دولہا دریا خان شہید

سندھ کی تاریخ کا ناقابل فراموش کردار


سندھ کی تاریخ کا ناقابل فراموش کردار

گوتم بدھ نے نروان کی تلاش میں آئے عقیدت مندوں سے کہا تھا نگاہیں نیچی رکھو، عورتوں کو احترام دو، ظاہر کی صفائی اپنی جگہ باطن کی پاکیزگی کہیں زیادہ ضروری ہے، ایسے بن جاؤ جیسے سندھ کے جنگی گھوڑے شریف ہوتے ہیں۔

سندھ کے نام ور اسکالر عطا محمد بھنبھرو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلاشبہ مہران کے باشندے اہنسا کے قائل ہیں مگر جب دھرتی پر یلغار ہو تو ہم بپھر جاتے ہیں اور دفاع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کا عہد پانچویں چھٹی صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس وقت بھی سندھ کے جنگ جو اور جنگی گھوڑے مشہور تھے جو لاشوں کو رگیدتے نہیں تھے ان کا احترام کرتے تھے۔ ایسے ہی سرفروشوں میں سے ایک نام دریا خان کا بھی ہے جو سندھ کے حکم راں جام نظام الدین کا سپاہ سالار تھا۔ ضلع ٹھٹھہ کے مکلی قبرستان میں جو وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے دونوں کے مزارات آج بھی مرجع خاص و عام ہیں کہ سندھ کے باشندے دریا خان کو تو دولہا دریا خان شہید کے نام سے پکارتے ہیں۔ وجہ اس کی وطن دوستی، سرفروشی بتائی جاتی ہے۔

ٹھٹھہ کے صحافی حافظ مشتاق احمد بتانے لگے کہ ٹھٹھہ، سجاول اضلاع کے مابین گولارچی روڈ پر دولہا دریا خان پل موجود ہے جو دریائے سندھ کے دو کناروں پر آباد دونوں اضلاع کے باشندوں کو آنے جانے میں مدد دیتا ہے ٹھٹھہ سندھ کا وہ تاریخی شہر ہے جو مدتوں دارالحکومت رہا ہے۔ مغلوں کے دور میں سندھ آنے والے ایک سیاح نے اپنی کتاب میں یہاں موجود درجنوں علمی اداروں کا ذکر کیا ہے یہاں کا مکلی قبرستان لاکھوں قبور پر مشتمل ہے جن میں بادشاہ، گورنر، نواب، علمائے دین، مشائخ، دانش ور اور صاحب حیثیت افراد بھی مدفون ہیں ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد بھی ایک تاریخی پس منظر رکھتی اور اپنے 99 گنبدوں اور لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گونجنے والی آواز کے حوالے سے بھی معروف ہے۔

ایک چرواہے اور بعض روایات کے مطابق غلام کی زندگی بسر کرنے والے دریا خان کو جام نظام الدین کی قدر شناس نظروں نے اس وقت اپنے مصاحب کے طور پر منتخب کیا جب دوران سفر شدت کی پیاس لگنے پر اس نے اپنے وزیر لکھ ویر سے پانی منگوانے کا کہا۔ غلام دریا پانی لایا تو برتن میں تنکے پڑے تھے جام نے تشنگی کے باوجود ٹھہر ٹھہر کر پانی پیا اور پوچھا صاف پانی کیوں نہیں لائے تو غلام کا جواب تھا آپ ایک سانس میں پی جاتے جو نقصان پہنچاتا۔ یہ جملہ دل میں ترازو ہوگیا ایاز کی طرح جس نے محمود سے کہا تھا غلام کا کوئی نام نہیں ہوتا جس نام سے چاہے پکارو یا پھروہ مغل کنیز جسے شہزادے نے دو کبوتر پکڑائے ایک اڑ گیا شہزادے نے پوچھا کس طرح اس نے دوسرے کو اڑاتے ہوئے کہا اس طرح اور اس جملے نے محبت کے رشتے کی بنیاد رکھ دی۔

دولہا دریا خان کی جام نظام الدین نندو سے ملاقات 1475 میں ہوئی۔ سندھ کی حدود اس عہد میں موجودہ بلوچستان کے علاقے سبی تک محیط تھیں۔ چرواہے یا غلامی سے محلات کے سفر نے دریا خان میں تکبر پیدا نہ کیا بلکہ وفا شعاری بڑھ گئی۔ ابو بکر شیخ نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ جام نندو نے دولہا خان کو اپنی اولاد کی طرح پالا، پرورش کی تربیت دی اور لشکر کا سربراہ بنادیا۔ خود دریا خان نے بھی اسے مایوس نہ کیا تلوار بازی، تیراندازی، گھڑسواری سمیت تمام جنگی و حربی فنون سیکھے اور مہارت حاصل کی۔ ان صلاحیتوں کا امتحان ہرات سے آئے سلطان حسین بایقرا کے لشکر سے مقابلے میں ہوا جہاں دریا خان نے 1490 میں خونریز جنگ کے دوران سلطان محمد ارغون کو شکست دی۔ شکست خوردہ لشکر سلطان محمد ارغون کی موت کے بعد تتر بتر ہوگیا اور دولہا دریا خان فتح مندی کی داستانیں لے کر ٹھٹھہ پہنچا۔

تاریخ معصومی کے مصنف سید معصوم بکھری نے لکھا ہے کہ دریا خان نے صرف اپنی سرحدوں کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ شوریدہ سر دشمنوں کی سرکوبی بھی کی اور ملتان سے کیچ مکران بلکہ کچھ تک کے علاقے جام نظام الدین کی قلمرو میں شامل کیے۔ 1508 میں جام نظام الدین نے وفات پائی تو اس کے بیٹے جام فیروز نے تخت سنبھالا کم عمری کے باعث معاملات کی نگرانی دریا خان کے پاس تھی جو بیوہ ملکہ مدینہ کو پسند نہ تھی۔ نتیجتاً اسے نظرانداز کیا گیا بلکہ بے اختیار بھی۔ جام نظام سے محبت اور سلطنت سے وفاداری کے عہد کے باعث دریا خان نے بغاوت کی نہ کوئی انتقام لیا بلکہ اپنے آپ کو سہون کی جاگیر گاہو میں گوشہ نشیں کرلیا جو سلطنت جام نظام نے تلوار کے برتے پر قائم کر رکھی تھی وہ جام فیروز کی عیش پسندی اور غفلت کے باعث کم زور ہوئی تو جام صلاح الدین نے سلطان مظفر گجراتی کی حمایت سے لشکرکشی کرکے ہتھیالی۔ جام فیروز نے کوئی مزاحمت نہ کی جام صلاح الدین کا عرصہ اقتدار بمشکل آٹھ ماہ بیان کیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں سمہ گھرانے کے جام سنجر کے بیٹے جام صلاح الدین کو سندھ کے بعض امرائے سلطنت کی درپردہ حمایت بھی میسر تھی۔ سلطنت ہاتھ سے گئی تو ملکہ مدینہ اور جام فیروز نے گاہو جاگیر پہنچ کر دریا خان سے ملاقات کی اور اپنے گذشتہ رویے پر معذرت چاہی۔ جام صلاح الدین کی حکم رانی سے نالاں دریا خان نے بکھر، سیہون اور ہالانی و دیگر علاقوں سے سپاہی بھرتی کیے جنگی اسباب جمع کیا اور بڑی جنگ کے بعد جام فیروز کے مخالفوں کو شکست دے کر اسے پھر تاج پہنایا اور تخت پر بٹھایا، لیکن ماضی کی طرح جام فیروز نے اس کی قدر نہ کی اور یہاں تک ہوا کہ شاہ بیگ ارغون حاکم قندھار کو سندھ پر حملے کی دعوت اس لیے دی گئی کہ دریا خان سے جان چھڑائی جاسکے۔



ارغونوں نے سندھ پر قبضے کا اچھا موقع سمجھتے ہوئے لاؤلشکر جمع کیا اور ٹھٹھہ کا رخ کرلیا سندھ میں تالپور سلطنت کے خاتمے پر ایک ضرب المثل نے جنم لیا تھا کہ ''میرن کھے گھراں لگی'' یعنی تالپوروں کا نقصان اپنوں کی غداری کے باعث ہوا، لیکن دیکھا جائے تو جام حکومت کا خاتمہ بھی ان ریشہ دوانیوں کے باعث ہوا جو نادان دوستوں نے شروع کی تھیں۔ محلاتی سازشوں نے عروج پایا تو 1518 کے موسم سرما میں سبی کے ہزاروں لشکریوں نے گاہو جاگیر کے گوٹھ باغبان پر ہلہ بول دیا اور وہاں موجود ایک ہزار اونٹ اپنے ساتھ لے گئے۔ جام فیروز نے اس صورت حال میں خود کو لاتعلق رکھتے ہوئے تخت گاہ چھوڑ کر پیر پٹھو کے علاقے کی راہ اختیار کی جام نندو نے دولہا دریا خان کو مبارک خان اور خان اعظم کے القاب و خطاب سے نوازا تھا۔ یہ محض لقب نہ تھے ایک وسیع پس منظر میں اس کی خدمات کا اعتراف تھا۔ سندھ کی تاریخ اور شخصیات پر کئی کتب کے مصنف مولائی ملاح کہتے ہیں دریا خان نے دوستوں سے کہا یہ وقت قرض چکانے اور غیروں کی یلغار سے دھرتی کو بچانے کا ہے۔

1520 میں دسمبر کی 22 تاریخ کو جب سردی عروج پر تھی انسانی جسم کی شریانوں میں خون جم رہا تھا۔ دریا خان نے لشکریوں سمیت ساموئی میں ارغونوں کو للکارا۔ ساموئی مکلی سے شمال کی طرف سمہ حکم رانوں کی راج دھانی تھی گوکہ ارغون لشکر نے جنگ جیت لی اور دریا خان کے حصے میں شہادت آئی لیکن:

کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست

کا منظر تھا میر محمد پورانی نے اپنی تصنیفات نصرت نامہ تر خان میں لکھا ہے کہ شاہ بیگ ارغون نے اپنی تلوار سے دریا خان کو شہید کیا۔ یہ تلوار سندھ کی وحدت پر بھی چلی۔ ارغونوں نے سیہون سے جنوب کا حصہ جام فیروز کو گزر بسر کے لیے دیا جب کہ شمال کی سمت کا سارا علاقہ اپنی سلطنت کا حصہ بنالیا۔ مکلی کے قبرستان میں جام نظام الدین کے مقبرے کی چاردیواری میں متعدد قبریں ہیں۔ اسی قبرستان میں دریا خان کا مقبرہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سنگتراشوں نے پتھر کا لاجواب کام کیا ہے۔ قبر پر سنگی تاج بھی موجود ہے۔ دو منزلہ قبر، وہاں موجود محرابوں کا خوب صورت سلسلہ، پتھر کے گلاب اور عربی عبارات ابھری ہوئی ہیں۔ یہ ایک بہادر انسان کی آخری آرام گاہ ہے جو سندھ میں پیدا ہوا اور اس کے تحفظ پر جان وار دی۔

دریا خان محض سپاہ سالار ہی نہ تھا، ایک حساس ذہن اور محبت بھرا دل بھی رکھتا تھا۔ اس کے عشق کا قصہ بھی کتابوں میں مرقوم ہے۔ غلام محمد لاکھو نے لکھا ہے کہ ہموں نامی دوشیزہ سے جو راٹھوڑ برادری سے تعلق رکھتی تھی اور جس کا خاندان صحرائے تھر کے جھڈو گودام میں آباد تھا، کسی فوجی مہم کے دوران تالاب پر پانی بھرتے وقت سامنا ہوا اور ابتدائے عشق شادی پر منتج ہوا۔

بتاتے ہیں شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی اور ہموں نے باقی زندگی مکلی کے قریب واقع قلعہ کی حویلی میں گزاری جو اس کے لیے دریا خان نے بنوائی تھی۔ جام نظام الدین نندو کے عہد میں بے شمار جنگیں اور جھڑپیں ہوئیں اور دریا خان نے داد شجاعت دی۔ تفصیلی تذکرے تو نہیں ملتے لیکن جام نظام کے عہد میں اس کی پوزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دریا خان نے اپنے محسن کو مایوس نہیں کیا ہوگا، کیوںکہ سندھ سے محبت دریا خان کے خمیر کا حصہ تھی۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے بیٹوں سارنگ خان، موٹن خان اور محمود خان نے سندھ کے ایک اور ہیرو مخدوم بلاول کا ساتھ دیا جنھیں شاہ بیگ ارغون نے کولہو میں پلوایا تھا۔ دریا خان کو سندھ کے باشندے محبت سے ''دولھ شاہ دریا خان شہید'' کے نام سے پکارتے ہیں جس کے مزار پر تحریر ہے:

یا اللہ

ھٰذا مرقد المعطر

للخان الاعظم

شہید مبارک خان

ابن سلطان نظام الدین

بلاشبہ اس مزار پر اس کی وفاداریوں اور قربانیوں کی مہک ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔