عید کی چھٹیاں اور کچھ مصروفیات
میں ذاتی طور پر نواز شریف صاحب کی دونوں حکومتوں کا شدید ناقد رہا ہوں۔ انھوں نے شریعت بل متعارف کرایا تو میں نے بڑے...
میرے لیے یہ عید پورے نو دن کی چھٹیاں لائی ہے۔ اسی چھٹی کے آغاز کے ساتھ ہی میں بڑے شوق سے کتابوں کی ایک دکان میں گھسا۔ بجائے ہر طرح کی کتابیں ٹٹولنے کے میں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ ساری توجہ انگریزوں کی برصغیر آمد، 1857 کی شورش اور سکھ دور کے پنجاب کے موضوعات پر دی جائے گی۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے خاندان کی جو تفصیلی تاریخ ''کارِ جہاں دراز ہے'' میں بیان کی ہے، دو جلدوں کی صورت میرے پاس ہوا کرتی تھی۔ کئی برس پہلے ایک دوست اسے پڑھنے کے لیے لے گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ اس نے وہ کتاب پڑھی یا نہیں۔ مگر مجھے واپس نہیں دی۔ اب یہی کتاب ایک جلد کی صورت مل جاتی ہے اور میں اسے پڑھنا چاہتا تھا۔
بہرحال دس کے قریب کتابیں خرید کر گھر لوٹا۔ اپنے بستر کے ساتھ والی میز پر انھیں اس ترتیب سے رکھا جس کے ساتھ میں انھیں پڑھنا چاہ رہا تھا۔ انگریزی اور اُردو کی لغات بھی جھاڑ پونچھ کر ان کے ساتھ رکھ دیں اور اپنا ''ہفتۂ دانشوری'' منانے کے لیے پوری طرح تیار ہو گیا۔ مگر یہ سارا اہتمام دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار دوستوں نے اپنے گھروں پر بلا لیا۔ وہاں سے رات کے دو تین بجے واپس گھر آ کر دوسرے دن دوپہر تک سوتا رہا۔ اُٹھنے کے بعد اخبارات کا ایک پلندہ ختم کرنے کی عادت ہے۔ ٹی وی بھی دیکھنا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر جا کر اپنے محب الوطن پارسائوں کی گالیاں پڑھے بغیر مجھے اپنا دن پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ میری خرید کردہ کتابیں میز پر اسی ترتیب سے ابھی تک موجود ہیں۔ میں احساسِ جرم کا مارا ان سے ایک ایسے بچے کی طرح نظریں چُراتا رہتا ہوں جس نے اپنا ہوم ورک مکمل نہ کیا ہو۔ دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھ کر گپ بازی کی میری عادت بڑی پرانی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے لیکن دل بھر سا گیا ہے۔ مگر چند دوست اب بھی ہیں جنھیں انکار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر ان دنوں جب انھیں اچھی طرح معلوم ہو کہ میں بالکل فارغ ہوں۔
بہرحال دوستوں کی جس محفل میں میں پہلے روز شریک ہوا وہاں دو غیر ملکی صحافی اور ایک یورپی سفارتکار بھی موجود تھے۔ وہ تینوں اس بات پر بہت حیران تھے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں سے وہ ان دنوں ملے ہیں وہ سارے کے سارے ملالہ کی بیرونی دُنیا میں اتنی پذیرائی پر ہرگز خوش نہیں تھے۔ ان لوگوں کی حیرانی اور پریشانی کا اصل سبب یہ بھی تھا کہ وہ سوات کے جن لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے وہ اچھی انگریزی بولتے تھے۔ کئی ایک نے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی اور ان دنوں چند بڑے نام والی دیسی یا غیر ملکی فرموں کے لیے بھاری تنخواہوں پر کام کر رہے تھے۔ ایمانداری کی بات ہے میرے سمیت اس محفل میں موجود کوئی بھی دوست ان غیر ملکیوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے پایا۔ عمومی طور پر بس اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ حالیہ چند برسوں میں ہمارے شہری متوسط طبقے کی اکثریت کا ایک Mindset بن گیا ہے۔
وہ امریکا اور یورپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنے سیاست دانوں سے نفرت کرتی ہے۔ انھیں نااہل اور بدعنوان سمجھتی ہے۔ عمران خان سے ان لوگوں کو بڑی اُمیدیں تھی۔ مگر وہ وزیر اعظم نہ بن پائے اور ان کے پرستاروں کے دل اب بجھ سے گئے ہیں۔ آج کل جائیں تو جائیں کہاں والے تذبذب کا شکار ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کو ملالہ جیسی علامتوں سے نفرت کرنے والی روایت کو فروغ دینے کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں اس آمر کا ہرگز طرفدار نہیں ہوں۔ مگر وہ تو 1988 کے بعد اس دُنیا میں نہیں رہا۔ اس کا مبینہ طور پر متعارف کرایا گیا مائینڈسیٹ مگر تبدیل کیوں نہ ہوا؟ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے اس پر غور تک نہیں کرتی۔
دریں اثناء ایک اور 12 اکتوبر آیا۔ 2013 کے اس 12 اکتوبر کو جنرل مشرف پر زبردست تنقید ہوئی۔ چونکہ آج کل حکومت نواز شریف کی ہے اور اس آمر نے ان کی دوسری حکومت کا تختہ الٹا تھا، اس لیے پاکستان ٹیلی وژن نے اس 12 اکتوبر کو ویسی ہی اہمیت دی جو اس کے لیے کام کرنے والے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دنوں میں 5 جولائی 1977کو ضیاء الحق کے لگائے مارشل لاء کے حوالے سے دیا کرتے تھے۔
میں ذاتی طور پر نواز شریف صاحب کی دونوں حکومتوں کا شدید ناقد رہا ہوں۔ انھوں نے شریعت بل متعارف کرایا تو میں نے بڑے تواتر سے چلانا شروع کر دیا کہ اس بل کے نام پر وہ ہمارے ''امیر المومنین'' بننا چاہ رہے ہیں۔ اس تنقید کے باوجود میں ایک فوجی آمر کے ہاتھوں ان کی برطرفی کی حمایت نہ کر پایا۔ مجھے اصل دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ان دنوں جو لوگ جنرل ضیاء کے متعارف کردہ Mindset کے خلاف اپنے دوستوں کی محفلوں میں جلے بُھنے دل کے ساتھ لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں، ان کی بے پناہ اکثریت نے جنرل مشرف کی آمد کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا۔ نام کیا لینے؟ مگر بارہا میں نے روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامتیں بنے کئی لکھاریوں، صحافیوں اور فنکاروں کو اس آمر کا بڑی شدومد سے دفاع کرتے ہوئے بھگتا ہے۔ جنرل مشرف جب صلاح مشورے کے نام پر صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے دربار میں طلب کرتا تو یہ خواتین و حضرات اس آمر کے ''ویژن'' کے غلامانہ چرب زبانی کے ساتھ گن گاتے۔
میرے ساتھ تنہا بیٹھ کر بھی وہ بڑے جذباتی انداز میں مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ افغان جہاد کے نام پر ایک فوجی آمر نے امریکی امداد کے ذریعے پاکستان میں ''ملا ازم'' کو فروغ دیا تھا۔ اس Mindsetکا مقابلہ ووٹوں کے محتاج اور دل سے ''بے ایمان'' سیاستدان نہیں کر سکتے۔ ''صفائی ستھرائی'' صرف ایک اور فوجی آمر ہی کر سکتا تھا اور جنرل مشرف ہی وہ شخص ہے جو پاکستان کا ''کمال اتاترک'' بن سکتا ہے۔ روشن خیالی اور ترقی پسندی کی اپنی ''علامتوں'' کو اس 12 اکتوبر کے روز ٹی وی اسکرینوں پر جنرل مشرف کی لعنت ملامت کرتے دیکھ اور سن کر میرا خون کھولتا رہا۔ ''دانش وارانہ دیانت'' بھی ایک چیز ہوا کرتی ہے۔ جب کسی معاشرے کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ اسے کھو بیٹھیں تو وہی ''تلنگا شاہی'' راج کرتی ہے جس نے 1857 کے دلی اور پورے برصغیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اپنا حال بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی دِکھ رہا ہے۔ مگر اس کا ذمے دار جنرل ضیاء نہیں میرے جیسے لکھاری ہیں جو سوچتے کم اور لکھتے زیادہ ہیں وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کے لکھے سے کسی کا دل نہ ٹوٹے۔
بہرحال دس کے قریب کتابیں خرید کر گھر لوٹا۔ اپنے بستر کے ساتھ والی میز پر انھیں اس ترتیب سے رکھا جس کے ساتھ میں انھیں پڑھنا چاہ رہا تھا۔ انگریزی اور اُردو کی لغات بھی جھاڑ پونچھ کر ان کے ساتھ رکھ دیں اور اپنا ''ہفتۂ دانشوری'' منانے کے لیے پوری طرح تیار ہو گیا۔ مگر یہ سارا اہتمام دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار دوستوں نے اپنے گھروں پر بلا لیا۔ وہاں سے رات کے دو تین بجے واپس گھر آ کر دوسرے دن دوپہر تک سوتا رہا۔ اُٹھنے کے بعد اخبارات کا ایک پلندہ ختم کرنے کی عادت ہے۔ ٹی وی بھی دیکھنا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر جا کر اپنے محب الوطن پارسائوں کی گالیاں پڑھے بغیر مجھے اپنا دن پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ میری خرید کردہ کتابیں میز پر اسی ترتیب سے ابھی تک موجود ہیں۔ میں احساسِ جرم کا مارا ان سے ایک ایسے بچے کی طرح نظریں چُراتا رہتا ہوں جس نے اپنا ہوم ورک مکمل نہ کیا ہو۔ دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھ کر گپ بازی کی میری عادت بڑی پرانی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے لیکن دل بھر سا گیا ہے۔ مگر چند دوست اب بھی ہیں جنھیں انکار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر ان دنوں جب انھیں اچھی طرح معلوم ہو کہ میں بالکل فارغ ہوں۔
بہرحال دوستوں کی جس محفل میں میں پہلے روز شریک ہوا وہاں دو غیر ملکی صحافی اور ایک یورپی سفارتکار بھی موجود تھے۔ وہ تینوں اس بات پر بہت حیران تھے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں سے وہ ان دنوں ملے ہیں وہ سارے کے سارے ملالہ کی بیرونی دُنیا میں اتنی پذیرائی پر ہرگز خوش نہیں تھے۔ ان لوگوں کی حیرانی اور پریشانی کا اصل سبب یہ بھی تھا کہ وہ سوات کے جن لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے وہ اچھی انگریزی بولتے تھے۔ کئی ایک نے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی اور ان دنوں چند بڑے نام والی دیسی یا غیر ملکی فرموں کے لیے بھاری تنخواہوں پر کام کر رہے تھے۔ ایمانداری کی بات ہے میرے سمیت اس محفل میں موجود کوئی بھی دوست ان غیر ملکیوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے پایا۔ عمومی طور پر بس اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ حالیہ چند برسوں میں ہمارے شہری متوسط طبقے کی اکثریت کا ایک Mindset بن گیا ہے۔
وہ امریکا اور یورپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنے سیاست دانوں سے نفرت کرتی ہے۔ انھیں نااہل اور بدعنوان سمجھتی ہے۔ عمران خان سے ان لوگوں کو بڑی اُمیدیں تھی۔ مگر وہ وزیر اعظم نہ بن پائے اور ان کے پرستاروں کے دل اب بجھ سے گئے ہیں۔ آج کل جائیں تو جائیں کہاں والے تذبذب کا شکار ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کو ملالہ جیسی علامتوں سے نفرت کرنے والی روایت کو فروغ دینے کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں اس آمر کا ہرگز طرفدار نہیں ہوں۔ مگر وہ تو 1988 کے بعد اس دُنیا میں نہیں رہا۔ اس کا مبینہ طور پر متعارف کرایا گیا مائینڈسیٹ مگر تبدیل کیوں نہ ہوا؟ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے اس پر غور تک نہیں کرتی۔
دریں اثناء ایک اور 12 اکتوبر آیا۔ 2013 کے اس 12 اکتوبر کو جنرل مشرف پر زبردست تنقید ہوئی۔ چونکہ آج کل حکومت نواز شریف کی ہے اور اس آمر نے ان کی دوسری حکومت کا تختہ الٹا تھا، اس لیے پاکستان ٹیلی وژن نے اس 12 اکتوبر کو ویسی ہی اہمیت دی جو اس کے لیے کام کرنے والے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دنوں میں 5 جولائی 1977کو ضیاء الحق کے لگائے مارشل لاء کے حوالے سے دیا کرتے تھے۔
میں ذاتی طور پر نواز شریف صاحب کی دونوں حکومتوں کا شدید ناقد رہا ہوں۔ انھوں نے شریعت بل متعارف کرایا تو میں نے بڑے تواتر سے چلانا شروع کر دیا کہ اس بل کے نام پر وہ ہمارے ''امیر المومنین'' بننا چاہ رہے ہیں۔ اس تنقید کے باوجود میں ایک فوجی آمر کے ہاتھوں ان کی برطرفی کی حمایت نہ کر پایا۔ مجھے اصل دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ان دنوں جو لوگ جنرل ضیاء کے متعارف کردہ Mindset کے خلاف اپنے دوستوں کی محفلوں میں جلے بُھنے دل کے ساتھ لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں، ان کی بے پناہ اکثریت نے جنرل مشرف کی آمد کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا۔ نام کیا لینے؟ مگر بارہا میں نے روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامتیں بنے کئی لکھاریوں، صحافیوں اور فنکاروں کو اس آمر کا بڑی شدومد سے دفاع کرتے ہوئے بھگتا ہے۔ جنرل مشرف جب صلاح مشورے کے نام پر صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے دربار میں طلب کرتا تو یہ خواتین و حضرات اس آمر کے ''ویژن'' کے غلامانہ چرب زبانی کے ساتھ گن گاتے۔
میرے ساتھ تنہا بیٹھ کر بھی وہ بڑے جذباتی انداز میں مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ افغان جہاد کے نام پر ایک فوجی آمر نے امریکی امداد کے ذریعے پاکستان میں ''ملا ازم'' کو فروغ دیا تھا۔ اس Mindsetکا مقابلہ ووٹوں کے محتاج اور دل سے ''بے ایمان'' سیاستدان نہیں کر سکتے۔ ''صفائی ستھرائی'' صرف ایک اور فوجی آمر ہی کر سکتا تھا اور جنرل مشرف ہی وہ شخص ہے جو پاکستان کا ''کمال اتاترک'' بن سکتا ہے۔ روشن خیالی اور ترقی پسندی کی اپنی ''علامتوں'' کو اس 12 اکتوبر کے روز ٹی وی اسکرینوں پر جنرل مشرف کی لعنت ملامت کرتے دیکھ اور سن کر میرا خون کھولتا رہا۔ ''دانش وارانہ دیانت'' بھی ایک چیز ہوا کرتی ہے۔ جب کسی معاشرے کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ اسے کھو بیٹھیں تو وہی ''تلنگا شاہی'' راج کرتی ہے جس نے 1857 کے دلی اور پورے برصغیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اپنا حال بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی دِکھ رہا ہے۔ مگر اس کا ذمے دار جنرل ضیاء نہیں میرے جیسے لکھاری ہیں جو سوچتے کم اور لکھتے زیادہ ہیں وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کے لکھے سے کسی کا دل نہ ٹوٹے۔