قائد ملت کی قربانی سے عبارت زندگی پر ایک نظر
لیاقت علی خان میں بھی انسانی خوبیاں اور خامیاں تھیں کیوں کہ وہ فوق البشر نہ تھے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان قائد اعظم کے معتمد ساتھی ایک نواب گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔
آپ یکم اکتوبر 1895 کو کرنال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نواب رستم علی خان کے اجداد ایران سے پانچ صدی قبل ہندوستان میں آکر آباد ہوئے، اور نوشیرواں کی اولاد کہلاتے تھے۔ گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت علی گڑھ الٰہ آباد یونیورسٹی سے منسلک تھا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اور وہاں سے 1921 میں آنرز اسکول آف جورس پروڈینس سے ڈگری حاصل کی۔ انٹرٹمپل سے 1924 میں بیرسٹر کی سند حاصل کی۔ پہلے مظفر نگر میں رہایش اختیار کی، جہاں ان کی جاگیر تھی، بعد میں دہلی چلے گئے۔
اس وقت دہلی لاہور ہائی کورٹ میں شامل تھی۔آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کی رکنیت حاصل کی۔ لائسینس کی اصل سند پنجاب میوزیم میں اب بھی موجود ہے اور اس کی کاپی لاہور ہائی کورٹ میں رکھی گئی۔ چوں کہ آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اس لیے یہ اقدام کیا گیا تھا۔
نواب زادہ لیاقت علی خان سے شرفِ ملاقات 1938 میں حاصل ہوا لیکن ان کی قربت جب میں نے وکالت شروع کی تو 1945 میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ کے معاملات میں اور پھر آل انڈیا کونسل میں ان کی کوششوں اور کاوشوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو تاریخ میں ان کی مصروفیات اور مسلم لیگ کی جنرل سیکریٹری کے عہدے کے واقعات تو درج ہیں جو میں دہرانا نہیں چاہتا ۔اس پر اکتفا کروں گا کہ جیسے وہ نام کے وکیل تھے مجھے بھی انہوں نے نام کا وکیل بنانے کی کوشش کی لیکن فرق یہ تھا کہ وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے اور صرف سیاست داں تھے لیکن مجھے اگرچہ مسلم لیگ سے گہری وابستگی تھی اور میرا گھرانا بٹالہ ضلع گورداس پور میں ایک روحانی اور تعلیمی درس گاہ کا انتظام کرتا تھا۔
اس لیے جہاں جہاں بھی سلسلۂ قادریہ کے لوگ ہوتے تھے، اکثر مجھے وہاں جانا پڑتا تھا اور پھر تھوڑا بہت وکالت کو بھی میں نے تھامے رکھا۔ جہاں سیاسی الجھنوں کا حل درکار ہوتا وہاں قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتیں اور میں نے بہت کچھ اس سے بھی سیکھا۔ پھر فسادات کے زمانے میں تحریکِ پاکستان کے پنجاب میں گرفتار کارکنوں کی وکالت بھی کرتا تھا لیکن کم و بیش ہر ماہ میں ایک دو باران سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اکثر مذاق سے فرماتے، تم سیاست کے ساتھ ساتھ وکالت کو بھی نہیں چھوڑتے۔ عرض کرتا، بلا فیس وکالت کرتا ہوں اور اکثر سفر خرچ بھی نہیں ملتا۔ خیر نواب زادہ لیاقت علی خان کی ذاتِ گرامی ایک شگفتہ، متحمل مزاج، ذہین و متین سیاست داں کی عمدہ مثال تھی۔
قائد اعظمؒ کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔ 6 دسمبر 1943 کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ صاحب کو دوبارہ جنرل سیکریٹری چُنا گیا۔ قائد اعظمؒ نے آپ کو اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔ 1945 میں بھولا بھائی ڈیسائی کی نواب زادہ سے کانگریس مسلم لیگ اتحاد پر بات چیت ہوئی جس کا چرچا اخبارات میں بے حد ہوا۔ اخبارات میں اس کا ذکر لیاقت ڈیسائی مذاکرات کے نام سے ہوتا رہا۔ نواب زادہ صاحب نے 8 فروری 1945 کو اس کے متعلق اخبارات میں یہ بیان دیا کہ قائد اعظمؒ کے مشورے کے بغیر جو انھوں نے ابھی تک نہیں کیا کوئی معاہدہ مسٹر ڈیسائی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
اگرچہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مسٹر این بی کھارے نے بھی اس کا ذکر شاید مارچ 1944ء میں اسمبلی میں چھیڑا جس کی نواب زادہ لیاقت علی خان نے نہایت زور کے ساتھ تردید کی۔ لیکن پھر بھی وائسرائے نے سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان کو یہ تجویز دی کہ ڈیسائی پلان ہندوستان کے مسئلے کی راہ ہم وار کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ وائسرائے نے بوجوہ ڈیسائی کے اصرار پر سرجان کول کو قائداعظمؒ کے پاس بھیجا جو اس وقت بمبئی میں تھے۔ قائد اعظمؒ نے اس قسم کے کسی بھی معاہدے کے وجود کی تردید کی۔
1946 میں حکومتِ برطانیہ کے کیبنٹ مشن جس میں پیتھک لارنس، سر اسٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر شامل تھے، ہندوستان بھیجا تاکہ وہ آئینی تعطل کو دُور کرواسکیں۔ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے ان مذاکرات میں حصّہ لیا، مشن ناکام ہوا۔ اس میں تین ذیلی ریاستوں کا الحاق تھا۔ اوّل گروپ میں مدراس، بمبئی، یوپی، بہار، سی پی اور اڑیسہ، گروپ دوئم پنجاب، صوبۂ سرحد اور سندھ اور گروپ سوئم میں بنگال اور آسام کے صوبوں کو شامل کیا جانا تھا۔ لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں نے اسے منظور کیا لیکن فوراً ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جب نہرو نے انکار کیا تو قائد اعظمؒ نے بھی اس کی تائید سے دست برداری ظاہر کردی۔
وائسرائے نے ایگزیکٹو کونسل بنانے کی ٹھان لی۔ قائد اعظمؒ نے کانگریس کو کسی مسلم ممبر کی نام زدگی سے انکار کردیا کیوں کہ مسلم لیگ ہی الیکشن میں تمام ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت کی حیثیت سے اُبھری تھی۔ مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دی اور تمام خطاب یافتگان نے اپنے خطابات واپس کردیے۔
نواب زادہ صاحب نے بھی کہا کہ مجھے اب لیاقت علی خان کہا جائے۔ کانگریس نے عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کرلی۔ نواب والی بھوپال نے قائد اعظمؒ، وائسرائے اور کانگریس کے درمیان رابطہ کیا اور قائد اعظمؒ کو درمیانی مدت تک حکومت میں شمولیت کے لیے منالیا۔ اس میں جناب لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے لیڈر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ قائد اعظمؒ نے جوگندر ناتھ منڈل شیڈول کاسٹ کو اپنا نمایندہ نام زد کیا۔ لیاقت علی خان کو محکمۂ خزانہ اور ریاستی امور ملا۔ ہندوؤں کا خیال تھا کہ وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکیں گے۔ کانگریس کے لوگ تو صوبوں میں حکومت کرچکے تھے اس لیے ان کو زعم تھا۔ مسلم لیگ کے ہاں یقیناً اس تجربے کی کمی تھی۔ بہ ہر حال، سردار عبدالرب نشتر سرحد میں وزیر رہ چکے تھے۔ راجہ غضنفر علی پنجاب میں پارلیمانی سیکریٹری رہ چکے تھے۔ چندریگر ایک فاضل وکیل تھے۔ غرض یہ کہ کانگریس کا یہ تخیل بھی غلط ثابت ہوا۔
میرے جیسے چند نوجوان وکیلوں نے اپنی خدمات پیش کیں تاکہ ہم فائلوں کو پڑھ کر صحیح فیصلہ وزراء سے کرواسکیں۔ زیادہ ہندو افسران تھے اور وہ گم راہ کُن نوٹ لکھتے تھے جو رولز کے خلاف ہوتے۔ اس سلسلے میں مجھے یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ مجھے راجہ غضنفر علی، سردار عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خان صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک فائل پر میں نے ایک کاغذ پر نوٹ لکھ کر کامن پن سے چسپاں کردیا۔ جب یہ فائل لیاقت علی خان کے سامنے پہنچی تو انھوں نے بلایا اور کہا، قادری، بھئی، تمھاری محنت کا مجھے کیا فائدہ۔ یہ نوٹ تو مجھے ہی لکھنا پڑے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں نوٹ فائل پر لکھ دیتا اور آپ اس پر دست خط کردیتے تو ہر کسی کو معلوم ہوجاتا کہ یہ حکم آپ کا نہیں کسی اور کا لکھا ہوا ہے۔ فوراً مجھے نہایت شفقت سے کہا کہ تمھارا تجربہ دُرست ہے۔ میں نے تجویز پیش کی آپ دیکھ لیں، میں ٹائپ کروادوں گا۔ اس پر آپ دست خط کردیں، پھر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ یہ بات ان کو اتنی پسند آئی کہ آخر دم تک باوجود اس کے کہ بعد میں ہمارے سیاسی اختلاف ہوگئے، ہمیشہ میری قدر کرتے رہے۔
اسی دوران چمبہ ریاست میں راشٹریا سیوک سنگھ نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ سرکاری طور پر انکوائری کے لیے مجھے بھیجا گیا۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اپنی بیوی کو اپنے گھر بٹالہ چھوڑ کر چمبہ چلا گیا، جہاں میرے استاد میاں غلام حسین رہتے تھے۔ وہاں ریاست میں سرکاری طور پر ہماری بڑی توقیر و خاطر کی گئی لیکن غرب خان صاحب جو وہاں مسلمانوں میں سب سے زیادہ کاروباری اور صاحب ثروت شخصیت سمجھے جاتے تھے، ان کی وساطت سے پتا چلا کہ ہندو تو ہمیں ٹھکانے لگانے کی سوچ رہے ہیں۔ اس لیے واپسی پر ہم ہندو ٹوپیاں اور جوتیاں پہن کر دریائے راوی کے پل پر سے منہ اندھیرے گزرے اور 20 میل کا پہاڑی سفر خچر اور پیدل کرکے ڈلہوزی پہنچے۔جب ہم نے اپنی رپورٹ لیاقت علی خان کو دی تو انھوں نے وہاں کے انگریز ریذیڈنٹ مسٹرشیٹک، جو بنگال میں جناب حسین شہید سہروردی کے پرائیویٹ سیکریٹری رہ چکے تھے، کو ہدایات جاری کیں، اور جب تک تقسیم پر عمل درآمد نہ ہوچکا، چمبہ میں حالات بہتر رہے۔
میں نے لیاقت علی خان کو بہ طور وزیر اعظم کام کرتے بھی دیکھا۔مسلم لیگ پنجاب میں دولتانہ اور ممدوٹ کش مکش سے دوحصّوں میں بٹ چکی تھی۔ میں نے جناح مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لاہور سے الیکشن لڑا اور کام یاب ہوا۔ جناب لیاقت علی خان میں بھی انسانی خوبیاں اور خامیاں تھیں کیوں کہ وہ فوق البشر نہ تھے۔ لیکن باوجود مخالف پارٹی میں ہونے کے جب پنجاب کے اسپیکر کا انتخاب کا وقت آیا تو لیاقت علی خان نے مجھے بُلوایا اور پوچھا کہ تمھاری نظر میں کوئی بزرگ روشن خیال قانون داں ممبر ہے۔میں نے کہا کہ دولتانہ صاحب نے صلاح الدین کا نام تجویز کیا ہے اور وہ پارٹی کے لیڈر ہیں، خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے۔ پھر مجھے کون بچائے گا۔ اس پر کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں، میں تو موجود ہوں۔اب میں نے مسلم لیگ پارٹی سے بیرسٹر اور پُرانے مسلم لیگی، تعلیمی اور قانونی ماہر، خلیفہ شجاع الدین کا نام لیا، انھوں نے بہت پسند کیا۔ وہ حلقہ پنجاب یونیورسٹی سے کام یاب ہوئے تھے، اور اسپیکر بنادیے گئے۔
لیاقت علی خان نے ایک مُکا دِکھا کر ہندوستان کو ڈرا دیا تھا۔ قوم ان کے ساتھ تھی، حالاں کہ بے سروسامانی کا عالم تھا۔ آج بھی لیاقت علی خان کی زندگی کو نمونہ بنائیں تو سیاست داں ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔ تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے۔ اختلافِ رائے ہو لیکن ذاتی رنجشیں، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کام یاب نہ ہوں۔ ملک ہے تو سیاست داں، حاکم اور فوجی جرنیل اور افسر،سب ہی ہوں گے۔ خدانخواستہ ذاتی مفادات اور باہمی کش مکش کی وجہ سیملک کو نقصان پہنچا تو پھر بحیرۂ عرب ہی جائے پناہ ہوگا۔ اﷲ کریم ہمیں سیدھا راستہ دِکھائے۔ لیاقت علی خان نے اپنا خون پاکستان کے لیے وقف کیا اور دے دیا لیکن ہم اپنی انا کو ملک کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ یاد رہے کہ لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بینک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔
آپ یکم اکتوبر 1895 کو کرنال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نواب رستم علی خان کے اجداد ایران سے پانچ صدی قبل ہندوستان میں آکر آباد ہوئے، اور نوشیرواں کی اولاد کہلاتے تھے۔ گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت علی گڑھ الٰہ آباد یونیورسٹی سے منسلک تھا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اور وہاں سے 1921 میں آنرز اسکول آف جورس پروڈینس سے ڈگری حاصل کی۔ انٹرٹمپل سے 1924 میں بیرسٹر کی سند حاصل کی۔ پہلے مظفر نگر میں رہایش اختیار کی، جہاں ان کی جاگیر تھی، بعد میں دہلی چلے گئے۔
اس وقت دہلی لاہور ہائی کورٹ میں شامل تھی۔آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کی رکنیت حاصل کی۔ لائسینس کی اصل سند پنجاب میوزیم میں اب بھی موجود ہے اور اس کی کاپی لاہور ہائی کورٹ میں رکھی گئی۔ چوں کہ آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اس لیے یہ اقدام کیا گیا تھا۔
نواب زادہ لیاقت علی خان سے شرفِ ملاقات 1938 میں حاصل ہوا لیکن ان کی قربت جب میں نے وکالت شروع کی تو 1945 میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ کے معاملات میں اور پھر آل انڈیا کونسل میں ان کی کوششوں اور کاوشوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو تاریخ میں ان کی مصروفیات اور مسلم لیگ کی جنرل سیکریٹری کے عہدے کے واقعات تو درج ہیں جو میں دہرانا نہیں چاہتا ۔اس پر اکتفا کروں گا کہ جیسے وہ نام کے وکیل تھے مجھے بھی انہوں نے نام کا وکیل بنانے کی کوشش کی لیکن فرق یہ تھا کہ وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے اور صرف سیاست داں تھے لیکن مجھے اگرچہ مسلم لیگ سے گہری وابستگی تھی اور میرا گھرانا بٹالہ ضلع گورداس پور میں ایک روحانی اور تعلیمی درس گاہ کا انتظام کرتا تھا۔
اس لیے جہاں جہاں بھی سلسلۂ قادریہ کے لوگ ہوتے تھے، اکثر مجھے وہاں جانا پڑتا تھا اور پھر تھوڑا بہت وکالت کو بھی میں نے تھامے رکھا۔ جہاں سیاسی الجھنوں کا حل درکار ہوتا وہاں قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتیں اور میں نے بہت کچھ اس سے بھی سیکھا۔ پھر فسادات کے زمانے میں تحریکِ پاکستان کے پنجاب میں گرفتار کارکنوں کی وکالت بھی کرتا تھا لیکن کم و بیش ہر ماہ میں ایک دو باران سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اکثر مذاق سے فرماتے، تم سیاست کے ساتھ ساتھ وکالت کو بھی نہیں چھوڑتے۔ عرض کرتا، بلا فیس وکالت کرتا ہوں اور اکثر سفر خرچ بھی نہیں ملتا۔ خیر نواب زادہ لیاقت علی خان کی ذاتِ گرامی ایک شگفتہ، متحمل مزاج، ذہین و متین سیاست داں کی عمدہ مثال تھی۔
قائد اعظمؒ کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔ 6 دسمبر 1943 کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ صاحب کو دوبارہ جنرل سیکریٹری چُنا گیا۔ قائد اعظمؒ نے آپ کو اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔ 1945 میں بھولا بھائی ڈیسائی کی نواب زادہ سے کانگریس مسلم لیگ اتحاد پر بات چیت ہوئی جس کا چرچا اخبارات میں بے حد ہوا۔ اخبارات میں اس کا ذکر لیاقت ڈیسائی مذاکرات کے نام سے ہوتا رہا۔ نواب زادہ صاحب نے 8 فروری 1945 کو اس کے متعلق اخبارات میں یہ بیان دیا کہ قائد اعظمؒ کے مشورے کے بغیر جو انھوں نے ابھی تک نہیں کیا کوئی معاہدہ مسٹر ڈیسائی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
اگرچہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مسٹر این بی کھارے نے بھی اس کا ذکر شاید مارچ 1944ء میں اسمبلی میں چھیڑا جس کی نواب زادہ لیاقت علی خان نے نہایت زور کے ساتھ تردید کی۔ لیکن پھر بھی وائسرائے نے سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان کو یہ تجویز دی کہ ڈیسائی پلان ہندوستان کے مسئلے کی راہ ہم وار کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ وائسرائے نے بوجوہ ڈیسائی کے اصرار پر سرجان کول کو قائداعظمؒ کے پاس بھیجا جو اس وقت بمبئی میں تھے۔ قائد اعظمؒ نے اس قسم کے کسی بھی معاہدے کے وجود کی تردید کی۔
1946 میں حکومتِ برطانیہ کے کیبنٹ مشن جس میں پیتھک لارنس، سر اسٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر شامل تھے، ہندوستان بھیجا تاکہ وہ آئینی تعطل کو دُور کرواسکیں۔ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے ان مذاکرات میں حصّہ لیا، مشن ناکام ہوا۔ اس میں تین ذیلی ریاستوں کا الحاق تھا۔ اوّل گروپ میں مدراس، بمبئی، یوپی، بہار، سی پی اور اڑیسہ، گروپ دوئم پنجاب، صوبۂ سرحد اور سندھ اور گروپ سوئم میں بنگال اور آسام کے صوبوں کو شامل کیا جانا تھا۔ لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں نے اسے منظور کیا لیکن فوراً ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جب نہرو نے انکار کیا تو قائد اعظمؒ نے بھی اس کی تائید سے دست برداری ظاہر کردی۔
وائسرائے نے ایگزیکٹو کونسل بنانے کی ٹھان لی۔ قائد اعظمؒ نے کانگریس کو کسی مسلم ممبر کی نام زدگی سے انکار کردیا کیوں کہ مسلم لیگ ہی الیکشن میں تمام ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت کی حیثیت سے اُبھری تھی۔ مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دی اور تمام خطاب یافتگان نے اپنے خطابات واپس کردیے۔
نواب زادہ صاحب نے بھی کہا کہ مجھے اب لیاقت علی خان کہا جائے۔ کانگریس نے عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کرلی۔ نواب والی بھوپال نے قائد اعظمؒ، وائسرائے اور کانگریس کے درمیان رابطہ کیا اور قائد اعظمؒ کو درمیانی مدت تک حکومت میں شمولیت کے لیے منالیا۔ اس میں جناب لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے لیڈر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ قائد اعظمؒ نے جوگندر ناتھ منڈل شیڈول کاسٹ کو اپنا نمایندہ نام زد کیا۔ لیاقت علی خان کو محکمۂ خزانہ اور ریاستی امور ملا۔ ہندوؤں کا خیال تھا کہ وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکیں گے۔ کانگریس کے لوگ تو صوبوں میں حکومت کرچکے تھے اس لیے ان کو زعم تھا۔ مسلم لیگ کے ہاں یقیناً اس تجربے کی کمی تھی۔ بہ ہر حال، سردار عبدالرب نشتر سرحد میں وزیر رہ چکے تھے۔ راجہ غضنفر علی پنجاب میں پارلیمانی سیکریٹری رہ چکے تھے۔ چندریگر ایک فاضل وکیل تھے۔ غرض یہ کہ کانگریس کا یہ تخیل بھی غلط ثابت ہوا۔
میرے جیسے چند نوجوان وکیلوں نے اپنی خدمات پیش کیں تاکہ ہم فائلوں کو پڑھ کر صحیح فیصلہ وزراء سے کرواسکیں۔ زیادہ ہندو افسران تھے اور وہ گم راہ کُن نوٹ لکھتے تھے جو رولز کے خلاف ہوتے۔ اس سلسلے میں مجھے یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ مجھے راجہ غضنفر علی، سردار عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خان صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک فائل پر میں نے ایک کاغذ پر نوٹ لکھ کر کامن پن سے چسپاں کردیا۔ جب یہ فائل لیاقت علی خان کے سامنے پہنچی تو انھوں نے بلایا اور کہا، قادری، بھئی، تمھاری محنت کا مجھے کیا فائدہ۔ یہ نوٹ تو مجھے ہی لکھنا پڑے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں نوٹ فائل پر لکھ دیتا اور آپ اس پر دست خط کردیتے تو ہر کسی کو معلوم ہوجاتا کہ یہ حکم آپ کا نہیں کسی اور کا لکھا ہوا ہے۔ فوراً مجھے نہایت شفقت سے کہا کہ تمھارا تجربہ دُرست ہے۔ میں نے تجویز پیش کی آپ دیکھ لیں، میں ٹائپ کروادوں گا۔ اس پر آپ دست خط کردیں، پھر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ یہ بات ان کو اتنی پسند آئی کہ آخر دم تک باوجود اس کے کہ بعد میں ہمارے سیاسی اختلاف ہوگئے، ہمیشہ میری قدر کرتے رہے۔
اسی دوران چمبہ ریاست میں راشٹریا سیوک سنگھ نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ سرکاری طور پر انکوائری کے لیے مجھے بھیجا گیا۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اپنی بیوی کو اپنے گھر بٹالہ چھوڑ کر چمبہ چلا گیا، جہاں میرے استاد میاں غلام حسین رہتے تھے۔ وہاں ریاست میں سرکاری طور پر ہماری بڑی توقیر و خاطر کی گئی لیکن غرب خان صاحب جو وہاں مسلمانوں میں سب سے زیادہ کاروباری اور صاحب ثروت شخصیت سمجھے جاتے تھے، ان کی وساطت سے پتا چلا کہ ہندو تو ہمیں ٹھکانے لگانے کی سوچ رہے ہیں۔ اس لیے واپسی پر ہم ہندو ٹوپیاں اور جوتیاں پہن کر دریائے راوی کے پل پر سے منہ اندھیرے گزرے اور 20 میل کا پہاڑی سفر خچر اور پیدل کرکے ڈلہوزی پہنچے۔جب ہم نے اپنی رپورٹ لیاقت علی خان کو دی تو انھوں نے وہاں کے انگریز ریذیڈنٹ مسٹرشیٹک، جو بنگال میں جناب حسین شہید سہروردی کے پرائیویٹ سیکریٹری رہ چکے تھے، کو ہدایات جاری کیں، اور جب تک تقسیم پر عمل درآمد نہ ہوچکا، چمبہ میں حالات بہتر رہے۔
میں نے لیاقت علی خان کو بہ طور وزیر اعظم کام کرتے بھی دیکھا۔مسلم لیگ پنجاب میں دولتانہ اور ممدوٹ کش مکش سے دوحصّوں میں بٹ چکی تھی۔ میں نے جناح مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لاہور سے الیکشن لڑا اور کام یاب ہوا۔ جناب لیاقت علی خان میں بھی انسانی خوبیاں اور خامیاں تھیں کیوں کہ وہ فوق البشر نہ تھے۔ لیکن باوجود مخالف پارٹی میں ہونے کے جب پنجاب کے اسپیکر کا انتخاب کا وقت آیا تو لیاقت علی خان نے مجھے بُلوایا اور پوچھا کہ تمھاری نظر میں کوئی بزرگ روشن خیال قانون داں ممبر ہے۔میں نے کہا کہ دولتانہ صاحب نے صلاح الدین کا نام تجویز کیا ہے اور وہ پارٹی کے لیڈر ہیں، خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے۔ پھر مجھے کون بچائے گا۔ اس پر کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں، میں تو موجود ہوں۔اب میں نے مسلم لیگ پارٹی سے بیرسٹر اور پُرانے مسلم لیگی، تعلیمی اور قانونی ماہر، خلیفہ شجاع الدین کا نام لیا، انھوں نے بہت پسند کیا۔ وہ حلقہ پنجاب یونیورسٹی سے کام یاب ہوئے تھے، اور اسپیکر بنادیے گئے۔
لیاقت علی خان نے ایک مُکا دِکھا کر ہندوستان کو ڈرا دیا تھا۔ قوم ان کے ساتھ تھی، حالاں کہ بے سروسامانی کا عالم تھا۔ آج بھی لیاقت علی خان کی زندگی کو نمونہ بنائیں تو سیاست داں ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔ تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے۔ اختلافِ رائے ہو لیکن ذاتی رنجشیں، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کام یاب نہ ہوں۔ ملک ہے تو سیاست داں، حاکم اور فوجی جرنیل اور افسر،سب ہی ہوں گے۔ خدانخواستہ ذاتی مفادات اور باہمی کش مکش کی وجہ سیملک کو نقصان پہنچا تو پھر بحیرۂ عرب ہی جائے پناہ ہوگا۔ اﷲ کریم ہمیں سیدھا راستہ دِکھائے۔ لیاقت علی خان نے اپنا خون پاکستان کے لیے وقف کیا اور دے دیا لیکن ہم اپنی انا کو ملک کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ یاد رہے کہ لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بینک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔