عید میلادالنبی ؐ کا اصل پیغام متّحد و منظّم اُمّت
ہمارے مسلم ممالک بھی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں، جو آپس میں نرم ہوں۔
KARACHI:
ہم پر ماہِ مبارک ربیع الاول جلوہ فگن ہوچکا ہے۔
یہی وہ عالی شان ماہ مبارک ہے جس میں محسن کائنات و راہ بر انسانیت حضرت رسول کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔ وہ نبی کریم ﷺ جو سارے جہاں کے لیے رحمت و برکت و نوید بہار بن کر تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے گم راہ انسانیت کو صراط مستقیم پر گام زن فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہو، خبردار! کسی بھی تفرقے میں مت پڑنا اور اﷲ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا کہ اسی میں تمہاری بقا اور سلامتی ہے۔ بدقسمتی سے اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، بل کہ نام کے بھی کہاں! ہم نے تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
اس پر دل غم سے بوجھل ہے۔ آج امّت مسلمہ مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ بدنصیبی کہ ہمیں اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم دنیا بھر میں بہ حیثیت قوم و امّت اپنی وقعت کھو چکے ہیں اور کسی جگہ بھی ہماری کوئی شنوائی اور پرسان حال نہیں ہے۔ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔
ہمارے مسلم ممالک بھی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں، جو آپس میں نرم ہوں۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ان کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور اﷲ اور اس کے آخری نبیؐ کے پیغام کو بھول گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بہ طور مومن و مسلم اپنی پہچان ختم کر لی ہے اور فرقوں کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔ افسوس کہ مسلم امہ اب متحد نہیں رہی۔
اﷲ کے فرمان عظیم کا مفہوم ہے : '' اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسولؐ اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو اﷲ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے۔'' ہماری رسوائی کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے اسوۂ رسول ﷺ سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس بے قیمتی اور بے وقعتی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کے اسوۂ مبارکہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہوگا۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ بے شک رسول اﷲ ﷺ کی پیروی بہتر ہے، اس کے لیے جو اﷲ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اﷲ کو بہت یاد کرے۔
آج امّت میں انتشار کی بڑی وجہ صرف اپنے ہی مسلک کے حق ہونے پر شدید اصرار ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کی تذلیل کرتے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام تو غیروں کی دل آزاری کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ ہم اﷲ تعالی کے اس فرمان کو بھول گئے، مفہوم: ''اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عن قریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبّت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبّت کرتے ہوں گے، وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔''ربیع الاول کے اس مبارک ماہ میں آپؐ کے پیغام رسالت کو سمجھنا اور سیرت طیبہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنانا ہی میلادالنبی اور آپؐ سے اصل محبت ہے۔
آج ہمارے مسائل کا حل اور سب سے بڑی سچائی اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں اور رسول رحمتؐ کی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کو عوام تک پہنچائیں۔ آپؐ سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو زندگی کا راہ بر بنایا اور سیرت کو اپنایا جائے۔ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے اور پوری زندگی کو سیرت اور اسوۂ حسنہ ﷺ کی روشنی میں گزارنے کا عہد اور جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
آج امت کے ہر فرد کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ موجودہ حالات میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔ اﷲ کا ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر تم مومن ہو تو کام یاب ہو جاؤگے۔ ہمیں اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تفرقہ بازی ہی ہماری ناکامی اور زوال کا سبب ہے۔اگر ہم نے اسوۂ رسالت مآب ﷺ پر عمل کیا تو قرآن حکیم ہمیں خوش خبری سناتا ہے: ''دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔''
ہم پر ماہِ مبارک ربیع الاول جلوہ فگن ہوچکا ہے۔
یہی وہ عالی شان ماہ مبارک ہے جس میں محسن کائنات و راہ بر انسانیت حضرت رسول کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔ وہ نبی کریم ﷺ جو سارے جہاں کے لیے رحمت و برکت و نوید بہار بن کر تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے گم راہ انسانیت کو صراط مستقیم پر گام زن فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہو، خبردار! کسی بھی تفرقے میں مت پڑنا اور اﷲ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا کہ اسی میں تمہاری بقا اور سلامتی ہے۔ بدقسمتی سے اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، بل کہ نام کے بھی کہاں! ہم نے تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
اس پر دل غم سے بوجھل ہے۔ آج امّت مسلمہ مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ بدنصیبی کہ ہمیں اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم دنیا بھر میں بہ حیثیت قوم و امّت اپنی وقعت کھو چکے ہیں اور کسی جگہ بھی ہماری کوئی شنوائی اور پرسان حال نہیں ہے۔ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔
ہمارے مسلم ممالک بھی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں، جو آپس میں نرم ہوں۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ان کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور اﷲ اور اس کے آخری نبیؐ کے پیغام کو بھول گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بہ طور مومن و مسلم اپنی پہچان ختم کر لی ہے اور فرقوں کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔ افسوس کہ مسلم امہ اب متحد نہیں رہی۔
اﷲ کے فرمان عظیم کا مفہوم ہے : '' اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسولؐ اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو اﷲ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے۔'' ہماری رسوائی کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے اسوۂ رسول ﷺ سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس بے قیمتی اور بے وقعتی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کے اسوۂ مبارکہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہوگا۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ بے شک رسول اﷲ ﷺ کی پیروی بہتر ہے، اس کے لیے جو اﷲ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اﷲ کو بہت یاد کرے۔
آج امّت میں انتشار کی بڑی وجہ صرف اپنے ہی مسلک کے حق ہونے پر شدید اصرار ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کی تذلیل کرتے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام تو غیروں کی دل آزاری کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ ہم اﷲ تعالی کے اس فرمان کو بھول گئے، مفہوم: ''اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عن قریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبّت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبّت کرتے ہوں گے، وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔''ربیع الاول کے اس مبارک ماہ میں آپؐ کے پیغام رسالت کو سمجھنا اور سیرت طیبہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنانا ہی میلادالنبی اور آپؐ سے اصل محبت ہے۔
آج ہمارے مسائل کا حل اور سب سے بڑی سچائی اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں اور رسول رحمتؐ کی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کو عوام تک پہنچائیں۔ آپؐ سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو زندگی کا راہ بر بنایا اور سیرت کو اپنایا جائے۔ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے اور پوری زندگی کو سیرت اور اسوۂ حسنہ ﷺ کی روشنی میں گزارنے کا عہد اور جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
آج امت کے ہر فرد کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ موجودہ حالات میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔ اﷲ کا ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر تم مومن ہو تو کام یاب ہو جاؤگے۔ ہمیں اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تفرقہ بازی ہی ہماری ناکامی اور زوال کا سبب ہے۔اگر ہم نے اسوۂ رسالت مآب ﷺ پر عمل کیا تو قرآن حکیم ہمیں خوش خبری سناتا ہے: ''دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔''