بھورو بھیل کا المیہ
سندھ میں صدیوں پرانی یہ روایت ہے کہ ہندو مذہب کے ماننے والے بھیل ذات یا قبیلے کے لوگ اپنے مُردوں کی چتا کو آگ نہیں...
سندھ میں صدیوں پرانی یہ روایت ہے کہ ہندو مذہب کے ماننے والے بھیل ذات یا قبیلے کے لوگ اپنے مُردوں کی چتا کو آگ نہیں لگاتے بلکہ دفناتے ہیں۔ ان کے قبرستان مسلمانوں کے قبرستانوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں، ماسوائے دفنانے کے باقی ساری رسومات ان کی اپنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ ہندو مذہب کے حساب سے اپنی کچھ مختلف روایات بھی رکھتے ہیں۔ یہ سندھ کے اب تک رہنے والوں میں سب سے قدیم باشندے ہیں۔ یہ دراوڑ نسل کے لوگ ہیں اور ہندوستان میں ان کو شیڈول کاسٹ کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے، جس میں کولہی، میگھواڑ کے علاوہ دیگر ذاتیں بھی آتی ہیں جو کہ انتہائی نچلی ذاتیں ہیں اور درد انگیز طریقے سے حقارت سے دیکھی جاتی ہیں۔ جب ہندوستان کا بٹوارہ ہو رہا تھا تو بہت سارے ہندو سندھ سے ہجرت کر رہے تھے، تب دلت ذاتوں والی اس قوم نے اپنی زمین نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ان کو ہندوستان کا آزاد ہونا اور پھر اس کی تقسیم ہونا اس طرح لگا کہ ہندوستان میں اب اونچی ذات والوں کا راج ہو گا۔
اس وجہ سے تھرپارکر ضلع کی سب سے بڑی آبادی انھی لوگوں پر مشتمل ہے، جس طرح ہندوستان کی پارلیمان نے آئین بنانے کا کام اسی نچلی ذات یا دلت نسل کے دراوڑ ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر کو سونپا تھا۔ اور ہمارے یہاں بھی پہلا وزیر قانون، بانیٔ پاکستان نے اسی دراوڑ و دلت قوم کے نچلی کاسٹ والے جوگیندر ناتھ منڈل کو لیا تھا۔ ہندوستان میں اگر نچلی ذاتوں کا استحصال نہ ہوتا تو یہاں اسلام نہ اپنی بنیادیں ڈالتا اور نہ ہی انگریز کرسچن یہاں کے مقامی لوگوں کو کوئی نظام دے پاتے۔ کانگریس کے پرانے لیڈر ایم سی چھاگلا اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر نے بھی ایک مرتبہ ان کو کہا کہ وہ اپنے دلت لوگوں کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذات پات کے اس بھیانک استحصال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں۔ خیر جب ہندوستان کا آئین بنا تو امبیدکر نے اس کی ٹھوس سیکولر بنیادیں رکھیں، جس سے ان چھوٹی ذاتوں والے دلت اور بہت ساری اقلیتوں کو آئینی حقوق ملے، برابری ملی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا 65 سال میں وہ آئینی حقوق ان کے سماج میں جڑ پکڑ سکے ہیں؟
ہمارے یہاں تو سب کچھ لٹ گیا، بانی پاکستان جناح ملک بنتے ہی انتقال کر گئے، جوگندر ناتھ استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے اور 11 اگست کی تقریر کی اشاعت پر قدغن لگا دی گئی۔ فیضؔ کے اس شعر کی مانند:
آخرِ شب کہ ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح، رات نہ جانے کدھر گئی
تھرپارکر کے ان دلت لوگوں کی اکثریت سرحد پر واقع ، ضلع بدین اور اس کا تعلقہ ٹنڈو باگو اور قصبہ پنگریو جہاں بھیل قبیلے کے دو سو گھر آباد ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے صورت حال اس وقت ابتر ہوئی کہ ایک شخص داد خان لغاری نے زمین پر قبضہ کرنے کے لیے کسی سیاسی پارٹی کے لوگوں کو اُکسا کر یہ کہا کہ یہاں بھیل اپنی میتوں کو نہیں دفنائیں گے اور کچھ دن پہلے ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہونے والے ایک مقامی سطح کے مقبول فنکار بھورو بھیل کی لاش کئی لوگوں کا مجمع لے کر قبر سے نکال کر راستے پر پھینک دی۔ پولیس سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی اور کچھ نہیں کیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے سندھ میں پھیل گئی، کیونکہ یہ کام سندھ میں موجود صدیوں پرانی انسانی روایتوں کے منافی تھا۔
بھیل کیوں ہندو مذہب کے دوسرے پیروکاروں کے برعکس اپنی میتوں کو دفناتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہو گی، کیونکہ بھورو بھیل کے ساتھ اس واقعے نے ٹوئیٹر سے لے کر ہر جگہ اس بحث کو بھی جنم دیا اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ روایت ہندوستان، بھوٹان و نیپال کی اور بہت چھوٹی ذاتوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن مذہبی رواداری کے اصولوں کی بنیاد پر یہ تسلیم شدہ آفاقی اصول ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور یہ اس کا ذاتی فعل ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان تعلق پر مبنی ہے جس کا جوابدہ وہ خود خدا کے سامنے ہو گا۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 20 اس طرح کا آئینی تحفظ ہر مذہب کی پیروی کرنے والے کو دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ آئین کے تحت دیے گئے اور بہت سارے استحقاق و ضمانت کی طرح یہ حق بھی عملی طور پر کوئی وجود نہیں رکھتا۔
یوں تو مذہبی رواداری کے حساب سے یہ ملک کوسوں پیچھے رہ گیا ہے لیکن اب بھی بھورو بھیل جیسے واقعات کے باوجود سندھ میں پھر بھی قدرتی مذہبی ہم آہنگی زیادہ پائی جاتی ہے۔ اکثر سندھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ سندھ کی دھرتی صوفیوں کی دھرتی ہے۔ یہ دھرتی امن کا پیغام دینے والی دھرتی ہے۔ ایسی حرکتوں سے جس میں لینڈ مافیا کے لوگ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر رواداری و صدیوں پرانی روایات کو دھچکا لگا کر کسی اور کے نہیں بلکہ خود اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ایسے نچلی ذاتوں کے لوگوں کو جن کو خود ہندو مذہب کی اونچی ذاتیں بھی نہیں مانتیں ان کی تذلیل کر کے ہم کون سا اچھا کام کر رہے ہیں؟
بنیادی طور پر دیہی سندھ کی 90 فیصد آبادی سنی ہو یا شیعہ دونوں فرقے ساتھ ساتھ صوفی روایات کے ماننے والے بھی ہیں۔ صوفی روایات اپنی روح میں رواداری پر یقین رکھتی ہیں۔ اس اصول کے مطابق مذہب کو زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی دین اسلام میں جبر نہیں۔
شاہ لطیف کے مرقد کے پاس قبرستان ہو یا سچل کے مزار والا قبرستان، ان میں بہت سارے ہندو جو ان ولیوں کے پیروکار رہے ہیں ان کی آج بھی قبریں ہیں۔ وہ قبریں آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہیں۔ ان کے مزارات پر جانے کے لیے نہ کسی مذہب کے حوالے سے بندش ہے نہ فرقے کی وجہ سے۔
دلت قوم کے حقوق کے لیے میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو پیش کیا۔ کچھ سال قبل اس طرح کے واقعات ہالا میں تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے تھے۔ ہم نے کورٹ سے اِسٹے لے کر اس کو رکوایا۔ اس طرح ایک نوجوان لڑکی کستوری کولہن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، خود مٹھی جا کر راقم نے اس کا کیس لڑا۔ یہ وہ مظلوم لوگ ہیں جن کے خاندانوں کو وڈیروں کی پرائیویٹ جیلوں میں ہمارے دوست مرحوم شکیل پٹھان نے جا کر شواہد کے ساتھ میڈیا کو دکھایا اور ان کی رہائی کے لیے ایک یادگار اور قابل تقلید جدوجہد کی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے منو بھیل کے ساتھ روا رکھی گئی کارروائی کا از خود نوٹس لیا تھا۔ میری اس کالم کے ذریعے عدالت عظمیٰ سے گزارش ہو گی کہ وہ بھورو بھیل کے اس واقعے کا بھی از خود نوٹس لے جس سے ہندو دلت بالخصوص اور تمام اقلیتوں کو تحفظ کا یقین ہو گا اور سندھ میں مذہبی رواداری کی روایت تابندہ رہے گی۔
اس وجہ سے تھرپارکر ضلع کی سب سے بڑی آبادی انھی لوگوں پر مشتمل ہے، جس طرح ہندوستان کی پارلیمان نے آئین بنانے کا کام اسی نچلی ذات یا دلت نسل کے دراوڑ ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر کو سونپا تھا۔ اور ہمارے یہاں بھی پہلا وزیر قانون، بانیٔ پاکستان نے اسی دراوڑ و دلت قوم کے نچلی کاسٹ والے جوگیندر ناتھ منڈل کو لیا تھا۔ ہندوستان میں اگر نچلی ذاتوں کا استحصال نہ ہوتا تو یہاں اسلام نہ اپنی بنیادیں ڈالتا اور نہ ہی انگریز کرسچن یہاں کے مقامی لوگوں کو کوئی نظام دے پاتے۔ کانگریس کے پرانے لیڈر ایم سی چھاگلا اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر نے بھی ایک مرتبہ ان کو کہا کہ وہ اپنے دلت لوگوں کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذات پات کے اس بھیانک استحصال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں۔ خیر جب ہندوستان کا آئین بنا تو امبیدکر نے اس کی ٹھوس سیکولر بنیادیں رکھیں، جس سے ان چھوٹی ذاتوں والے دلت اور بہت ساری اقلیتوں کو آئینی حقوق ملے، برابری ملی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا 65 سال میں وہ آئینی حقوق ان کے سماج میں جڑ پکڑ سکے ہیں؟
ہمارے یہاں تو سب کچھ لٹ گیا، بانی پاکستان جناح ملک بنتے ہی انتقال کر گئے، جوگندر ناتھ استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے اور 11 اگست کی تقریر کی اشاعت پر قدغن لگا دی گئی۔ فیضؔ کے اس شعر کی مانند:
آخرِ شب کہ ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح، رات نہ جانے کدھر گئی
تھرپارکر کے ان دلت لوگوں کی اکثریت سرحد پر واقع ، ضلع بدین اور اس کا تعلقہ ٹنڈو باگو اور قصبہ پنگریو جہاں بھیل قبیلے کے دو سو گھر آباد ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے صورت حال اس وقت ابتر ہوئی کہ ایک شخص داد خان لغاری نے زمین پر قبضہ کرنے کے لیے کسی سیاسی پارٹی کے لوگوں کو اُکسا کر یہ کہا کہ یہاں بھیل اپنی میتوں کو نہیں دفنائیں گے اور کچھ دن پہلے ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہونے والے ایک مقامی سطح کے مقبول فنکار بھورو بھیل کی لاش کئی لوگوں کا مجمع لے کر قبر سے نکال کر راستے پر پھینک دی۔ پولیس سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی اور کچھ نہیں کیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے سندھ میں پھیل گئی، کیونکہ یہ کام سندھ میں موجود صدیوں پرانی انسانی روایتوں کے منافی تھا۔
بھیل کیوں ہندو مذہب کے دوسرے پیروکاروں کے برعکس اپنی میتوں کو دفناتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہو گی، کیونکہ بھورو بھیل کے ساتھ اس واقعے نے ٹوئیٹر سے لے کر ہر جگہ اس بحث کو بھی جنم دیا اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ روایت ہندوستان، بھوٹان و نیپال کی اور بہت چھوٹی ذاتوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن مذہبی رواداری کے اصولوں کی بنیاد پر یہ تسلیم شدہ آفاقی اصول ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور یہ اس کا ذاتی فعل ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان تعلق پر مبنی ہے جس کا جوابدہ وہ خود خدا کے سامنے ہو گا۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 20 اس طرح کا آئینی تحفظ ہر مذہب کی پیروی کرنے والے کو دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ آئین کے تحت دیے گئے اور بہت سارے استحقاق و ضمانت کی طرح یہ حق بھی عملی طور پر کوئی وجود نہیں رکھتا۔
یوں تو مذہبی رواداری کے حساب سے یہ ملک کوسوں پیچھے رہ گیا ہے لیکن اب بھی بھورو بھیل جیسے واقعات کے باوجود سندھ میں پھر بھی قدرتی مذہبی ہم آہنگی زیادہ پائی جاتی ہے۔ اکثر سندھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ سندھ کی دھرتی صوفیوں کی دھرتی ہے۔ یہ دھرتی امن کا پیغام دینے والی دھرتی ہے۔ ایسی حرکتوں سے جس میں لینڈ مافیا کے لوگ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر رواداری و صدیوں پرانی روایات کو دھچکا لگا کر کسی اور کے نہیں بلکہ خود اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ایسے نچلی ذاتوں کے لوگوں کو جن کو خود ہندو مذہب کی اونچی ذاتیں بھی نہیں مانتیں ان کی تذلیل کر کے ہم کون سا اچھا کام کر رہے ہیں؟
بنیادی طور پر دیہی سندھ کی 90 فیصد آبادی سنی ہو یا شیعہ دونوں فرقے ساتھ ساتھ صوفی روایات کے ماننے والے بھی ہیں۔ صوفی روایات اپنی روح میں رواداری پر یقین رکھتی ہیں۔ اس اصول کے مطابق مذہب کو زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی دین اسلام میں جبر نہیں۔
شاہ لطیف کے مرقد کے پاس قبرستان ہو یا سچل کے مزار والا قبرستان، ان میں بہت سارے ہندو جو ان ولیوں کے پیروکار رہے ہیں ان کی آج بھی قبریں ہیں۔ وہ قبریں آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہیں۔ ان کے مزارات پر جانے کے لیے نہ کسی مذہب کے حوالے سے بندش ہے نہ فرقے کی وجہ سے۔
دلت قوم کے حقوق کے لیے میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو پیش کیا۔ کچھ سال قبل اس طرح کے واقعات ہالا میں تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے تھے۔ ہم نے کورٹ سے اِسٹے لے کر اس کو رکوایا۔ اس طرح ایک نوجوان لڑکی کستوری کولہن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، خود مٹھی جا کر راقم نے اس کا کیس لڑا۔ یہ وہ مظلوم لوگ ہیں جن کے خاندانوں کو وڈیروں کی پرائیویٹ جیلوں میں ہمارے دوست مرحوم شکیل پٹھان نے جا کر شواہد کے ساتھ میڈیا کو دکھایا اور ان کی رہائی کے لیے ایک یادگار اور قابل تقلید جدوجہد کی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے منو بھیل کے ساتھ روا رکھی گئی کارروائی کا از خود نوٹس لیا تھا۔ میری اس کالم کے ذریعے عدالت عظمیٰ سے گزارش ہو گی کہ وہ بھورو بھیل کے اس واقعے کا بھی از خود نوٹس لے جس سے ہندو دلت بالخصوص اور تمام اقلیتوں کو تحفظ کا یقین ہو گا اور سندھ میں مذہبی رواداری کی روایت تابندہ رہے گی۔