گولا گنڈا بیچنے والے کا بیٹا ریسلنگ کا عالمی چیمپئن کیسے بنا

عالمی سطح پر انعام بٹ نے اتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے


Mian Asghar Saleemi November 12, 2019
انعام بٹ نے مسلسل تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا آپ نے کبھی ایسا پاکستانی پہلوان دیکھا ہے جو انتہائی پڑھا لکھا ہو، روایتی دیسی لباس کے بجائے انگریزی لباس زیب تن کرتا ہو، انگریزی فرفر بولنا جانتا ہو، عام پہلوانوں کی طرح اس کا جسم بھی بھاری بھرکم نہ ہو، اور اس میں حریف کو زیر کرنے کےلیے چیتے کی سی تیزی اور شیر کا سا حوصلہ بھی ہو؟

اگر قارئین کا جواب ناں میں ہے تو ہم بتاتے ہیں۔ اس کے بارے میں تھوڑا سا مزید جان لیجیے۔ اس نے گوجرانوالہ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، اس لیے وراثت میں ذمے داریاں بھی کچھ زیادہ ہی ملیں۔ والد گھر کی دال روٹی پوری کرنے کےلیے چھوٹی موٹی مزدوری کرتا رہا، برف کے گولے بھی بیچے اور عام مزدوروں کی طرح کام کیا۔ گھر میں بھوک، ننگ، افلاس اور غربت کا راج تو تھا لیکن یہ مسائل اور مشکلات بھی اس کے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکئ۔

اکثر خواب میں دیکھا کرتا کہ وہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہا ہے اور اس کے لاکھوں پرستار اس کے کارناموں پر اش اش کر رہے ہیں۔ جب اٹھتا تو گہری یادوں میں کھو سا جاتا۔ خود سے ہی سوال کرتا، اگر اس کا خواب سچا ہے تو وہ اسے حقیقت کا روپ کب اور کیسے دے پائے گا؟ جب کچھ سمجھ میں نہ آتا تو دھوکے، فریب اور مکر سے بھری اس دنیا سے بالکل بے نیاز ہوکر مصلے پر بیٹھ جاتا اور اپنے اس خالق حقیقی کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا، جس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ دونوں جہان کے اصل اور حقیقی بادشاہ سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے اسے اس بات کا احساس ہی نہ ہوتا کہ رات تو کب کی بیت چکی ہے۔ نماز فجر کے بعد اپنی اصل منزل کے حصول میں محو ہوجاتا۔

کہتے ہیں کہ جب ارادے پختہ ہوں اور کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کےلیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس نے فن پہلوانی کی دنیا میں قدم رکھا اور صرف 12 سال کی عمر میں ہی انڈر 16 کا قومی چیمپئن بن گیا۔ اب وہ گزشتہ 12 برس سے مسلسل قومی چیمپئن ہے۔ ان کی کامیابیوں کا سفر ادھر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ عالمی سطح پر انہوں نے اتنی کامیابیاں حاصل کیں کہ ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ وہ پہلوان کوئی اور نہیں بلکہ تین بار کے عالمی چیمپئن محمد انعام بٹ ہیں، جو ڈبل ماسٹرز ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد انہوں نے یو سی پی سے اسپورٹس سائنسز میں ایم ایس سی بھی کیا۔

پہلی بار بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 2010 میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لیا اور بھارتی پہلوان انوج کمار کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ تھائی لینڈ ایشین بیچ گیمز2014 میں 90 کلوگرام پلس کیٹیگری میں حصہ لیا اور کانسی کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بعد ازاں بھارتی شہر گوہاٹی میں 2016 ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں ایک بار پھر بھارتی پہلوان گوپال یادیو کو ناکوں چنے چبوا کر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اسی سال انعام نے ویت نام میں شیڈول ایشین بیچ گیمز مقابلوں میں حصہ لیا اور گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہے۔ سنگاپور میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز ریسلنگ چیمپئن شپ میں وہ چاندی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے۔ بعد ازاں انہوں نے کامن ویلتھ گیمز2018 میں گولڈ میڈل جیت کر دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا۔

محمد انعام بٹ نے 2017 میں ترکی میں شیڈول ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کرکے پہلے پاکستانی ریسلر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس سے قبل رستم پاک و ہند و رستم زمان گاما پہلوان نے 1910 میں ورلڈ چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ حال ہی میں انہوں نے قطر میں شیڈول ورلڈ بیچ گیمز میں نہ صرف سونے کا تمغہ جیت کر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کیے بلکہ مسلسل تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کی۔

دیسی کشتی کی بات کی جائے تو انہیں شیر پاکستان 2018 اور رستم پاکستان 2019 کے ٹائٹلز اپنے سینے پر سجانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ محمد انعام بٹ کی ملک وقوم کےلیے خدمات کے صلے میں انہیں اسی برس 23 مارچ کو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

انعام بٹ کہتے ہیں کہ مجھے اپنے والدین پر فخر ہے، آج جو کچھ بھی ہوں، امی اور ابو کی دعاؤں اور محنت کی بدولت ہوں۔ میرے والد نے جہاں مجھے سخت محنت کرنے کا سبق سکھایا، وہیں میری والدہ بھی نماز پنجگانہ کے بعد میری کامیابیوں کےلیے دعائیں مانگتی رہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان کی تہجد کی نماز کبھی قضا ہوئی ہو۔ انٹرنیشنل سطح پر ملنے والی اب تک کی کامیابیوں پر مطمئن تو ہوں لیکن میرا اصل ہدف اولمپکس چیمپئن بننا ہے۔ یہ منزل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ بخوبی جانتا ہوں کہ ارض پاک میں ٹیلنٹ میں کوئی کمی نہیں۔ نوجوان بھی مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ڈٹ کر سامنا کریں تو وہ دنیا میں بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں