پڑھوگے لکھو گے بنوگے نواب  پہلا حصہ

ہمارا معاشرہ مصنوعی انسانیت کی راہ پر چل رہا ہے۔


مونا خان November 03, 2019

سورج ڈھلنے کو آتا اور مغرب کی اذانیں ہونے لگتیں توگھر سے پیغامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا کہ اب کھیلنا بندکرو اور شرافت سے گھر واپس آجاؤ۔ پر ہم اپنی مٹی کے کھلونوں کی دنیا میں مست کہاں ان آوازوں کو خاطر میں لاتے تھے، مگر جب گھر سے خوف ناک طریقے سے اطلاع آتی کہ جنات کے نکلنے کا ٹائم ہے اگر خوش آمدید کہنے کو دل ہے تو ساری دعائیں اور آیت الکرسی، ورد کرلو ''مرتا کیا نہ کرتا'' کے مصداق ہمارے قدم خودبخودگھرکی جانب ہوتے اورگھر میں ہماری انٹری بلند آواز سے اس نعرے کے ساتھ ہوتی:

کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب

پڑھو گے لکھو گے بنو گے خراب

اور آگے سے بڑی بہن کا تھپڑ سر پر رسید ہوتا اورکانوں میں ان کی خطرناک آواز ٹکراتی کہ ''صبح اسکول جانا ہے اور اب انسان بن جاؤ'' یہ سادہ سی بات اب سمجھ آتی ہے جب اپنے ارد گرد پڑھے لکھے اور کسی جاہل میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ انسان جب ہی انسان کہلاتا ہے جب وہ اخلاقیات اور انسانیت جیسے احساسات سے مالا مال ہو اور علم کا زیور انسان کے حسن میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ آج جب میں خود ماں کے مرتبے پر فائز ہوئی تو دل چاہتا ہے کہ اپنے لخت جگر مصطفیٰ کو شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن نشین کروا دوں:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

مگر نجانے ہم اپنے پھولوں سے کون سی علم کی شمع روشن کروا رہے ہیں جس میں ہم دنیا کو تعلیم یافتہ لوگوں سے تو بھر رہے ہیں مگر یہ انسانیت سے خالی ہو رہی ہے۔ پہلے دو لوگ لڑتے تھے تو تیسرا صلح کراتا تھا مگر اب تیسرا ویڈیو بناتا ہے۔

شکارپور کے دس برس کے امیر حسن ابڑو نے ویکسین نہ ملنے کے سبب کتے کے کاٹنے پر تڑپ تڑپ کر جان دے دی اور ہم سے یہ معصوم یہ کہہ کر چلا گیا کہ ''جو اہل علم ہیں یقینا انھوں نے میری ویڈیو ہر جگہ شیئرکرکے سوشل میڈیا پر درد بھرے ریمارکس دیتے ہوئے اپنے انسان ہونے کا عظیم ثبوت تو دیا ہوگا، پر نجانے انسانی جان سے زیادہ وہ کتا یقینا افضل ہوگا جن کے حقوق کے لیے این جی او ہائی کورٹ تک چلی جاتی ہے زندہ انسانوں میں مردہ معاشرہ پل رہا ہے۔ مجھے بھی یہ فکر اپنے بچے کے لیے لاحق ہوئی کہ نفسا نفسی کے اس دور میں یہ ہوا میرے بچے کو نہ لگے جہاں ڈاکٹرز تو موجود ہیں مگر فیس کی ادائیگی تک مریض کا علاج کرنے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ پر یہاں فیض احمد فیض کے شعر سے مجھے ڈھارس ہوئی:

صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دی دستک

سحر قریب ہے' دل سے کہو نہ گھبرائے

پھر میری ملاقات Leader's Odyssey School کے چیئرمین زاہد جان مندوخیل سے ہوئی اور ان کے خیالات اور اسکول کا سسٹم دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ کراچی کے ٹاپ اسکولزکوئٹہ میں اپنی برانچ کھولتے ہیں کہ وہاں کے بچے جدید تعلیمی وتکنیکی ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں مگر چیئرمین زاہد جان نے پہلے اسکول کی بنیاد کوئٹہ میں رکھی اور تعلیم وتربیت کے لحاظ سے ہر پہلوکو غور و فکر کرکے ہی بچوں کے لیے یہ قدم اٹھایا اور جب میں نے اپنے اندر کے خوف و ڈرکا اظہار کیا تو انھوں نے تسلی دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ '' تاریخی صفحات پلٹنے سے انسانی زندگی کی ابتدا، ارتقا اور انتہا سمجھنے کے بعد ایک ہی خواب نے ہمیشہ سے مجھے بے چین کیے رکھا ، وہ خواب اقدار، اطوار، ثقافت ، مذہب ، سماج ، رواج بجائے ترقی کے تنزلی کی اور پستی کی طرف رواں دواں ہے۔ انسان اور اس کا مقام دین ودنیا کے اعتبار سے جہاں ہونا چاہیے تھا ، بدقسمتی سے وہاں نہیں ہے۔ بیان شدہ خیالات کی بے چینی نے مجھے درس وتدریس کے لامتناہی سفر میں گزرتے لمحات کے سپرد کردیا اور یوں Leader's Odyssey School اسکول کا وجود عمل میں آیا۔''

مجھے ان کے خیالات جان کر بہت زیادہ قلبی اطمینان حاصل ہوا کہ اس دور میں جب کہ تعلیم بھی تجارت بن چکی ہے، ایسے قحط الرجال میں چند اہل علم اور اہل دانش موجود ہیں جو نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے جدید وژن کے حامل ہے اور قوم کے نونہالوں کو مستقبل میں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے کمربستہ ہیں۔

ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم تعلیم یافتہ نوجوان یا افراد تو ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں تیارکر رہے ہیں لیکن جو حالات ہمارے ملک کے ہوچلے ہیں، نفسا نفسی کا عالم ہے اور جس طرح انسانی رویوں کے حوالے سے انسانیت دم توڑ رہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جاہل، اجڈ قوم بنتے جا رہے ہیں۔ ہم نے تعلیم یافتہ افراد تو بنا دیے لیکن ان کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں۔ آج کے جدید ترین دورمیں ہر شے باسانی مل جاتی ہے،آسائش وسہولتوں کی ریل پیل ہے، مگر انسانیت کہیں کھوگئی ہے۔ ہم ایک سفاک اور بے رحم معاشرے کا فرد بنتے جا رہے ہیں۔ بے تہکان انسانوں کا خون بہائے جا رہے ہیں۔

زمین پر ناحق خون بہہ رہا ہے، برداشت کا مادہ ہمارے اندرسے ختم ہوچکا ہے۔ آپ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی قتل وغارت گری کی خبریں اخبارات پر پڑھتے اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھتے ہیں، لوگوں سے درد انگیز واقعات سنتے ہیں۔ آج تو جو حصول انصاف کی بات کرتا ہے، عدل کی بات کرتا ہے، اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اس پر اس کے خاندان پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔

چند ماہ بیشتر رونما ہونے والا اندوہناک سانحہ ساہیوال جس میں کار میں سوار ایک فیملی کو روک کر سی ٹی ڈی اہلکاروں نے معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور تیرہ سالہ بہن پر بے شمارگولیاں برسائیں، اس واقعے میں ملوث ملزمان (جن کی متعدد ویڈیوز بھی عام مسافر شہریوں نے اپنے موبائل کیمروں سے بنائی تھیں) کو عدالت نے شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا۔ مقتول کے بھائی نے کہا کہ وہ اب مزید مقدمے کی پیروی نہیں کریں گے، بچ جانے والے مظلوم بچوں نے قاتلوں کو پہچاننے سے عدالت میں انکارکر دیا۔ یہ ہے عدل کا ناقص نظام اور طاقتور ظالم کی جیت۔

مرحوم صلاح الدین جو اے ٹی ایم مشین سے رقم چرانے پر پکڑا گیا تھا، پولیس تشدد کے باعث جان کی بازی ہارگیا، مقتول کے والد قتل کا مقدمہ لے کر عدالت پہنچ گئے، لیکن اچانک ان کے والد نے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معاف کر دیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک مظلوم اورغریب کو پاکستانی سسٹم میں انصاف ترک کرنا پڑتا ہے یا پھر جینا ہی ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہ دونوں واقعات اس کی مثال ہیں۔

ہمارا معاشرہ مصنوعی انسانیت کی راہ پر چل رہا ہے، جیسے ہمارے اسپتال والے کسی مرتے ہوئے مریض کے اہل خانہ کو وقتی تسلی دینے کے لیے مصنوعی تنفس پر منتقل کردیتے ہیں اور ایک طے شدہ وقت کے بعد موت کی تصدیق کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں