کراچی بدامنی کی پہچان

اورنگی ٹاؤن کا رہائشی نوجوان عامر اٹھارہ سال کا ہوا تو اس نے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دی۔ اورنگی ٹاؤن کے...


Adnan Ashraf Advocate October 15, 2013
[email protected]

اورنگی ٹاؤن کا رہائشی نوجوان عامر اٹھارہ سال کا ہوا تو اس نے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دی۔ اورنگی ٹاؤن کے رہائشیوں کے لیے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈومیسائل اور پی آر سی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ متعلقہ محکمہ یہاں کے رہائشیوںسے پیدائشی و تعلیمی سرٹیفکیٹ، والدین کے پاکستانی ہونے کے ثبوت، پری پارٹیشن سرٹیفکیٹ وغیرہ اور رشوتیں طلب کرتے ہیں، بار بار اعتراضات اور دھکے کھانے کے بعد یہاں کے باسیوں کو یہ دستاویزات جاری ہوتی ہیں تو انھیں ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے انھیں کوئی گرین کارڈ یا فری ویزا مل گیا ہو۔ عامر کو بھی جب یہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد شناختی کارڈ ملا تو وہ بے حد خوش تھا وہ ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر دکانداروں کو مٹھائی کھلا رہا تھا، وہیں پر اس کی بہن کا بیوٹی پارلر بھی واقع تھا۔

بیوٹی پارلر میں ڈاکو گھس کر تیار ہونے والی دلہنوں اور بیوٹی پارلر میں موجود تمام سامان سمیٹ چکے تھے، عامر اس واردات سے بے خبر ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھامے خوشی خوشی بیوٹی پارلر میں داخل ہوا کہ شناختی کارڈ بن جانے کی خوشی میں اپنی بہن کا منہ بھی میٹھا کرا دے۔ یہ نوجوان جیسے ہی پارلر میں داخل ہوا تو باہر نکلتے ہوئے ڈاکوؤں کو دیکھ کر ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ جواب میں ڈاکوؤں نے بلاسبب اور بلا تأمل اس کے سینے میں تین گولیاں اتار دیں اور وہ موقعے پر ہی دم توڑ گیا۔ اس نوجوان کو اپنا شناختی کارڈ بن جانے کی کتنی خوشی تھی، اس نے اور اس کے والدین نے اس کے سہانے مستقبل کے بارے میں کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے، ان کی کیا کیا توقعات اور ارمان ہوں گے، اس بہن کے دل پر کیا گزری ہو گی جس کا سب کچھ لوٹ کر جانے والے ڈاکو بلا ضرورت اس کے بھائی کو گولیوں سے بھون گئے۔

ہمارے معاشرے میں ایسے سفاکانہ اور لرزہ خیز جرائم عام ہیں لیکن بعض اوقات اس میں پنہاں دلخراش کہانیاں ان وارداتوں سے کہیں زیادہ افسوسناک ہوتی ہیں۔ نارتھ کراچی میں بھی بوہری برادری سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔ تین نفوس پر مشتمل خاندان میاں بیوی اور بیٹا رکشے میں سوار ہو کر گھر آ رہے تھے کہ ناگن چورنگی کے نزدیک بھرے بازار میں انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جس میں باپ اور نوعمر بیٹا ہلاک ہو گیا، شوہر اور اکلوتی اولاد کے صدمے سے بیوی پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی، وہ صرف یہ کہتی تھی کہ میرا بیٹا بھوکا ہے وہ کھانا مانگ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں لیاری کے علاقے جھٹ پٹ مارکیٹ میں بھی کھانے کے پیسے طلب کرنے پر لیاری گینگ کے افراد نے ہوٹل کے مالک اور اس کے دو جوان بیٹوں کو ہلاک کر دیا۔ اہل محلہ نے اس پر شدید احتجاج کیا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا، علاقے کے لوگوں کے مطابق ہوٹل کا مالک 20 سال سے یہ ہوٹل چلا رہا تھا، صبح فجر کے بعد اپنے کاروبار کا آغاز کرتا تھا، علاقے میں ہر دل عزیز و مقبول تھا، جس کے پاس پیسے نہ ہوں تو مفت کھانا کھلاتا تھا۔

اس کے ہوٹل پر لیاری گینگ وار کا کمانڈر اور اس کے کارندے آئے اور کھانا کھا کر بغیر پیسے دیے جا رہے تھے۔ اس نے ان سے کھانے کے پیسوں کا مطالبہ کیا تو تکرار کے نتیجے میں ان افراد نے ہوٹل کے مالک اور اس کے دو بیٹوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ مقتول کی اہلیہ شوہر اور دو بیٹوں کی ہلاکت کے صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران کراچی شہر میں جامعہ کراچی، این ای ڈی یونیورسٹی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کو لے جانے والی گاڑیاں بھی لوٹی جا چکی ہیں، ان تمام گاڑیوں کو شاہراہ عام پر چلتی ٹریفک اور رش والے اوقات میں لوٹا گیا۔ اس میں موجود طلبا و طالبات کو یرغمال بنانے کا دورانیہ پندرہ سے بیس منٹ تھا، اس دوران پولیس کو واردات کا علم تو دور کی بات اپنے تھانے کی حدود کی خبر نہ تھی۔ این ای ڈی کی بس کے ساتھ ہونے والی واردات پر رضویہ اور نارتھ ناظم آباد تھانے کے ایس ایچ او جائے وقوعہ کی حدود پر لڑتے رہے۔

اسکول وین کے انتظار میں کھڑے والدین کے ساتھ وارداتیں، بچوں کو اسکول چھوڑ کر ہاتھوں میں گھروں کی چابیاں لٹکاتی ہوئی گھروں کو واپس آنے والی خواتین کے ساتھ وارداتیں، شاہراہوں پر موٹرسائیکل سوار خواتین سے پرس اور بیگ وغیرہ کھینچ لے جانے کی وارداتیں اور پلوں، سگنلوں پر گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو لوٹنے کی وارداتیں تو روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کے لیے کسی گینگ کی ضرورت نہیں بعض جرائم تو تنہا موٹرسائیکل سوار کر رہے ہیں۔ ان وارداتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر موثریت اور معاشی بدحالی کے بنیادی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں البتہ اغوا، قتل، بھتہ گیری میں ان عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعتوں کی پشت پناہی و آشیرباد بھی نظر آتی ہے اور اس کے ثبوت بھی ملے ہیں۔

کراچی کے بارے میں امریکی جریدے ٹائم نے لکھا ہے کہ طویل عرصے سے پاکستان کا معاشی حب کراچی اب بدامنی کی پہچان ہے۔ گزشتہ دنوں اغوا و ٹارگٹ کلنگ کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا تھا کہ وہ کون سے ہاتھ ہیں جن کے آگے ریاست بے بس ہے؟ دہشت گردی کا نتیجہ ہے کہ ہر زبان خاموش ہے۔ خود وزیر اعظم پاکستان نے ارشاد فرمایا ہے کہ ''کراچی میں ججز بھی فیصلہ سناتے ہوئے ڈرتے ہیں۔'' انھوں نے کہا کہ ''ایک مجرم اعتراف جرم کر رہا تھا لیکن مجسٹریٹ اس کے حق میں لکھ رہا تھا''۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو کسی بھی پیرائے میں لیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماتحت عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالتوں کے ججز تک، ایماندار پولیس افسران اور حق پر مبنی گواہان شدید دباؤ کا شکار ہیں، انھیں حق گوئی اور قانون کی پاسداری کی بڑی قیمتیں چکانا پڑتی ہیں ان کی جان مال عزت و آبرو، ترقی، روزگار، ملازمت داؤ پر لگی ہوتی ہیں اور تمام تر انعامات، ترقیاں اور نوازشات دروغ گو خوشامدیوں سازشیوں کے حصے میں آتی ہیں، بقول خلیل احمد خلیل:

دروغ گوئی پر مبنی ہے ہر نظام یہاں

تلاش کرتی ہے سچائی احترام یہاں

رواں دواں ہے اگر بے لگام آزادی

فساد و شر کی نہیں ہو گی روک تھام یہاں

کسی طرف سے ہو امید امر بالمعروف

برائے نام ہے نیکی، برائی عام یہاں

بس اقتدار یا سرمایہ دار کی خاطر

شکار خفیہ اداروں کے ہیں عوام یہاں

پڑا ہوں شہر میں مدت سے بے سر و ساماں

مرے ارادے ابھی تک ہیں ناتمام یہاں

جہان تازہ کا فن ہے مجسمہ سازی

خلیل آج تو مشکل ہے تیرا کام یہاں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں