن لوڈ کرنے کےلیے ہبل خلائی دوربین کے اس پیج پر وزٹ کیجیے:
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔