ہماری سفارتی پسپائیاں
کشمیر کے مسئلے کے سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے سے بھارت کو گہرا دھچکا پہنچا ہے۔
ISLAMABAD:
وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کچھ اور بھی لوگ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ہم ثالثی کے چکر میں پڑ کر اور غیر ملکی کرم فرماؤں کی منت سماجت میں لگ کر اصل کام سے بھٹک گئے۔گوکہ سعودی حکمرانوں سے ہمارے بہت ہی قریبی تعلقات قائم ہیں۔ ہم ان کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں مگر وہ ایسے روٹھے ہوئے ہیں کہ انھوں نے ہماری ایک نہیں سنی، حتیٰ کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس تک بلانے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے وہ ایک شعبدہ باز انسان ہے، اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اسے خود اس کے اپنے لوگ جھوٹا اور مکار کہتے ہیں۔ اب ایسی حالت میں ہمارے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ کیا ہم صدق دل سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کشمیر کاز کے لیے دل و جان سے محنت کی ہے اور اس مسئلے کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنالیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھارت کشمیریوں پر اپنی زیادتیاں بڑھا دیتا ہے یا بھارت میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے کسی واقعے کو پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے تو ہمارا دفتر خارجہ کشمیریوں کی بات کرنے لگتا ہے ورنہ تو یہ ایشو جو حقیقتاً کور ایشو ہے ہمیشہ ہی پس منظر میں رہتا ہے۔
ہمارے مقابلے میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ کشمیر ہے۔ وہاں کا دفتر خارجہ مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے لیے سال کے بارہ مہینے محنت کرتا رہتا ہے۔ اس کے ہر سفارت خانے میں کشمیر ڈیسک قائم ہے جہاں سے ہر دارالحکومت میں مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے گمراہ کرنے کے لیے بریفنگ دی جانا معمول کی بات ہے۔ اس کی اس محنت کی کامیابی کی دلیل خلیجی ممالک سمیت دیگر ممالک کا ان کے کشمیر پر موقف کو تسلیم کیا جانا ہے۔ پھر وہ اس سلسلے میں اتنا حساس ہے کہ اگر کوئی دنیا کا لیڈرکشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی بات کرتا ہے تو وہ اس شخص کا بائیکاٹ کردیتا ہے اور اس کے پیچھے اپنے گماشتوں کو لگا دیتا ہے اور وہ اس شخص کو ایسا گھیرتے ہیں کہ وہ کشمیر پر اپنے حقیقت پسندانہ موقف سے دستبردار ہوکر ہی رہتا ہے۔
اس ضمن میں نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہ ایک عالمی رہنما تھے۔ کسی مسئلے پر ان کے موقف کی بڑی اہمیت تھی۔ انھوں نے ایک دفعہ بیان دیا تھا کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرلینا چاہیے کیونکہ کسی قوم کو زیادہ دیر تک محکوم بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود اپنی قوم کی مثال دی تھی کہ پریٹوریا یعنی کہ گوروں کی حکومت کو جنوبی افریقہ کے عوام کو بالآخر آزادی دینا پڑی تھی۔ ان کے اس بیان کے بعد بھارتی حکومت نے اپنے گماشتوں کو ان کے پیچھے لگا دیا تھا اور پھر انھیں ایسا گھیرا گیا کہ انھوں نے پھر کبھی کشمیریوں کی بات نہیں کی۔
چند دن قبل برطانوی حزب اختلاف کے رہنما مسٹر جرمی کورین نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے اور مواصلاتی نظام کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی بات کی تھی۔ برطانوی اخباروں نے خبر دی ہے کہ اس کے بعد بھارتی حکومت نے تقریباً اپنے سو با اثر برطانوی شخصیت کو بھیج کر انھیں اپنے بیان کو واپس لینے پر زور ڈالا مگر وہ اپنے بیان سے نہیں پھرے اور اب بھی اس پر قائم ہیں ۔
اسی طرح ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد پر بھی بھرپور دباؤ ڈالا گیا مگر وہ اپنے موقف پر اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور بھارت کو غاصب قرار دے رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کتنی محنت کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی صرف اس لیے کرا رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے دست بردار ہوجائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ہاں اپنے ہی لوگوں سے اپنے خلاف دہشت گردی کراکے پاکستان کا نام لگا دیتا ہے تو اس کے پس پشت بھی اس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرکے مسئلہ کشمیر سے دورکرنا ہے۔ پھر عرب اور بعض دیگر ممالک سے کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ تسلیم کرانا سراسر بھارت کی کشمیر پر محنت کا ثمر ہے۔
سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے قاتل اپنے وزیر اعظم کو مسلمان ممالک سے ہی امن پسندی کے ایوارڈز دلوانا بھارتی سفارتکاری کی غیر معمولی کامیابی نہیں تو کیا ہے۔ تاہم بھارت کشمیر کو ہتھیانے کے لیے کتنے ہی پاپڑ بیل لے غلط غلط ہی رہے گا۔ عالمی برادری یقینا ہمارے ساتھ ہے ، اس لیے کہ وہ بھارت کی عیاری ، مکاری اور ہوس ملک گیری سے خوب واقف ہے۔ کشمیریوں کو حق اختیاری دینے میں بھارت اس لیے بھی انکاری ہے کیونکہ اسے مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
اس وقت مغربی ممالک پوری دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ، ان کی مرضی کے بغیر اقوام متحدہ کوئی قدم نہیں اٹھاسکتی۔ صرف بھارت کی سوا ارب کی مارکیٹ کی چمک ہی مغربی ممالک کے اس کے قریب آنے کی وجہ نہیں ہے اصل مسئلہ چین کا ہے۔ چین نہ جانے کیوں مغربی ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے وہ اس کی دشمنی میں پاگل ہو رہے ہیں۔ اسے گھیرنے کے لیے بھارت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور بھارت ان کے اس کام کے لیے دل و جان سے تیار ہے۔
چین مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادی دینے کا حامی ہے۔ سلامتی کونسل نے بھارت کو کشمیر میں رائے شماری کرانے کا پابند کیا ہوا ہے مگر وہ اس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے کیونکہ کشمیریوں کا واضح طور پر جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔ بھارت مغربی ممالک کے مزید قریب آنے کے لیے ایشیا سپیسفک اسٹرٹیجک پلان کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پلان کا مقصد چین کے آبی راستے کی ناکہ بندی کرنا ہے۔ بھارت اپنے انڈومان اور نکوبار جزائر کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کئی ممالک کے حوالے کرچکا ہے۔
اس پلان سے چین بہت پریشان ہے کیونکہ مستقبل میں اسے اپنے تجارتی جہازوں کے بحر ہند میں روکے جانے کا احتمال ہے اور اسی لیے اس نے گوادر بندرگاہ کو ترجیح دی ہے تاکہ مغرب اور خلیجی ممالک کی طرف سے آنے والے اس کے جہازوں کا مال بذریعہ گوادر بندرگاہ پاکستان سے ہوتا ہوا اس کی سرحد تک پہنچتا رہے۔ بس اسی وجہ سے گوادر بندرگاہ کی ترقی میں مغربی ممالک اور بھارت کی جانب سے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں مگر پاکستان چین کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا اس لیے کہ وہ پاکستان کا ایک مخلص اور آزمودہ دوست ہے۔ اس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ اس وقت اس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا ہے ورنہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔
کشمیر کے مسئلے کے سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے سے بھارت کو گہرا دھچکا پہنچا ہے۔ اب پھر ثابت ہوگیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی متنازعہ خطہ ہے جس کا حل ہونا ناگزیر ہے تاہم بھارت اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے آج کل مقبوضہ کشمیر کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے وزرا اور آرمی چیف مسلسل پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ساتھ ہی پاکستان کا پانی بند کرنے کی بے وقوفانہ بات کی جا رہی ہے۔ پاکستانی علاقوں پر بالا کوٹ کی طرز پر پھر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں بھارت نے اپنے ایک مسافر جہاز کو پاکستانی حساس تنصیبات کی جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایک مسافر طیارہ جس میں ایک سو بیس مسافر سوار تھے جاسوسی کے مشن پر بھیجنا ان کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف تھا مگر بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ ہمیں بھی اب موجودہ روایتی سست سفارت کاری سے ہٹ کر انتہائی موثر اور متحرک سفارت کاری کو اپنانا ہوگا۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کچھ اور بھی لوگ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ہم ثالثی کے چکر میں پڑ کر اور غیر ملکی کرم فرماؤں کی منت سماجت میں لگ کر اصل کام سے بھٹک گئے۔گوکہ سعودی حکمرانوں سے ہمارے بہت ہی قریبی تعلقات قائم ہیں۔ ہم ان کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں مگر وہ ایسے روٹھے ہوئے ہیں کہ انھوں نے ہماری ایک نہیں سنی، حتیٰ کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس تک بلانے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے وہ ایک شعبدہ باز انسان ہے، اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اسے خود اس کے اپنے لوگ جھوٹا اور مکار کہتے ہیں۔ اب ایسی حالت میں ہمارے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ کیا ہم صدق دل سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کشمیر کاز کے لیے دل و جان سے محنت کی ہے اور اس مسئلے کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنالیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھارت کشمیریوں پر اپنی زیادتیاں بڑھا دیتا ہے یا بھارت میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے کسی واقعے کو پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے تو ہمارا دفتر خارجہ کشمیریوں کی بات کرنے لگتا ہے ورنہ تو یہ ایشو جو حقیقتاً کور ایشو ہے ہمیشہ ہی پس منظر میں رہتا ہے۔
ہمارے مقابلے میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ کشمیر ہے۔ وہاں کا دفتر خارجہ مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے لیے سال کے بارہ مہینے محنت کرتا رہتا ہے۔ اس کے ہر سفارت خانے میں کشمیر ڈیسک قائم ہے جہاں سے ہر دارالحکومت میں مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے گمراہ کرنے کے لیے بریفنگ دی جانا معمول کی بات ہے۔ اس کی اس محنت کی کامیابی کی دلیل خلیجی ممالک سمیت دیگر ممالک کا ان کے کشمیر پر موقف کو تسلیم کیا جانا ہے۔ پھر وہ اس سلسلے میں اتنا حساس ہے کہ اگر کوئی دنیا کا لیڈرکشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی بات کرتا ہے تو وہ اس شخص کا بائیکاٹ کردیتا ہے اور اس کے پیچھے اپنے گماشتوں کو لگا دیتا ہے اور وہ اس شخص کو ایسا گھیرتے ہیں کہ وہ کشمیر پر اپنے حقیقت پسندانہ موقف سے دستبردار ہوکر ہی رہتا ہے۔
اس ضمن میں نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہ ایک عالمی رہنما تھے۔ کسی مسئلے پر ان کے موقف کی بڑی اہمیت تھی۔ انھوں نے ایک دفعہ بیان دیا تھا کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرلینا چاہیے کیونکہ کسی قوم کو زیادہ دیر تک محکوم بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود اپنی قوم کی مثال دی تھی کہ پریٹوریا یعنی کہ گوروں کی حکومت کو جنوبی افریقہ کے عوام کو بالآخر آزادی دینا پڑی تھی۔ ان کے اس بیان کے بعد بھارتی حکومت نے اپنے گماشتوں کو ان کے پیچھے لگا دیا تھا اور پھر انھیں ایسا گھیرا گیا کہ انھوں نے پھر کبھی کشمیریوں کی بات نہیں کی۔
چند دن قبل برطانوی حزب اختلاف کے رہنما مسٹر جرمی کورین نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے اور مواصلاتی نظام کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی بات کی تھی۔ برطانوی اخباروں نے خبر دی ہے کہ اس کے بعد بھارتی حکومت نے تقریباً اپنے سو با اثر برطانوی شخصیت کو بھیج کر انھیں اپنے بیان کو واپس لینے پر زور ڈالا مگر وہ اپنے بیان سے نہیں پھرے اور اب بھی اس پر قائم ہیں ۔
اسی طرح ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد پر بھی بھرپور دباؤ ڈالا گیا مگر وہ اپنے موقف پر اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور بھارت کو غاصب قرار دے رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کتنی محنت کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی صرف اس لیے کرا رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے دست بردار ہوجائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ہاں اپنے ہی لوگوں سے اپنے خلاف دہشت گردی کراکے پاکستان کا نام لگا دیتا ہے تو اس کے پس پشت بھی اس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرکے مسئلہ کشمیر سے دورکرنا ہے۔ پھر عرب اور بعض دیگر ممالک سے کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ تسلیم کرانا سراسر بھارت کی کشمیر پر محنت کا ثمر ہے۔
سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے قاتل اپنے وزیر اعظم کو مسلمان ممالک سے ہی امن پسندی کے ایوارڈز دلوانا بھارتی سفارتکاری کی غیر معمولی کامیابی نہیں تو کیا ہے۔ تاہم بھارت کشمیر کو ہتھیانے کے لیے کتنے ہی پاپڑ بیل لے غلط غلط ہی رہے گا۔ عالمی برادری یقینا ہمارے ساتھ ہے ، اس لیے کہ وہ بھارت کی عیاری ، مکاری اور ہوس ملک گیری سے خوب واقف ہے۔ کشمیریوں کو حق اختیاری دینے میں بھارت اس لیے بھی انکاری ہے کیونکہ اسے مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
اس وقت مغربی ممالک پوری دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ، ان کی مرضی کے بغیر اقوام متحدہ کوئی قدم نہیں اٹھاسکتی۔ صرف بھارت کی سوا ارب کی مارکیٹ کی چمک ہی مغربی ممالک کے اس کے قریب آنے کی وجہ نہیں ہے اصل مسئلہ چین کا ہے۔ چین نہ جانے کیوں مغربی ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے وہ اس کی دشمنی میں پاگل ہو رہے ہیں۔ اسے گھیرنے کے لیے بھارت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور بھارت ان کے اس کام کے لیے دل و جان سے تیار ہے۔
چین مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادی دینے کا حامی ہے۔ سلامتی کونسل نے بھارت کو کشمیر میں رائے شماری کرانے کا پابند کیا ہوا ہے مگر وہ اس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے کیونکہ کشمیریوں کا واضح طور پر جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔ بھارت مغربی ممالک کے مزید قریب آنے کے لیے ایشیا سپیسفک اسٹرٹیجک پلان کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پلان کا مقصد چین کے آبی راستے کی ناکہ بندی کرنا ہے۔ بھارت اپنے انڈومان اور نکوبار جزائر کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کئی ممالک کے حوالے کرچکا ہے۔
اس پلان سے چین بہت پریشان ہے کیونکہ مستقبل میں اسے اپنے تجارتی جہازوں کے بحر ہند میں روکے جانے کا احتمال ہے اور اسی لیے اس نے گوادر بندرگاہ کو ترجیح دی ہے تاکہ مغرب اور خلیجی ممالک کی طرف سے آنے والے اس کے جہازوں کا مال بذریعہ گوادر بندرگاہ پاکستان سے ہوتا ہوا اس کی سرحد تک پہنچتا رہے۔ بس اسی وجہ سے گوادر بندرگاہ کی ترقی میں مغربی ممالک اور بھارت کی جانب سے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں مگر پاکستان چین کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا اس لیے کہ وہ پاکستان کا ایک مخلص اور آزمودہ دوست ہے۔ اس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ اس وقت اس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا ہے ورنہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔
کشمیر کے مسئلے کے سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے سے بھارت کو گہرا دھچکا پہنچا ہے۔ اب پھر ثابت ہوگیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی متنازعہ خطہ ہے جس کا حل ہونا ناگزیر ہے تاہم بھارت اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے آج کل مقبوضہ کشمیر کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے وزرا اور آرمی چیف مسلسل پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ساتھ ہی پاکستان کا پانی بند کرنے کی بے وقوفانہ بات کی جا رہی ہے۔ پاکستانی علاقوں پر بالا کوٹ کی طرز پر پھر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں بھارت نے اپنے ایک مسافر جہاز کو پاکستانی حساس تنصیبات کی جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایک مسافر طیارہ جس میں ایک سو بیس مسافر سوار تھے جاسوسی کے مشن پر بھیجنا ان کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف تھا مگر بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ ہمیں بھی اب موجودہ روایتی سست سفارت کاری سے ہٹ کر انتہائی موثر اور متحرک سفارت کاری کو اپنانا ہوگا۔