جان مسلم کا احترام
ارشاد نبویؐ کا پڑھنا باعث سعادت، ان کا سمجھنا باعث ہدایت اور ان پر عمل پیرا ہونا باعث نجات ہے۔
اسلام دین فطرت اورکامل ترین فطری وقدرتی مذہب ہے، لہٰذا اسلامی تعلیمات ، قوانین ، قواعد و ضوابط اور اصول تمام شعبہ ہائے حیات کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں اور زندگی کے ہر رخ ، ہر پہلو ، ہر شعبے میں انفرادی و اجتماعی، قومی و بین الاقوامی ہر سطح پرکامل رہنمائی کرتے ہیں ، لہٰذا دین اسلام اہل ایمان کو احترام آدمیت اور تکریم انسانیت بالخصوص جان مسلم کے تقدس کا درس دیتے ہوئے اس کی لازوال قدر و قیمت کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خوف خدا اور اندیشہ آخرت کے پیش نظر اپنے تعلقات درست رکھنے چاہئیں۔
بعض علمائے کرام کی رائے ہے کہ اگر دوستی کے لحاظ سے بھائی مراد ہوں تو ان کی جمع خوان آتی ہے اور اگر نسب کے اعتبار سے بھائی مراد ہوں تو اس کی جمع اخوۃ ، قرآن حکیم میں جو فرمایا گیا ہے '' انما المومنون اخوۃ'' تو اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گویا مسلمان آپس میں سگے بھائی ہیں۔
یاد کیجیے وہ وقت جب اس کرہ ارض پر دنیا کا پہلا قتل ہوا، جب حضرت آدمؑ کے صالح بیٹے حضرت ہابیل کی نذر قبول ہوگئی لیکن دوسرے ظالم بیٹے قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی تو قابیل غصے میں آ کر ہابیل کے قتل پر آمادہ ہوگیا تو اس کے ارادہ قتل پر حضرت آدمؑ کے صالح بیٹے حضرت ہابیل نے کیا خوب کہا کہ '' اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے، اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے، ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے'' قرآن حکیم نے سورۃ المائدہ آیات 29-26 میں یہ واقعہ بیان کرکے ایک صالح آدمی کے طرز عمل کو بڑی خوبی کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن حکیم سورۃ المائدہ آیت 32 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔'' تفسیر ابن کثیر سے معلوم ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل میں کشت و خون اور قتل وغارت گری بڑی عام تھی، بالخصوص انھوں نے ستر ہزار انبیا کا قتل کیا تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قتل ناحق اور انسانی جان کی قدروقیمت واضح کرنے کے لیے بنی اسرائیل پر حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ اصول ہمیشہ کے لیے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصریؒ سے پوچھا یہ آیت ہمارے لیے بھی ہے جس طرح بنی اسرائیل کے لیے تھی؟ انھوں نے فرمایا ''ہاں! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بنی اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے۔''
رحمت اللعالمینؐ نے باہمی رحمت و محبت ، وحدت و اخوت کی زندہ حقیقت کو مختلف طریقوں اور تمثیلوں کے ذریعے اپنی امت کے دل و دماغ میں بٹھانے اور فکر ونظر میں سمانے کی کوشش کی تاکہ حجت تمام ہوجائے۔ اس ضمن میں محسن انسانیتؐ کے اقوال و فرامین (احادیث) اصلاح احوال کے لیے پیش خدمت ہیں۔ غور سے پڑھیے، سوچیے، سمجھیے اور دیکھیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور ہمیں کہاں کھڑا ہونا چاہیے! نبی رحمتؐ کے فرمان عالی شان ہیں کہ:
اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! میں (محمدؐ) گواہی دیتا ہوں کہ سارے انسان بھائی بھائی ہیں (مسند احمد، ابو داؤد) ۔ اللہ رب العزت اس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (مسلم، ترمذی)۔ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور اللہ عزوجل سب سے زیادہ محبت اسی سے کرتا ہے جو اس کے عیال کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔ (بیہقی)۔ مخلوق پر رحم کرنے والوں پر رحمنٰ رحم کرتا ہے، جو زمین پر رہتے ہیں تم ان پر رحم کرو، جو آسمانوں میں رہتا ہے، وہ تم پر رحم کرے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
(بخاری و مسلم)۔ تم ایسا پاؤ گے ایمان والوں کو آپس میں رحم کرتے، محبت کرتے، ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرتے جیسے ایک جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی)۔ سب مومن ، فرد واحد کی طرح ہیں، اگر دُکھتی ہے ایک آنکھ تو دکھتا ہے سارا جسم! اور اگر دکھتا ہے سر تو دکھتا ہے تمام جسم ۔ (مسلم)۔ مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے۔ اس کی آنکھ ہے، اس کا راہ نما ہے۔ مومن، مومن کے ساتھ خیانت نہیں کرتا، ظلم نہیں کرتا، جھوٹا وعدہ نہیں کرتا، اس کی کسی جائز خواہش کو رد نہیں کرتا۔ (اصول کافی)۔ مومن، مومن کا بھائی ہے اور مسلمان تن واحد اور روح واحد کی طرح ہیں، مومن کی پہچان یہ ہے کہ اگر دوسرا مسلمان بھوکا ہو تو وہ کھانا نہ کھائے۔ (اصول کافی)۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کی مدد نہیں چھوڑتا اور نہ ہی اس کو حقیر جانتا ہے۔
تقویٰ اس جگہ ہے (یہ فرما کر آپؐ نے اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کیا، تین مرتبہ (پھر فرمایا) انسان کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے، مسلمان کے لیے مسلمان کی ہر چیز حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔ (مسلم)۔ مومن، مومن کے لیے مثل مکان ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط رکھتا ہے (تمثیل دیتے ہوئے) آپؐ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا ۔ (بخاری و مسلم)۔ (سچا) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان سلامت رہے۔
(بخاری و مسلم)۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے جس میں اس کی ہلاکت ہے اور اس کی غائبانہ حفاظت کرتا ہے۔ (ترمذی و ابو داؤد)۔ مومن، الفت کا محل ہے اور اس شخص میں کوئی خوبی نہیں جو الفت نہیں کرتا اور اس سے الفت نہیں کی جاتی۔ (احمد، بیہقی)۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے جو میری رضا کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں، ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے۔
انبیائے کرام اور شہدا ان پر رشک کریں گے۔ (ترمذی)۔ قیامت کے دن اللہ رب العزت فرمائے گا میرے جلال کے پیش نظر جو آپس میں محبت رکھتے ہیں، میں ان کو اپنے سایہ میں جگہ دوں گا جب کہ میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مسلم)۔ جو شخص کسی مغاہر کو قتل کرے گا (یعنی کافر، جس سے جنگ نہ کرنے کا عہد کیا گیا ہو) وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا اور جنت کی خوشبو چالیس برس کے راستے تک پہنچتی ہے۔ (بخاری)۔ خدا کے نزدیک ساری دنیا کا ختم ہوجانا، ایک مسلمان کے قتل ہوجانے کے مقابلے میں بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ (ترمذی و نسائی)۔ جب تک کوئی مسلمان خون حرام کا مرتکب نہیں ہوتا اس وقت تک دین کی وسعت و کشادگی میں رہتا ہے (یعنی اللہ عزوجل کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے)۔ (بخاری)۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے ہاتھ پر بیعت کی نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی کرنے کے لیے۔ (بخاری و مسلم)
ارشاد نبویؐ کا پڑھنا باعث سعادت، ان کا سمجھنا باعث ہدایت اور ان پر عمل پیرا ہونا باعث نجات ہے۔ آئیے معاشرے میں اسم محمدؐ سے اجالا کرکے ظلم و جاہلیت کے اندھیروں کا صفایا کریں اور گل و گلزار بنائیں، اپنا محاسبہ کریں اور اپنی نجات و شفاعت کا سامان پیدا کریں۔