چنگ چی رکشوں پر پابندی

کراچی شہر میں چلنے والے چنگ چی رکشہ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔ پولیس نے پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے...


Dr Tauseef Ahmed Khan October 15, 2013
[email protected]

LAHORE/KARACHI: کراچی شہر میں چلنے والے چنگ چی رکشہ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔ پولیس نے پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے پہلے دن دو سو رکشے ضبط کرکے متعدد ڈرائیور وں کو گرفتار کرلیا۔ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 972 پر عمل کرتے ہوئے ڈرائیوروں کو گرفتار کیا۔ کراچی کے ٹریفک کے امور کے ایڈیشنل آئی جی کا کہنا ہے کہ یہ رکشے بغیر کسی پرمٹ کے چل رہے تھے اور رکشوں میں چوری کی موٹر سائیکلوں کے انجن استعمال ہورہے ہیں۔ ان رکشوں کو کم عمر ڈرائیور چلاتے ہیں اس بناء پر حادثات کی شرح بڑھ گئی تھی پہلے پولیس نے شاہراہ فیصل پر ان چنگ چی رکشوں کی آمد پر پابندی لگائی تھی اب پورے شہر میں اس کا اطلاق ہوگیا۔ یوں عام آدمی کے لیے سفر میں مزید مشکلات پیدا ہوگئیں۔

کراچی کا شمار دنیا کے ان چند بڑے شہروںمیں ہوتا ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں کم سے کم ہوتی جارہی ہیں ۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ گزشتہ صدی کے آغاز پر کراچی کا شمار برصغیر کے ان چند شہروں میں ہوتا تھا جہاں کے شہریوں کو اس وقت کی ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں حاصل تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ممبئی اور کراچی میں ٹرام سروس ساتھ ساتھ چلنا شروئی ہوئی تھی ، پہلے گھوڑے ٹرام کھینچتے تھے پھر بھاپ کا انجن آنے کے بعد ٹرام کراچی کے وسیع علاقے میں دوڑنے لگے ۔ ٹرام کا ٹکٹ انتہائی سستا ہوتا تھا اور سفر آرام دہ اور محفوظ ہوتا تھا ۔ پھر کراچی میں بس اورڈبل ڈیکر بس چلنے لگی ان ٹرام اور بسوں میں وردی پہنے کنڈیکٹر ہوتے تھے جو ہر مسافر کو ٹکٹ دیتے اور سیٹی بجا کر اسٹاپ پر روکتے تھے جب شہر کی آبادی بڑھی اور نئی بستیاں آباد ہونے لگی تو بسوں کی قلت پیدا ہوئی ۔ ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے کا جال بچھایا گیا یہ سرکلر ریلوے پپری سے وزیر مینشن دوسری طرف ڈرگ روڈ سے اردو کالج ، ناظم آباد ، سائٹ سے ہوتی ہوئی سٹی اسٹیشن سے منسلک ہوجاتی تھی ۔

کراچی کے مضافاتی علاقوں سے آنے والوں کے لیے سرکلر ریلوے بہترین سروس تھی ۔ صبح کے اوقات میں ہر 15 منٹ بعد ٹرین کینٹ اسٹیشن اور سٹی اسٹیشن تک جاتی تھی اور شام میں یہ ریل گاڑی اس ہی شیڈول کے مطابق واپسی کا سفر کرتی تھیں ۔ حکومت نے بسوں کی قلت دور کرنے کے لیے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی تھی۔ کے ٹی سی کراچی یونیورسٹی کے طلباء کے لیے بھی سہولت فراہم کرتی تھی پھر سب سے پہلے ٹرام کو بند کرنے کی مہم شروع ہوئی ۔ ٹرام کا متبادل پیلی رنگ کی چھوٹی بس قرار دی گئی جن میںمسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے پھر پاکستان ریلوے میں بدعنوانیاں بڑھنے لگی ۔ سرکلر ریلوے کی سروس کا معیار گرنے لگا پہلے تو ریل گاڑی لیٹ ہوتی تھی پھر اس کے ڈبوں میں سے بجلی کی بلب اور باتھ روم سے پانی غائب ہونے لگا ہر دوسری گاڑی کے انجن خراب ہونے کی خبریں عام ہوگئی یوں عوام کا اعتماد مجروح ہونے لگا اس کے ساتھ کے ٹی سی میں بدعنوانی کو عروج حاصل ہوا ۔ بسیں غائب ہونے لگیں ، یوں شہر میں منی بسوں کا راج ہوگیا ۔ ان بسوں میں مسافروں کو ٹھونسا جانے لگا ۔

کنڈیکٹروں نے ٹکٹ دینے کا رواج ختم کردیا ، اس زمانے میں نجی شعبے میں بڑی بسیں چلتی تھیں مگر ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے ، سیاسی ہنگاموں میں بسوں کو آگ لگانے کی وارداتوں نے نجی شعبے کو بد ظن کرنا شروع کیا اسطرح نجی شعبے کی سرمایہ کاری ختم ہونی شروع ہوئی ۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں سر سید کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی کی منی بس کی زد میں آکر ہلاکت کے خلاف دراصل فرسودہ ٹرانسپورٹ کے نظام کے خلاف احتجاج تھا مگر مفاد پرست عناصر نے اس کو لسانی شکل دیدی، یوں چھوٹی منی بسوں کی جگہ بڑی منی بسیں سڑکوں پر آگئیں ، اسطرح کوچز چلنے لگیں مگر ٹرانسپورٹ کو جدید تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے عمل شروع نہیں ہوسکا۔ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عملدرآمد کا اعلان کیا ۔ اس ماس ٹرانزٹ پروگرام پر ایوب خان کے دور سے کاغذات پر کام شروع ہواتھا مگر بے نظیر بھٹو حکومت نے 18 ماہ کے دور میںاس معاملے پر توجہ نہ دے سکی ۔

مسلم لیگ کی پہلی حکومت میں یلو کیب اسکیم آئی ، قومی بینکوں نے اربوں روپے کے قرضے یلو کیب خریداری کی اسکیم میں دیے ، بہت سے لوگوں نے مرسڈیز ٹیکسیاں تک خرید لیں مگر بڑی بسوں اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں کو نظر انداز کردیا گیا ، کئی سالوں بعد یہ ٹیکسیاں سڑکوں سے لاپتہ ہوگئیں ، نتیجتاََ چار قومی بینک دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ گئے ۔ بے نظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت میں فہیم الزمان بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے انھوں نے ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عمل درآمد کے لیے آغاز کیا مگر انھیں کے ایم سی سے رخصت کردیا گیا ۔نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں میٹرو بس کی اسکیم شروع ہوئی ۔ متوسط طبقے کو نسبتاََ زیادہ ٹکٹ دے کر پبلک ٹرانسپورٹ پر آرام دہ سفرکی سہولت ملی۔ جب پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کے رہنما نعمت اللہ خان ناظم اعلیٰ بنے تو ان کی کوششوں سے بینکوں سے لیز پر بڑی بسیں ، ایئر کنڈیشنڈ بسیں اور میٹرو بسیں سڑکوں پر دوڑنے لگیں ۔ بعض بسوں میں خود کار دروازے تھے جو بس اسٹاپ پر کھلتے تھے۔

کنڈیکٹر مسافروں کو ٹکٹ دیتے تھے۔ یہ دور کراچی کے شہریوں کے لیے حیرت انگیز دور تھا مگر ان ٹرانسپورٹرز نے بینکوں کے قرضے ادا نہیں کیے ۔ کچھ ٹرانسپورٹر کراچی کے حالات کی بناء پر ان بسوں کو پنجاب اور پنختونخواہ لے گئے جب ایم کیوایم کے ناظم مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو انھوں نے کراچی میں بڑی سڑکیں انڈر پاسز ، اوور ہیڈ برج تعمیر کرنے پر خصوصی توجہ دی مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ان کے ایجنڈا میںنہیں تھا ۔ ان کے آخر ی دور میںبڑی گرین بسیں چلیں ضرور ، جن سے شہریوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوا مگر ان کے رخصت ہوتے ہی یہ بسیں لاپتہ ہوگئیں ۔ اس دور میں چینی ساختہ چنگ چی رکشے سڑکوں پرنظر آنے لگے ، کیونکہ شہرسے بسیں لاپتہ ہورہی تھیں اس لیے عام آدمی نے ان رکشوں کو غنیمت جانا ۔ حکومت سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹی اور کراچی پولیس نے ان رکشوں میں مسافروں کو بٹھانے کی اجازت کیسے دی ۔ یہ کوئی نہیں جانتا ، نامعلوم افراد نے ان کے روٹس تقسیم کیے۔ نو عمر بچے ان رکشوں کے ڈرائیور بن گئے ۔

ان رکشوں نے پورے شہری ٹرانسپورٹ کا نظام استعمال کیا ۔ یہ سب کچھ پیپلزپارٹی کے دور میں ہوا۔ اس لیے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوگی کہ پیپلزپارٹی 5 سال تک وفاق اور سندھ میں حکومت کرتی رہی۔ ان حکومتوں نے کراچی کے عوام کے اس بنیادی مسئلے کو نظر انداز کیا یوں عوام کے پاس چنگ چی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں رہا۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی جانب سے ترکی کی مدد سے میٹرو بس منصوبے کا مذاق اڑاتے ہوئے اتنی خجالت بھی محسوس نہیں ہوئی کہ ان کی حکومت میں کراچی کے عوام بسوں اور ریل گاڑی کے ذریعے سستے سفر کو ترس رہے ہیں ۔ اس وقت کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔ بڑی بسیں ناپید ہیں ، منی بس اور کوچز چلتی ہیں جن میں خطرناک گیس سلنڈر لگے ہوئے ہیں ۔ جب سی این جی بند ہوتی ہے تو منی بسوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے ۔

غریب آدمی بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں ۔ عورتیں ، بچے اور بوڑھے بس اسٹاپ پر کھڑے انتظار کرتے رہتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ خالی کھڑے ہوئے رکشوں میں بیٹھ جائیں ۔ سی این جی سے چلنے والے یہ رکشے سی این جی کی بندش والے دن پٹرول سے چلتے ہیں یوں پٹرول کی قیمت مسافروں سے وصول کرتے ہیں ۔ حکومت کو چنگ چی رکشوںپر اگرپابندی لگانی ہے توکراچی میں 5 ہزار بڑی بسیں چلائی جائیں ۔ جب تک بڑی بسوں کا انتظام نہیں ہوتا چنگ چی کو باقاعدہ طور پر چلانے کی خصوصی اجازت دی جائے ، شہریوں کا معاشی قتل بند کیا جائے، تاکہ عوام کو فی الحال یہ سہولت میسر ہوسکے ۔ علاوہ ازیں اب تو سرکلر ریلوے کو فعال کیاجانا چاہیے ۔ کراچی کے شہریوں کے لیے انڈر گرائونڈ ٹرین، جدید ٹرام اور بڑی بسوں پر مشتمل پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام قائم ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں