سب نظر کا کھیل ہے

ہم میں سے ہر شخص کو دوسروں پر نظر رکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے، ویسے یہ نظر کا کھیل ہوتا دلچسپ، مگر خطرناک ہے...


سیما سراج October 15, 2013

ہم میں سے ہر شخص کو دوسروں پر نظر رکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے، ویسے یہ نظر کا کھیل ہوتا دلچسپ، مگر خطرناک ہے۔ اگر آپ یہ کھیل کھیل رہے ہیں تو ذرا احتیاط کے ساتھ اگر کسی کی نظر میں آ گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بات دینے لینے کی آئی تو سنا تھا اور دیکھا بھی تھا کہ بڑے دیتے ہیں اور چھوٹے لیتے ہیں، بصد احترام، مگر اب تو زمانہ بدل گیا ہے، بڑے لینے میں مصروف ہیں اور چھوٹے بے چارے دے دے کر تھکے جا رہے ہیں۔ ہائے بڑے تو اتنا لے رہے ہیں کہ اب تو تجوریاں ابلنے لگی ہیں اور چھوٹے بے چارے کہاں تک دیں، بڑے بڑے لمبے لمبے بل+ ٹیکس+ اور ... طویل فہرست ہے۔ بات نظر سے شروع ہوئی تھی یہ چھوٹے بڑے لوگ نظر میں کہاں سے آ گئے۔

مہنگائی ہو یا کوئی بھی سانحہ چھوٹے ہی گرفت میں آتے ہیں، بڑے تو نظروں سے یوں اوجھل ہوتے ہیں گویا چھو منتر۔

بعض مرتبہ نظریں بڑی گہری ہوتی ہیں مگر خود پر نہیں دوسروں پر، آپ کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں، کس لیے کر رہے ہیں، گویا ہم آزاد قوم کے آزاد شہری نہیں، غلام ہیں۔ بھلا بتایئے یہ بھی کوئی بات ہوئی، ایک آزاد ملک کے فرد کو ہم کہیں کہ تم کرپشن کیوں کر رہے ہو، قانون کیوں توڑ رہے ہو، مال و متاع کیوں جمع کر رہے ہو؟ آپ کون ہوتے ہیں حساب لینے والے، آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ ہاں پکڑ تو صرف چھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے، وہ آزاد ملک کے غریب چھوٹے موٹے شہری ہیں۔

یہ چھوٹے بڑے کا چکر کہاں سے شروع ہو گیا، کل قصائی کی دکان پر گئے تو فوراً قصائی بولا چھوٹے بڑے دونوں کا گوشت مہنگا ہو گیا ہے، ہم خوش ہو گئے کہ کہیںتوچھوٹے و بڑے دونوں پر مہنگائی کے یکساں اثرات پڑے۔ یہ ہماری خوش فہمی تھی جب پتہ چلا کہ چھوٹے کاگوشت مہنگا ہے، ہائے کتنے ہم خوش تھے کہ کہیں توچھوٹے بھی قیمتی ہوئے اور بڑے سے اس کی قیمت زیادہ ٹھہری۔

اماں کی تیز نظر اس وقت مجھ پر ہے، ویسے اماں صحیح کہتی ہیں یہ لکھنے لکھانے سے کوئی فائدہ نہیں، آج کل کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی اب اماں کو کون سمجھائے کہ کان پر جوں کا کیا کام جوں تو سر پر رینگتی ہے۔ لیکن اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ اماں ہر بات غلط کرتی ہیں۔ کبھی کبھی بڑے پتے کی بات کر جاتے ہیں۔ مثلاً یہی بات کہ لکھنے سے کیا فائدہ، آپ خود سوچیں کتنے لوگ لکھ رہے ہیں، اخبارات و رسائل اور کتابیں بھرے پڑے ہیں، میڈیا چیختا ہے مگر سب گونگے بہرے اندھے لوگ، اﷲ جانے یہ افتاد ہماری ہی قوم پر کیوں پڑی۔ ساری بیماریاں ہماری ہی قوم کو لگ گئیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔ سب کچھ دیکھا اور گم سم چپ چاپ گونگے بے زبان، ہائے کوئی چشم دید گواہ ہی نہیں ملتا، سب کچھ دیکھا اور کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ویسے اب کیمرے کی نظروں سے بچنا مشکل ہو گیا، سب کچھ دکھا دیتا ہے۔ قوم ہوشیار ہو گئی ہے اب تو خفیہ کیمرے بھی نکال لے جاتی ہے۔

چھوڑو ہمیں کیا۔ ویسے بھی آج کل عجیب زمانہ ہے لوگوں کی نظریں بدلی بدلی لگتی ہیں۔ ہم بھی اکثر موقع دیکھ کر نظریں بچا کر نظریں پھیر لیتے ہیں، نظروں کا کیا ہے وہ تو کسی وقت بھی پھیری جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ کسی کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیں، کیوں یقین نہیں آ رہا، آپ گھر سے باہر نکلے، جان ہتھیلی پر رکھی، دھوپ میں قطار بنائی، ہاں صاحب، ووٹ ڈالا، خوش فہمی میں مبتلا ہوئے اور واپس آ کر صبح نو کا انتظار کرنے لگے، لیکن جب آنکھ کھلی تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ نظریں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا۔ واہ کیا خوب۔ پرانے جسم نیا لباس، بازی گروں نے کیا خوب دھوکا دیا، اور آپ کی نظریں پہچاننے میں دھوکا کھا گئیں، کوئی بات نہیں پریشان نہ ہوں۔ اب تو کوئی بڑا صدمہ بھی نہیں ہوتا۔ دھوکا کھانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ وعدے بھلا کون وفا کرتا ہے، یہ تو بے وقوف لوگ ہیں۔ بے وقوف کو مزید بے وقوف بنانا مشکل کام نہیں۔ کشتی منجھدار میں پھنسی ہے اور ملاح ساحل پر کھڑا مسکرا رہا ہے۔

ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں۔ مگر ملاح و کشتی کا کیا ذکر، چھوڑیں ویسے بھی قوم کی دور کی نظر حافظے کی طرح کمزور ہے۔ اکثر حقائق نظر کی طرح اوجھل ہی رہتے ہیں۔ لیکن قریب کا کون سا نظر آتا ہے۔ یا پھر نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ بے چارے شریف و مجبور جنھیں صرف نظریں جھکانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی تو طاقت ہی نہیں ہے۔ بس نظر جھکائی اور دستخط کر دیے۔ نہ سوال نہ جواب، نظر اٹھائی تو غضب کی نظر ملا کر بات کرتا ہے۔ بس صاحب کام تمام، جی حضوری کا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جی صاحب، کہتے رہیے۔ آخر پیٹ کو بھی تو پالنا ہے۔ ویسے بھی روشنی تیز ہو تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ نظر کچھ نہیں آتا۔ کاش یہ جھکی ہوئی نظریں اسٹاپ پر بھی ہوتیں، کم بخت کیسی خراب نظروں سے دیکھتے ہیں، خون کھول جاتا ہے۔ معلوم نہیں اسٹاپ پر نظریں میلی میلی کیوں ہوتی ہیں، بجلی اور پانی سے محروم لوگوں کی نظریں میلی نہ ہوں گی تو اور کیا ہوں گی۔

دھونے کا کوئی سامان ہی نہیں ہے، نظر بے چاری تو ویسے ہی مجرم ٹھہری، یہاں اعمال کون سے صاف ہیں، اپنی اپنی قبروں میں جانا ہے، اب تو قبر کی بھی فکر رہتی ہے۔ روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہے، زندگی اور موت سستی ہے، باقی سب مہنگا، قربانی کا وقت قریب ہے اگر آپ کی نظر میں کوئی اچھا جانور ہو تو بتائیں۔ ارے کیا سب طرف جانور ہی جانور ہیں تو پھر انسان کہاں گیا۔ کہیں کھو گیا، شاید کہیں کھو ہی گیا ہے۔ قربانی کا موسم تو ہمارے دیس میں سال بھر رہتا ہے۔ ہر قسم کی قربانی، خوشی یا زبردستی، قربانی کا موسم ہمارے دیس میں ٹھہر سا گیا ہے اور ہماری نظریں اسی ٹھہرے ہوئے موسم میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ خیر اگر ہماری نظر دور تک جا رہی ہے تو کچھ نہیں بہت ساری نظریں ہمارا تعاقب بھی کر رہی ہیں۔ سب نظر کا کھیل ہے، کسی کی نظر سے بچ گئے تو کسی کی نظر میں آ کر سنور گئے۔ کسی کی نظروں سے گرکر بے موت مرے تو کسی کی نظروں میں بلند ہوکر دور تک پہنچے، اتنی دور تک پہنچنے کے بعد یاد آیا کہ ہم تو وہیں پر آج تک کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں