چہرے کی تبدیلی کی تحریک
موجودہ حالات میں بھی آزادی مارچ کے نام سے احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا ہے
سیاسی استحکام اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت دو مختلف چیزیں ہیں۔ ملک کے سیاسی استحکام کی ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جب کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فوج کا کام ہے۔ جب ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو فوج کا ذہن ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے فکر مند ہو جاتا ہے۔
انھیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ملک سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں اتنا مفلوج نہ ہو جائے کہ اس کی سالمیت اور وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔ ایسے حالات میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ فوج خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے کیونکہ فوج ایک منظم ادارے کی صورت میں اپنا ایک وجود رکھتی ہے لہٰذا وہ حالات کا جائزہ لے کر آسانی سے اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے۔
یہ ایک نکتہ نظر ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کے نتیجے میں جو آمریت ملک پر مسلط ہوتی ہے اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ ہر ڈکٹیٹر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ بہت لائق اور قابل شخص ہے اقتدار پر قبضے کے بعد اپنی ذات کو اولین حیثیت دیتا ہے۔ ذرایع ابلاغ کیونکہ اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اس لیے ان کے ذریعے وہ اپنے آپ کو مرد آہن کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ابلاغ کے ذریعے اس کی شخصیت کے حوالے سے عوام الناس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس کی موجودگی ملک اور قوم کے تحفظ اور بقا کی ضامن ہے وہ کیونکہ طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کرتا ہے لہٰذا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اقتدارکو طاقت کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا ہے لہٰذا وہ مخالفین سے سیاسی انداز میں ڈیل کرنے کے بجائے انھیں طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ عوام کی طاقت سے خوفزدہ ہوتا ہے لہٰذا وہ عوام میں ایسے مسائل کو ہوا دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں اور ان میں باہمی اتحاد اور اعتماد کبھی پیدا نہ ہو سکے اس مقصد کے لیے قومی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو دیوار سے لگا کر لسانی ، نسلی ، مسلکی اور فرقہ واریت پر مبنی علاقائی جماعتوں کو فروغ دیتا ہے تا کہ متحد عوام کی طاقت تقسیم ہو اور وہ اس کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ فوجی احکام جنگ کا دفاعی نکتہ نظر سے جائزہ لے کر جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، برخلاف اس کے ایک ڈکٹیٹر عوام کی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگی فضا کو ہوا دیتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب ہوا اس کے اقتدار کے خلاف ہو۔ ایک ڈکٹیٹر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا وہ یہ سمجھتا ہے کہ رائے عامہ ہوتی نہیں بنائی جاتی ہے۔ وہ اس سوچ کے تحت ابلاغ عامہ کے ذرایع سے پروپیگنڈے کا بھرپور استعمال کرتا ہے اس کے پروپیگنڈے کا مقصد عوام کو تعلیم دینا نہیں بلکہ ان کی تائید حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ایک ڈکٹیٹر اسمبلی کو ناپسندیدگی اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اسمبلی کے اختیارات بالخصوص ایسی اسمبلی جس کے پاس ڈکٹیٹر کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہو ایسی اسمبلی کو وہ اپنی ضد سمجھتا ہے، اس لیے وہ پارلیمانی نظام کی مخالفت کرتا ہے۔ وہ پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام کا حامی ہوتا ہے۔
اگر آئینی جواز کی خاطر پارلیمانی نظام میں رہنا پڑے تو وہ آئینی ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات اتنے محدود کر دیتا ہے کہ پارلیمنٹ اس کے تابع ہوکر محض ایک نمائشی ادارہ بن کر غیر موثر ہو جاتی ہے۔ جمہوری نظام میں فاش غلطی کے مرتکب کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا جاتا ہے تاکہ دوسری غلطی کی گنجائش نہ رہے لیکن کیونکہ ڈکٹیٹر شپ میں حکمران کو نہ ہی آسانی سے ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ہٹانے کا کوئی آسان راستہ ہوتا ہے نتیجے میں وہ غلطی پر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
جمہوری نظام میں ایک سے زیادہ لوگ ملک کا نظام چلاتے ہیں جب کہ ڈکٹیٹر شپ صرف ایک شخص اپنی مرضی سے منتخب کیے ہوئے لوگوں کے ذریعے ملک کا نظام چلاتا ہے یہ ٹولہ عموماً موقع پرستوں اور خوشامدیوں پر مشتمل ہوتا ہے یہ سب اچھا ہے کی رپورٹ دے کر ڈکٹیٹر کو زمینی حقائق سے بے خبر رکھتے ہیں، نتیجے میں حالات خرابی میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ مارشل لا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شیر کی سواری ہے سوار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر نیچے اترا تو اس کا کیا حال ہو گا۔ لہٰذا ایک ڈکٹیٹر اس خوف کے زیر اثر جب اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھتا ہے تو وہ ایسے غیر قانونی اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتا جو ملک کی سالمیت کو ہی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ ڈکٹیٹر شپ کے زیر اثر گزرا ہے جس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسے شاید سیاسی اتائی نظر انداز کر دیں تاریخ اسے نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ہمارے یہاں اس کا ذمے دار سیاستدانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس ضمن میں ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ فوج ایک کمانڈ کے تحت کام کرتی ہے اس کے برعکس سیاستدان کی بنیاد اس امر پر ہوتی ہے کہ وہ الگ الگ جدوجہد کریں۔ ان کا الگ الگ منشور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ الگ الگ جدوجہد کے ذریعے عوام میں اپنی رائے عامہ ہموار کریں اس سلسلے میں باہمی کشمکش، شخصی تصادم، نظریاتی اختلاف، مخالفانہ بیان بازی پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں۔ اگر سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو یہ خرابیاں خودبخود ختم ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں بار بار مارشل لا کے نفاذ کے باعث ہمارا سیاسی نظام استحکام حاصل نہ کر سکا۔ پاکستان میں آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کے خلاف مختلف احتجاجی تحریکیں چلتی رہی ہیں جنرل ایوب خان کے خلاف یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) کی تحریک۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک جنرل ضیا الحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت بینظیر کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی تحریک نواز شریف کے خلاف تحریک نجات ان تحریکوں کے نتیجے میں نظام تبدیل نہیں ہوا صرف حکمران تبدیل ہوئے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اس کے نتیجے میں کسی طالع آزما کو اپنی قسمت آزمانے کا موقع میسر آیا۔
موجودہ حالات میں بھی آزادی مارچ کے نام سے احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں حکمران تبدیل ہوں گے نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ میری ذاتی رائے میں اگر یہ احتجاجی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو تو اس کا زور حکومت یا حکمران کی تبدیلی نہیں ہونا چاہیے بلکہ نظام کی تبدیلی ہونی چاہیے۔ نظام کی تبدیلی کے لیے ہمیں انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے ہوں ہمیں ایسا انتخابی نظام واضح کرنا ہوگا جس میں سول اور عسکری بیورو کریسی انتخابات پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ کرپٹ عناصر انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ دولت کی بنیاد پر کوئی سرمایہ دار اور جاگیردار کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ انتخابات میں دھاندلی کے عمل کو روکا جا سکے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہی ہم قیادت کی تعمیر کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں اور جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے ہیں۔