ایمانداری اور کرپشن کا تقابل

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 27 اکتوبر 1958ء تک ملک میں متعدد وزرائے اعظم آئے

مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ سال 31 مئی کو عہدہ چھوڑ دیا تھا جس کے بعد 18 اگست تک یعنی دو ماہ 17 روز، تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ملک میں نگران حکومت تھی۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے اقتدار کے 14 ماہ مکمل کر چکی ہے اور اس طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ختم ہوئے تقریباً 17 ماہ ہو جائیں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ عمران خان آصف زرداری اور نواز شریف کو ہی ڈاکو اور چور قرار دیتے آ رہے ہیں اور انھوں نے کبھی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چور ڈاکو قرار نہیں دیا اس طرح مبینہ چور و ڈاکو قرار دیے جانے والے دو سابق حکمرانوں سے ملک کو نجات ملے 27 ماہ یعنی سوا دو سال ہو چکے ہیں مگر چور ڈاکو، چور ڈاکو کا شور ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیر مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت ملک میں جمع 70 سال کا گند صاف اور کرپشن کا سد باب کر رہی ہے ۔ ان 70 سالوں میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان گورنر جنرل اور وزیر اعظم رہے اور لیاقت علی خان اپنی شہادت 16 اکتوبر 1951ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور 14 اگست 1947ء سے 16 اکتوبر تک ملک کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تقریباً چار سال دو ماہ تک اقتدار میں رہے۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 27 اکتوبر 1958ء تک ملک میں متعدد وزرائے اعظم آئے۔ دوسرے گورنر جنرل غلام محمد اور پہلے صدر اسکندر مرزا نے کسی بھی وزیر اعظم کوکام کرنے دیا نہ انھیں برداشت کیا اور پاکستان مکمل طور پر عدم سیاسی استحکام کا شکار رہا اور جب جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو معزول کیا، اس کی وجہ بھی کرپشن نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کا نقصان تھا۔ ایوب خان نے متعدد سیاستدانوں کو ایبڈوکے تحت پابندیوں سے قید اور سیاست سے دور رکھا اور اپنے حامی سیاستدانوں کے ساتھ تقریباً گیارہ سال حکومت کی۔

ان پر دھاندلی کے ذریعے صدر کا الیکشن جیتنے، جمہوریت کی بجائے ملک میں آمریت قائم رکھنے سمیت متعدد الزامات تھے مگر پہلے ان کے با اعتماد وزیر اور بعد میں سخت ترین حریف ذوالفقار علی بھٹو سمیت کسی سیاسی رہنما نے بھی ایوب حکومت میں ہونے والی کرپشن کی بات کی نہ غلام محمد سے صدر ایوب خان تک کسی صدر اور وزرائے اعظم پر ذاتی طور پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

1971ء میں ملک کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تھا جو 5 جولائی 1977ء تک وزیر اعظم رہے۔ بھٹو دور میں کوٹہ سسٹم قائم کر کے سندھ میں تعصب پھیلانے، ملک میں جمہوریت کی آڑ میں سویلین آمریت قائم کرنے، مخالف سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں، چوہدری ظہور الٰہی سمیت اپنے مخالفوں پر جھوٹے مقدمات سمیت متعدد الزامات لگے مگر بھٹو صاحب پر بھی ذاتی طور پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکا۔ جنرل ضیا الحق بھی ملک میں 11 سال اقتدار میں رہے مگر ان کی حکومت میں شامل رہنے والے تقریباً تمام وزرا بھی ذاتی کرپشن کے الزامات سے محفوظ رہے۔ 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن میں سندھ سے تعلق رکھنے والے اچھی شہرت کے حامل محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے تھے جنھوں نے اپنے دور میں ایک وزیرکوکرپشن کے الزام میں برطرف کیا تھا جن کا تعلق بلوچستان سے تھا۔


1988ء میں پہلی بار بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں اور اگست 1990ء میں جب ان کی حکومت برطرف کی گئی تو برطرفی کی وجوہات میں کرپشن کا الزام سر فہرست تھا اور محترمہ کے شوہر آصف زرداری پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا الزام لگا جو محترمہ کی دوسری حکومت میں برطرفی کی وجوہات میں مسٹر ہنڈریڈ پرسنٹ قرار پائے اور وہ کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوئے اور طویل اسیری کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ طویل اسیری کے دوران عدالتوں میں ان پر کوئی کرپشن ثابت نہ کی اور دنیا نے دیکھا کہ وہی مبینہ کرپٹ 2008ء میں صدر مملکت منتخب ہوا۔ بے نظیر حکومت کے مبینہ کرپٹ صدر غلام اسحاق خان نے وزیر ماحولیات بھی بنایا تھا جو ان کی بے گناہی کا ثبوت بھی کہا جاتا ہے۔

میاں نواز شریف جنرل ضیا دور میں پہلے وزیر خزانہ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے جن کا تقرر جنرل ضیا الحق نے صرف اس جواز پر کیا تھا کہ ان کا تعلق امیر خاندان سے تھا اور ان سے توقع رکھی گئی تھی کہ وہ کرپشن میں ملوث نہیں ہوں گے۔

نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں دو بار اقتدار سے ہٹایا گیا مگر وہ 2017ء میں سپریم کورٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوئے تو ان پر الزام پانامہ میں مال بنانے کا تھا مگر فیصلے میں وجہ اقامہ قرار دی گئی اور انھیں بعد میں منی ٹریل نہ دینے پر احتساب عدالت نے سزا دی جو بعد میں عدلیہ پر معطل ہوئی تو دوسرے کیس میں انھیں سزا دی گئی۔ ایک میں بری ہوئے اور سزا دینے والے جج ارشد ملک کا ایک فیصلہ ان کی ویڈیو کے باعث متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر (ن) لیگی نواز شریف کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ نیب بھی شریف فیملی اور (ن) لیگیوں پر نئے مقدمات بھی قائم کر رہا ہے جو اپوزیشن یک طرفہ قرار دے رہی ہے۔

اپوزیشن کے نواز شریف ، آصف زرداری سمیت جتنے بھی رہنما کرپشن کے الزام میں گرفتار ہیں، ان میں کوئی بھی اپنی کرپشن تسلیم نہیں کر رہا۔ نواز شریف اور شہباز شریف مسلسل دعوے کر رہے ہیں کہ انھوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی ۔ نیب بھی عدالتوں میں کئی کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی گرفتار سیاسی رہنماؤں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر پا رہا اور احتساب عدالتیں اور اعلیٰ عدلیہ کا موقف ہے کہ ملزمان اپنی بے گناہی کا ثبوت دیں جب کہ کرپشن کے ثبوت اصولی طور پر نیب کی طرف سے پیش ہونے چاہئیں۔

حکومت 70 سال کی کرپشن اور گند ثابت تو کیا کرے گی کیونکہ کرپشن کے الزامات 1988ء کے بعد لگنے شروع ہوئے تھے اور عمران خان کا ٹارگٹ آصف زرداری اور نواز شریف ہی رہے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں کامیابی دلائی گئی کیونکہ پی پی اور مسلم لیگ طویل اقتدار میں رہنے کے باعث متعدد بار آزمائی جا چکی ہیں مگر نیب صرف نئے نئے الزامات ہی لگاتا آ رہا ہے مگر کرپشن کے ثبوت پیش نہیں کر پا رہا جس کی وجہ سے نیب اقدامات جانبدارانہ اور سیاسی قرار دیے جا رہے ہیں اور صرف حکومت نیب کے ساتھ ہے ایماندار وزیر اعظم کے 14 ماہ میں کرپشن کی رقم کیا برآمد ہونی تھی۔ عوام پر صرف مہنگائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے وہ بھی ماضی کے کرپشن کو ہی موجودہ سے بہتر قرار دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
Load Next Story