عید اور قوم کی قربانی

قربانی ایک مذہبی فریضہ ہے لیکن آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں قربانی کا جذبہ دکھاوا بنتا جا رہاہے،حالانکہ یہ دن تو...

قربانی ایک مذہبی فریضہ ہے لیکن آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں قربانی کا جذبہ دکھاوا بنتا جا رہا ہے، حالانکہ یہ دن تو یاد دلاتا ہے کہ ایک عظیم باپ نے جو پیغمبری جیسے اعلیٰ منصب پر فائز تھے اپنے پروردگار کے حکم پر اطاعت سے سر جھکا دیا، نہ شکوہ نہ شکایت، بس لبیک اور اس فرمانبردار بیٹے جنھیں رب العزت نے پیغمبری کے لیے چنا، باپ کی اس عظیم قربانی پر نہ چوں چرا کی اور نہ جی چرایا۔ ذرا اس واقعے کی گہرائی میں جائیے تو بہت سی باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں کہ مالک نے حکم دیا، باپ نے لبیک کہا، پر بیٹے سے کہتے دل نہ ڈولا اور بیٹے نے باپ اور مالک کے حکم پر سر اطاعت سے جھکا دیا۔

یہ ایک عجیب قربانی تھی جو ایک باپ سے اس کے لخت جگر کو اس طرح مانگ لیا گیا تھا، پر حکم ربی تھا اس میں کیا تامل تھا، بس رضا ہی رضا تھی، بیٹے نے باپ سے کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، باپ نے بیٹے کو زمین پر گرایا تو بیٹے نے فرمایا کہ آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں کیونکہ مجھے تڑپتا دیکھ کر آپ مجھے قربان نہ کر سکیں گے، آپ کو بیٹے کی یہ ترکیب پسند آئی اور انھوں نے ایسا ہی کیا اور اﷲ رب العزت کو اپنے پیارے پیغمبر کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ یہ تو ایک امتحان تھا پر ایک باپ کے لیے بہت کڑا تھا جسے اپنے رب کی محبت نے ہی آسان بنا دیا تھا۔ دیکھنا تو صرف اتنا تھا کہ میرے یہ منتخب بندے مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں اور انھوں نے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور رہتی دنیا تک ایک مثال اور طریقت چھوڑ گئے۔

یہ خوبصورت اور عظیم واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اگر بندہ صدق دل سے اﷲ کی رسی کو تھام لیتا ہے تو پھر خاردار منزل بھی پھولوں کی راہ گزر بن جاتی ہے۔ ہم اس واقعے سے کیا سبق لیتے ہیں اسے بھول بیٹھے ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں، عزیز و اقارب پر رعب ڈالنے کے لیے مہنگا جانور خریدتے ہیں تا کہ دور دور تک ہماری شہرت پھیل جائے، حالانکہ قربانی کا تعلق تو دل سے ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہیں وہ حج کی سعادت کو حاصل کرتے ہیں اور قربانی کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں، قربانی کے جانور کی قیمتوں کو لوگوں میں امپریشن ڈالنے کے لیے اضافہ نہیں کرتے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایسا کرتے تھے ادھر ادھر مہنگی قیمتیں سن کر بڑی بڑی ہانک لگاتے تھے لیکن جب شعور پختہ ہوا تو اس کی اصل قدر کا پتہ چلا کہ یہ دل بہلاوے اور دکھاوے میں شوئیاں مارنے کا ماڈل نہیں ہے بلکہ کس قدر اہم اور کتنا عظیم جذبہ ہے جو اس مذہبی فریضے میں پنہاں ہے۔


قربانی کا یہ دور آج پوری پاکستانی قوم گزار رہی ہے، جو یقیناً بہت اذیت ناک اور کٹھن ہے نہ صرف عوام کے لیے بلکہ حکمرانوں کے لیے بھی کیونکہ جن بڑے بڑے وعدوں کو نبھانے کا عہد کر کے یہ حکومت آئی ہے اس کے لیے ان وعدوں کا پورا کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے، جس قرضے کی گردش میں ہمیں پھنسا دیا گیا ہے اس سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے، آئی ایم ایف جیسے خطرناک سانپ سے بچ کر نکلنا خاصا مشکل ہے لیکن ہماری گردن اس شکنجے میں پھنس چکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر مسائل بھی ناگ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھے ہیں، یہ تمام مسائل ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے گھنے درخت بنتے جا رہے ہیں جن کی وسیع شاخیں اور جڑیں ہمیں اپنی زہریلی گرفت میں جکڑ رہی ہیں، ہم ان جڑوں اور شاخوں کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقعے فراہم کر رہے ہیں۔

ابھی کچھ عرصے پہلے ہی کی بات ہے جب طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کی باتیں گردش کرنے لگی تھیں، لیکن ابھی تک ہم کسی بھی مدلل نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ کیا ہم مذاکرات کریں، کہاں کریں، کیسے کریں، کیا شرائط ہو سکتی ہیں؟ دوسری جانب سے کیسا رسپانس مل سکتا ہے؟ ہم ابہام میں الجھے ہیں اور الجھنے کا یہ عمل کسی ایک مسئلے پر نہیں ہے، ہم یہ عمل بار بار کرنے کے عادی ہیں مثلاً جب نواز شریف پہلے اقتدار میں آئے تھے تو شیر کی دھاڑ نے سب کے چھکے چھڑا دیے تھے، ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر احساس دلایا گیا تھا کہ ہمارے بچے بچے پر قرض ہے اور ہمیں مل کر اس قرض کو اتارنا ہے اس بات کا عہد کیا گیا، وعدے ہوئے اور پوری قوم نے بھی اس قرضے سے نجات چاہی، لیکن ہم پھر الجھ گئے۔ پرویز مشرف صاحب آئے اور کسی اور کے کہنے میں پھر سے پوری قوم کو الجھا گئے اور قرضہ اتارنے کا خواب پاکستانی قوم کو دکھانے کے چکر میں نہ صرف نواز شریف صاحب اور ان کا خاندان بلکہ پوری قوم بہت خوار ہوئی، ہمیں پھر سے تھپک کے سلانے کے لیے نیند کی گولیاں دے دی گئیں۔

بات ہو رہی تھی حج بیت اﷲ اور قربانی جیسے عظیم فریضے کی اور ہم قوم کی قربانی تک پہنچ گئے دراصل ہم اپنے اصل کو بھول گئے ہیں اور نقل پر چل رہے ہیں، ہمارا اصل بہت خوبصورت بہت مضبوط بہت تابناک تھا اور نقل تو پھر نقل ہی ہوتا ہے جو بہت سے جوشیلے جذبوں کو تھپک تھپک کے سلا دیتا ہے، ہماری قوم اب ہر فیلڈ میں نقل کی عادی ہو گئی ہے۔ پچھلے بیس پچیس برسوں میں نقل کا طوفان نہایت بے ہنگم شکل اختیار کر چکا ہے اور اب حال یہ ہے کہ جو واقعی قابل ہیں وہ بیرون ملک اپنی خدمات سے غیروں کو مستفید کر رہے ہیں اور ہم چند ایک قابل کو نقل پٹوں کی ٹیم میں شامل کر کے بغلیں بجا رہے ہیں، ہم بھول رہے ہیں کہ ہم ایک مہذب مذہب کے ماننے والوں میں سے ہیں وہ مہذب مذہب جس نے ہمیں قدم قدم پر سکھایا ہے، سمجھایا ہے، بتایا ہے کہ اس طرح یوں چلو اور اس طرح اور ویسے نہ چلو، لیکن ہم نے اپنے مذہب کو طالبان کے ڈھکنے کی بوتل میں قید کر کے دہشت گردی کے جنگل میں کہیں گم کر دیا کیونکہ ہم تو ماڈرن لوگوں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں ہمارا خیال ہے کہ جو جس قدر خوبصورت اور تیز انگریزی بولے گا وہ اتنا ہی ذہین ہو گا۔

حالانکہ ہم جیسے کم عقلوں کو اتنی سی بھی سمجھ نہیں ہے کہ بدیس میں تو باتھ روم صاف کرنے والا بھی بہت خوبصورت مشکل اور تیز انگریزی فر فر بول لیتا ہے لیکن کیا وہ یہ بتا سکتا ہے کہ اپنڈکس کے درد سے بچنے کے لیے کھانے کے دوران کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، کیا وہ یہ بتا سکتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے میں کیا سائنسی حکمت ہے، کیا وہ بتا سکتا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولے کے کیا فوائد ہیں، اس لیے کہ وہ سنت نبوی سے واقف نہیں ہے۔ قرآن پاک اور سنت نبوی میں سائنس و حکمت کے ایسے عظیم نمونے ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ قربانی کے گوشت یا اس کے فالتو عضویات پر چیل یا کوے کیوں حملہ نہیں کرتے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے خود کبھی غور ہی نہیں کیا تھا یہ بات تو مجھے ایک کام کرنے والی ماسی کی کرسچین بیٹی نے سمجھائی جزاک اﷲ۔۔۔۔ آپ بھی غور کیجیے گا۔۔۔۔ امت مسلمہ قربانی کے عمل سے گزر رہی ہے، لیکن ہماری قربانی بھی شاید رب العزت کو قبول نہیں، مشیت غضب میں ہے۔ ہمیں شروع سے دیکھنا ہو گا غلطی کہاں سے ہوئی۔
Load Next Story