رحیم بخش سومرو بلند پایہ سیاستدان

اپنی زندگی کی دوڑ میں کچھ اس طرح مصروف رہا کہ مجھے کئی اچھے انسانوں سے نہ ملنے کا افسوس زندگی بھر رہے گا


لیاقت راجپر November 01, 2019

مجھے ویسے تو سندھ کے کئی سیاستدان اچھے لگتے ہیں ، جن میں سر فہرست اللہ بخش سومرو شامل ہیں جو سندھ کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے، جن کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر میں ان کا فین بن گیا ہوں۔ رحیم بخش سومرو شہید اللہ بخش سومرو کے بیٹے تھے، ان کی زندگی اپنے والد کا عکس تھی جب کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی بھرپورکوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی گئی مگر اسے بھی سیاست کے پردے سے ہٹایا گیا۔

رحیم بخش سومرو سے میں پہلی مرتبہ اپنے والد عبدالقادرکے ساتھ ان کی کراچی والی رہائش گاہ پر ملا تھا جس کی سادگی، محبت اور ادب و آداب دیکھ کر ہی مجھے خوشی ہوئی کہ ان میں اپنے والد کی خوشبو موجود ہے کیونکہ یہ سومرو فیملی تعلیم کے حوالے سے آگے تو تھے مگر غریبوں سے محبت ، ان کے کام آنا ، سخاوت، عجز و نیاز، رحم ان کے خاندان کی خاص پہچان تھی ، وہ تو اپنے دشمن کو بھی معاف کر دیتے۔

بہرحال میں اپنی زندگی کی دوڑ میں کچھ اس طرح مصروف رہا کہ مجھے کئی اچھے انسانوں سے نہ ملنے کا افسوس زندگی بھر رہے گا، لیکن اس کے بعد یہ طے کیا کہ اب میں ایسے لوگوں کے بارے میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کو تحریر کے ذریعے ایسے عظیم انسانوں کی زندگی اور خدمات کے بارے میں بتاتا رہوں گا تاکہ وہ بھی ایسی شخصیات کی تقلید کرکے اپنی قوم اور ملک کی خدمت کریں۔

رحیم بخش سومرو 20 اکتوبر 1919ء کو شکارپور میں پیدا ہوئے تھے ، ابتدائی تعلیم مدرسہ اسکول نوشہرو فیروز سے حاصل کی۔ یہ مدرسہ 1903ء میں قائم ہوا تھا جو دربیلو شہر میں ہے جسے الہندو شاہ نے اپنے پیسوں سے تعمیر کروایا تھا تاکہ سندھی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی فروغ پائے اور سندھ کے لوگ انگریزی تعلیم حاصل کرکے دنیا کے ساتھ ترقی کریں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال تھا کہ اگر مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی تو وہ دنیا کی Challenges کا مقابلہ کر کے آگے بڑھیں گے اور انھیں روزگار کے مواقعے پوری دنیا میں حاصل ہو سکیں گے۔ انھوں نے ورلڈ ایجوکیشن سوسائٹی کا بھی تصور پیدا کیا جس کی وجہ سے پوری دنیا جلد ترقی کی طرف گامزن ہوسکے گی جس میں مسلمان بھی شامل ہوں گے۔

بعد میں یہ مدرسہ ہائی اسکول بن گیا جس کی حیثیت کراچی کے سندھ مدرسہ الاسلام جیسی ہوگئی تھی اور وہاں سے سندھ کے بڑے بڑے نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی تھی۔ رحیم بخش سومرو مزید آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ کالج چلے گئے ،جہاں پر ان کے ساتھ غوث بخش بزنجو ان کے ہم جماعت تھے جس سے ان کی گہری دوستی ہوگئی۔ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس سندھ چلے آئے۔ ان کی ذہانت اور تعلیم کے ساتھ پیار دیکھ کر انھیں ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ سکھر کا چیئرمین اور اس کے ساتھ صدر میونسپل کمیٹی جیکب آباد بنا دیا گیا۔ وہ ہمیشہ اپنے والد اللہ بخش سومرو کے ساتھ ساتھ رہتے تھے جو انھیں اس وقت کے بڑے سیاستدانوں سے ملواتے تھے اور وہاں پر آنے والی سماجی اور تعلیمی شخصیات بھی ہوتی تھیں۔ اس دوران وہ قائد اعظم محمد علی جناح ، جواہر لال نہرو، عبدالکلام آزاد جیسی شخصیات سے ملے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

رحیم بخش سومرو 1946 میں سندھ اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے اور وزیر اعلیٰ عبدالستار پیرزادہ کی کیبنٹ میں بطور وزیرکئی برس کام کرتے رہے جس میں یوسف ہارون ، سر غلام حسین ، ہدایت اللہ اور جنرل حمید الدین شامل ہیں۔ وہ دو مرتبہ ایم این اے اور سات مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوچکے تھے۔ وہ عام آدمی کے کے ساتھ دوستانہ ، ہمدردانہ اور عزت والا رویہ رکھتے تھے اور انھیں دوستی نبھانے کا فن آتا تھا اور جب بھی کسی دوست پر برا وقت آیا تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کی دوستی پیر حسام الدین راشدی کے ساتھ بڑی گہری تھی۔ وہ حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ غریبوں اور رشتے داروں کے کام آئیں جس کی وجہ سے ہر مکتب فکر کے لوگ اس کے شیدائی تھے۔

انھوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کو اپنا دشمن نہیں بنایا اور نہ ہی کسی سے نفرت کی، وہ جب بھی اپنے علاقے میں آئے تو غریب اور نادار لوگ اس سے ملنے آتے تھے جنھیں وہ پہننے کے لیے نئے کپڑے اور اچھے کھانے کھلاتے تھے۔ وہ بڑے سخی اور خدا ترس تھے۔

رحیم بخش صاحب نے کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ کسی کو غیر قانونی کاموں میں سپورٹ کیا اور ہمیشہ قانون اور انصاف کا جھنڈا بلند رکھا۔ یہ پہلی شخصیت تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں بطور احتجاج اپنی نشست سے استعفیٰ دیا تھا۔ اپنے والد کی طرح ان کا بھی یہ خواب تھا کہ وہ زراعت کو ترقی دیں لیکن آبپاشی کے پانی کی دن بہ دن قلت کی وجہ سے وہ اس خواب کو پورا نہیں کرسکے۔ وہ ون یونٹ کے سخت خلاف تھے اور جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا تھا کہ یہ اس طرح ہے جیسے کوئی دیواروں کے بغیرکسی گھر میں رہتا ہو۔

وہ ہندو مسلم یونٹی کے حامی تھے اورکبھی بھی اس سلسلے میں کسی کی حمایت نہیں کی بلکہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے والد کے بنائے ہوئے اصولوں پر گزاردی اور ہمیشہ لوگوں کی رائے کو افضل سمجھا اور ان سے احترام اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کی دوستی بھٹو سے بھی تھی مگر وہ 1970ء کے الیکشن میں بطور آزاد امیدوارکھڑے ہوئے تھے اور اپنی سیٹ پر کامیاب ہوئے جو بھٹو جیسے مضبوط انسان کے لیے ایک مثال تھی۔ رحیم بخش اپنے والد کے انتقال کے بعد پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔

انھیں اچھی اور بہترین گاڑی رکھنے کا بڑا شوق تھا اور ایک وقت تھا کہ بہت کم لوگوں کے پاس کراچی میں بھی گاڑیاں ہوتی تھیں لیکن وہ اس وقت بھی امپالا گاڑی رکھتے تھے، جس کا رنگ لال ہوتا تھا لیکن جب وہ شکار پور جاتے تھے تو سوزوکی گاڑی لے جاتے تھے۔ جب ان کے چچا مولا بخش سومرو جو ان کے سسر بھی تھے ، انتقال ہوا تو انھیں سومرو قبائل کا سردار بنایا گیا مگر انھوں نے کبھی بھی خود کو سردار نہیں سمجھا اور اپنے قبائل کے لوگوں کو اپنے بچوں کی طرح ملتے اور ان کے کام آتے تھے، ہر ایک کے ساتھ ادب اور شائستگی کے ساتھ ملتے تھے۔ یہ ان کا معمول تھا کہ صبح ہوتے ہی لوگوں سے اپنے گھر پر ملنا شروع کرتے تھے اور آنے والوں کو ان کی طرف سے کھانا بھی پیش کیا جاتا تھا۔

عوام کے کاموں کے سلسلے میں متعلقہ افسران کو اپنے گھر پر بلاتے اور عزت و احترام کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کو کہتے اور مسائل حل کرنے کی گزارش کرتے۔ جیساکہ افسران بھی جانتے تھے کہ رحیم بخش بھی غلط کام نہیں کہتے اس لیے وہ ان کا کام کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنے دور اقتدار میں بھی کوئی گارڈ اپنے ساتھ نہیں رکھتے تھے، اپنے گھر کے دروازے عام آدمی کے لیے کھلے رکھتے تھے جس کی وجہ سے لوگ بلا ٹوک ان سے مل لیتے تھے۔ انھیں اپنی زندگی میں ایک بڑا دکھ پہنچا جب ان کے بیٹے اللہ بخش ایک ٹریفک حادثے میں چل بسے یہ دکھ وہ کبھی بھلا نہیں سکے۔

وہ ایک مرتبہ Interim Govt میں سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی بنائے گئے تھے۔ عمر کے آخری ایام میں انھیں پھیپھڑوں اور دل کے امراض نے گھیر لیا جس کی وجہ سے وہ 24 جنوری 2005ء کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے، سندھ کے عوام ان کی انسان دوستی اور خدمات کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بیٹے حمیر سومرو اپنے خاندان کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں