عمران خان حکومت کے چوہدری نثار
مولانا کا جلسہ دھرنے میں تبدیل ہوگیا، اب وزیر دفاع پرویز خٹک عمران خان کےلیے چوہدری نثار ثابت ہو رہے ہیں
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے کارکنوں کو لے کر اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تو خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ حکومت آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دے گی۔ مظاہرین کو کسی بھی شہر سے نکلنے نہیں دیا جائے گا اور اس حوالے سے تمام صوبائی انتظامیہ کو ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمان مسلسل حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہے اور اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
اُدھر حکومتی حلقوں کی جانب سے مولانا کو راضی کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مولانا فضل الرحمان بضد رہے کہ مارچ تو ہو کر ہی رہے گا۔ بعض حکومتی شخصیات نے وزیراعظم عمران خان کو راضی کیا کہ مذاکرات کے ذریعے آزادی مارچ کو اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی جائے لیکن ریڈ زون میں داخل ہونے نہ دیا جائے۔
حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویزخٹک کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنی اور اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں طے پایا کہ آزادی مارچ کے تحت پشاور موڑ پر جلسہ ہوگا لیکن یہ مارچ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگا۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ کا قافلہ لے کر اسلام آباد کےلیے روانہ ہوئے جس کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں سے قافلے بھی اسلام آباد کےلیے روانہ ہونے لگے۔
پشاور سے اسلام آباد تک آزادی مارچ کے ساتھ رہتے ہوئے آزادی مارچ کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اے این پی، مسلم لیگ نواز، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ میں حصہ لیا؛ اور ہر اپوزیشن جماعت اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ البتہ اس مارچ کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے کا فقدان دیکھنے میں آیا۔
جے یو آئی کے سربراہ کی یہ کوشش تھی کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوں لیکن اے این پی اسلام آباد پہنچنے میں بازی لے گئی۔ جے یو آئی کے قافلوں کے پہنچنے تک پنڈال میں اے این پی کے سرخ جھنڈے لہراتے رہے۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی بھی اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ خیبرپختونخوا سے جے یو آئی کے قافلے میں جان ڈالنے والے رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم خان درانی تھے جو جنوبی اضلاع کا قافلہ لے کر بنوں سے چلے اور 9 گھنٹوں میں پشاور پہنچے۔ اکرم خان درانی کے قافلے کا موٹر وے پر چار گھنٹے انتظار کیا گیا اور ایک طویل قافلہ اسلام آباد میں رات گئے داخل ہوا۔ آزادی مارچ کے شرکاء جس تیاری کے ساتھ آئے ہیں، وہ چند دن کی نظر آرہی ہے لیکن ان کا پڑاؤ طویل ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان اپنی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حکومتی مذاکرات کی کامیابی جے یو آئی کےلیے ٹرننگ پوائنٹ تھی۔ جے یو آئی کی کوشش تھی کہ وہ ایک بار اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوجائیں، اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کھلے لفظوں میں بتادیا ہے کہ ان کا جلسہ بھی ہے اور دھرنا بھی؛ وہ یہاں بیٹھنے کےلیے آئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ان کا ایجنڈا ہے، وہ زور سے استعفیٰ لے کر جائیں گے۔
جے یو آئی کے حلقوں کی جانب سے جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں، ان کے مطابق منصوبہ بندی ڈی چوک تک پہنچنے کی گئی ہے اور ڈی چوک کی جانب مارچ کا اعلان دو سے تین روز میں متوقع ہے۔ اگر یہ صورتحال بنتی ہے تو پھر معاملات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کسی صورت بھی آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے نہیں دے گی۔
اس تمام صورتحال میں تاریخ دہرائی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے جب نواز حکومت کے خلاف مارچ کیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نواز شریف کو یقین دلایا تھا کہ عمران خان کو آنے دیا جائے، جلسے کے بعد وہ منتشر ہوجائیں گے۔ لیکن وہ جلسہ بھی دھرنے میں تبدیل ہوگیا اور اب وزیر دفاع پرویز خٹک عمران خان کےلیے چوہدری نثار ثابت ہو رہے ہیں۔ جے یو آئی کے بعض عہدیداروں کے مطابق معاہدہ جلسے کا ہوا تھا، ہم نے جلسہ کرلیا۔ جلسے کے بعد ہمیں کہاں جانا ہے، اس کا تو معاہدے میں ذکر نہیں۔
بظاہر اسلام آباد کی صورتحال بہتر نظر نہیں آرہی۔ حکومتی حلقوں میں بھی اب پریشانی دیکھی جارہی ہے۔ حکومت مولانا فضل الرحمان کو دوبارہ راضی کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے میں بضد رہیں گے۔ اب حکومت سمیت تمام سیاسی حلقوں کی نظریں مولانا فضل الرحمان کے آئندہ لائحہ عمل پر لگی ہوئی ہیں۔
جس تیاری سے جے یو آئی کے کارکنان اسلام آباد پہنچے ہیں، انہیں ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنا بھی مشکل کام ہوگا۔ اس لیے صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومت مولانا کے آزای مارچ کو سنجیدگی سے نہیں لیتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان کو زمینی حقائق کے برعکس اطلاعات دی جاتی رہیں۔ اب حقائق سامنے آنے پر حکومتی لب و لہجے میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔
احتجاج کی سیاست پُرتشدد احتجاج میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اُدھر حکومتی حلقوں کی جانب سے مولانا کو راضی کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مولانا فضل الرحمان بضد رہے کہ مارچ تو ہو کر ہی رہے گا۔ بعض حکومتی شخصیات نے وزیراعظم عمران خان کو راضی کیا کہ مذاکرات کے ذریعے آزادی مارچ کو اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی جائے لیکن ریڈ زون میں داخل ہونے نہ دیا جائے۔
حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویزخٹک کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنی اور اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں طے پایا کہ آزادی مارچ کے تحت پشاور موڑ پر جلسہ ہوگا لیکن یہ مارچ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگا۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ کا قافلہ لے کر اسلام آباد کےلیے روانہ ہوئے جس کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں سے قافلے بھی اسلام آباد کےلیے روانہ ہونے لگے۔
پشاور سے اسلام آباد تک آزادی مارچ کے ساتھ رہتے ہوئے آزادی مارچ کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اے این پی، مسلم لیگ نواز، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ میں حصہ لیا؛ اور ہر اپوزیشن جماعت اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ البتہ اس مارچ کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے کا فقدان دیکھنے میں آیا۔
جے یو آئی کے سربراہ کی یہ کوشش تھی کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوں لیکن اے این پی اسلام آباد پہنچنے میں بازی لے گئی۔ جے یو آئی کے قافلوں کے پہنچنے تک پنڈال میں اے این پی کے سرخ جھنڈے لہراتے رہے۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی بھی اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ خیبرپختونخوا سے جے یو آئی کے قافلے میں جان ڈالنے والے رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم خان درانی تھے جو جنوبی اضلاع کا قافلہ لے کر بنوں سے چلے اور 9 گھنٹوں میں پشاور پہنچے۔ اکرم خان درانی کے قافلے کا موٹر وے پر چار گھنٹے انتظار کیا گیا اور ایک طویل قافلہ اسلام آباد میں رات گئے داخل ہوا۔ آزادی مارچ کے شرکاء جس تیاری کے ساتھ آئے ہیں، وہ چند دن کی نظر آرہی ہے لیکن ان کا پڑاؤ طویل ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان اپنی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حکومتی مذاکرات کی کامیابی جے یو آئی کےلیے ٹرننگ پوائنٹ تھی۔ جے یو آئی کی کوشش تھی کہ وہ ایک بار اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوجائیں، اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کھلے لفظوں میں بتادیا ہے کہ ان کا جلسہ بھی ہے اور دھرنا بھی؛ وہ یہاں بیٹھنے کےلیے آئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ان کا ایجنڈا ہے، وہ زور سے استعفیٰ لے کر جائیں گے۔
جے یو آئی کے حلقوں کی جانب سے جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں، ان کے مطابق منصوبہ بندی ڈی چوک تک پہنچنے کی گئی ہے اور ڈی چوک کی جانب مارچ کا اعلان دو سے تین روز میں متوقع ہے۔ اگر یہ صورتحال بنتی ہے تو پھر معاملات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کسی صورت بھی آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے نہیں دے گی۔
اس تمام صورتحال میں تاریخ دہرائی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے جب نواز حکومت کے خلاف مارچ کیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نواز شریف کو یقین دلایا تھا کہ عمران خان کو آنے دیا جائے، جلسے کے بعد وہ منتشر ہوجائیں گے۔ لیکن وہ جلسہ بھی دھرنے میں تبدیل ہوگیا اور اب وزیر دفاع پرویز خٹک عمران خان کےلیے چوہدری نثار ثابت ہو رہے ہیں۔ جے یو آئی کے بعض عہدیداروں کے مطابق معاہدہ جلسے کا ہوا تھا، ہم نے جلسہ کرلیا۔ جلسے کے بعد ہمیں کہاں جانا ہے، اس کا تو معاہدے میں ذکر نہیں۔
بظاہر اسلام آباد کی صورتحال بہتر نظر نہیں آرہی۔ حکومتی حلقوں میں بھی اب پریشانی دیکھی جارہی ہے۔ حکومت مولانا فضل الرحمان کو دوبارہ راضی کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے میں بضد رہیں گے۔ اب حکومت سمیت تمام سیاسی حلقوں کی نظریں مولانا فضل الرحمان کے آئندہ لائحہ عمل پر لگی ہوئی ہیں۔
جس تیاری سے جے یو آئی کے کارکنان اسلام آباد پہنچے ہیں، انہیں ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنا بھی مشکل کام ہوگا۔ اس لیے صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومت مولانا کے آزای مارچ کو سنجیدگی سے نہیں لیتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان کو زمینی حقائق کے برعکس اطلاعات دی جاتی رہیں۔ اب حقائق سامنے آنے پر حکومتی لب و لہجے میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔
احتجاج کی سیاست پُرتشدد احتجاج میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔