جمہوری بیمار

یہ جیل اور اُس کی سختیاں بظاہر اُن کے بس کی بات نہیں لگتی تھی مگر انھوں نے اس بار بڑی ہمت اورجرات سے اس کا مقابلہ کیا۔

ISLAMABAD:
آج کل ملک میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنوں سے بھی بڑا چرچہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی بیماری کا ہے۔ جو جیل میں شدیدعلیل ہوکر اسپتال کے بیڈ پر ہیں ۔

تاریخ ایسے حکمرانوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ، جن کے اقتدار کا سورج جوبن پر رہنے کے بعد زندان کی کال کوٹھڑیوں میں کہیں غرق ہوگیا ۔ ان میں مغل بادشاہوں جہانگیراور شاہ جہاں کی زندگیاں مثال ہیں ، جوظل ِ الٰہی جیسے القابات پانے کے بعد اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں زندان کی تاریکیوں میں گھٹ گھٹ کر مرگئے ۔ جب کہ پاکستان میںشہید ذوالفقار علی بھٹو کی مثال بھی دی جاسکتی ہے، جنھیں اپنے ہی پہریداروں نے زندان اور پھانسی گھاٹ تک پہنچایا ۔

لیکن گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تونظر آتا ہے کہ جیل نیلسن منڈیلا ، آنگ سان سوچی ، بھگت سنگھ ، ہیموں کالانی ، روپلو کولہی ، جی ایم سید اور رسول بخش پلیجو جیسے نڈر اور انقلابیوں کا بھی مسکن رہا ہے جنہوں نے جیل کی سختی ، گُھٹن اور عقوبتوں کا بڑے حوصلے سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے کردار کو دنیا کی امامت کے اہل بنایا ۔

جیل کی خراب ترین صورتحال بھی اُن کے مشن کے آڑے نہ آسکی ۔جیل کی اس تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام دنیا کے وہ پہلے انسان تھے جو ایک من گھڑت الزام میں 10سال جیسا طویل عرصہ جیل میں رہے ۔ دوران قید انھوں نے دنیا میں پہلی بار جیل مینوئل ترتیب دیے ۔ جیل کی صفائی ستھرائی ، قیدیوں کے کھانے پینے سے لے کر آب و ہوا کی رسد کے انتظامات اور قیدیوں کے اخلاقی و نفسیاتی اقدار کی بہتری کے لیے اصلاحات کیں ۔ اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ جیل انسان کو بدراہ روی سے روکنے اور آیندہ گناہوں و جرائم سے توبہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ اُنہیں اذیتیں پہنچانے کے لیے ۔

اس لیے جیل میں بھی اُنہیں انسانی فضیلت و برابری کی تعلیمات اور ماحول فراہم ہونا چاہیے ،مگریہ سب اعلیٰ اقدار کے زمانے کی باتیں ہیں جو کہ ختم ہوتے ہوتے آج اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ آج معاشرے میں اچھے اور برے ، حق اور ناحق کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے ۔اب ایسے انقلابی اور آدرشی لوگ کہاں ملتے ہیں ۔ لیکن آج کے سماج میں ایک خوبی ہے کہ آج دنیا آہستہ آہستہ جمہوری رویوں کو سمجھنے اور اپنانے لگی ہے ، یعنی آج جمہوریت کا بول بالا ہے ۔

دنیا کے دیگر ممالک میں تو تقریباً جمہوری طرز ِ حکمرانی اپنی اصل روح کے مطابق رواں دواں ہے لیکن ہمارے پاکستان میں آج بھی جمہوریت کی بات ایک بساط سے زیادہ نہیں ،جسے جب جی چاہے لپیٹاجا سکتا ہے ۔ اور جمہوریت کی برائے نام بات کرنے والوں کو بھی راستے کا پتھر سمجھ کر سائیڈ کرتے ہوئے جیل کی محفوظ دیواروں میں پہنچادیا جاتا ہے ۔کئی لوگوں کی محنت اور کئی اصلاحات کے با وجود دنیا میں جیل انسانی زندگی کے معیار و اصلاحات کا مرکز نہیں بن سکے ہیں ۔ دنیا میں جیلوں کو ہمیشہ غلاظت و اذیتوں کا گھر بنا کر رکھا گیا ہے ۔

زمانہ جاہلیت تو رہا دور اس جدید دور میں بھی گوانٹانامو بے جیل جیسی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ جب کہ ہمارے یہاں جیلوں کی حالت ِ زار کا رونا ملک کے قیام جتنا ہی پرانا ہے ۔ بارہا اسمبلیوں میں جیل اصلاحات کی سرگزشت سنائی دی گئی ہے لیکن عملی طور پر جیلوں کی حالت آج بھی انسان تو چھوڑیں جانوروں کے رہنے جیسی بھی نہیں ہے ۔ ہمارے جیل منشیات کے دھوئیں ، مچھروں اور چوہوں و کیڑوں کی پناہ گاہیں ہیں ۔ جیلوں میں ملنے والا کھانا آدمی نہیں کھاتا بلکہ وہ کھانا آدمی کو کھاجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اچھا بھلا ،توانا سریر رکھنے والا آدمی جیل میں جاکر بیماریوں اور جراثیم کا گھر بن جاتا ہے ۔

ایسے میں پہلے سے شوگر و بلڈ پریشر کے شکنجے میں دبے یہ سیاسی و جمہوری لوگ پھر کیسے صحت مند اور مدافعت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔اس ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ ایوب خان سے مشرف تک آئین کو ٹشوپیپر سمجھ کر ہاتھ صاف کرکے پھینکنے والوں حتیٰ کہ ملک کو دو ٹکڑے کرنے والوں میں سے کمیشن سفارشات کے باوجود کوئی بھی جیل کی ہوا نہ کھاسکا لیکن اس ملک کے جیلوں کی دیواریں یہاں کے سیاسی و جمہوری رہنماؤں کے وجود سے اچھی طرح آشنا بلکہ میزبان و گرویدہ رہی ہیں ۔

جہاں تک آصف زرداری کی بات ہے تو عمر کا تقاضہ ہے اور انھیں پہلے سے ہی شوگر و دیگر بیماریاں لاحق تھیں ورنہ 1990کے عشرے کے نصف سے 2004تک 10سال جیل کی سختی و تشدد کے آسانی سے جھیلنے کا تجربہ اور شہرت رکھتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ دور میں دیگر سیاسی قیدیوں کی طرح اس وقت ضمانت کے لیے جلد ی نہیں کررہے ۔ رہی بات نواز شریف کی تو وہ نازوں سے پلے عوامی سیاست سے پروان چڑھ کر اقتداری مسند تک پہنچنے والے امیر زادہ شخص ہیں ۔


یہ جیل اور اُس کی سختیاں بظاہر اُن کے بس کی بات نہیں لگتی تھی مگر انھوں نے اس بار بڑی ہمت اور جرات سے اس کا مقابلہ کیا اور حکومت سے کسی قسم کا این آر او نہیں مانگا ۔ ماضی میں مشرف سے ڈیل ہوئی تھی لیکن وقت اور 3بار وزارت ِ عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے والے نواز شریف نے اس بار جیل کی سختیوں کو لبیک کہا اور نواز شریف کے تیور بھی مقتدر قوتوں پر بدل گئے ۔ اور یوں وہ بھی جیل کے مستحق قرار پائے ۔

اس ملک میں بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح صاحب اوراُن کی ہمشیرہ مادر ِ ملت فاطمہ جناح سمیت کئی رہنماؤں کی اموات بھی مسند نشینوں کے جبر و سازشوں کی سرگوشیوں سے ملکی تاریخ کے اوراق بھرے ہوئے ہیں ایسے میں اب نواز شریف کے بیماری کے اس مرحلے پر پہنچنے پر ملکی اداروں کو سوچنا چاہیے ۔ کیونکہ نواز شریف کی بیماری کی مماثلت قیام ِ پاکستان کو قانونی جواز فراہم کرنے والے جی ایم سید جیسی ہے ۔ جی ایم سید نے بھی ملک کے status qou کو للکارا اور 35سال قید کاٹ کر دوران ِ زندان بیماری کی حالت میں مالک حقیقی سے جا ملے ۔

آج تاریخ ایک بار پھر ریاست کو اُسی موڑ پر لے آئی ہے کہ نواز شریف ایسے ہی اسٹیٹس کو سے ٹکرانے کے جرم کی پاداش میں زندان کے مہمان بنے ہیں اور وہیں وہ شدید علالت کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اُن کی حالت ایسی ہے کہ اُنہیں بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے لیکن پہلے تو ان کی بیماری پر ٹھٹولیاں کی گئیں اور جب وہ موت کی دہلیز پر آن کھڑے ہوئے ہیں تو بھی اُنہیں علاج کی جدید سہولیات تک فوری رسائی دینے کے بجائے عمومی و وسطحی سہولیات کے حامل سروسز اسپتال میں ہی رکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے ۔

ڈاکٹروں کے مطابق اُن کے جسم میں پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں ، جس کے لیے بون میرو (Bone Marrow ) آپریشن اور علاج کے دیگر میجر پروسیس میں جانے کی ضرورت ہے ، جوکہ اِس اسپتال میں ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں بھی حکومت کی بے حسی اپنے عروج پر ہے لیکن مسند نشینوں کو ''ظلم جب بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے '' والی بات یاد رکھنی چاہیے ۔ اور پھر اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جی ایم سید کا تعلق تو ایک چھوٹے صوبہ سے تھا لیکن نواز شریف کا تعلق ملکی فیصلوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے بڑے صوبہ سے ہے ۔

جس صوبہ کے عوام کے بل بوتے پر یہ اسٹیٹس کو کھڑا ہے ، اگر نواز شریف کے علاج میں مزید رکاوٹیں ڈالی گئیں اور انھیں کچھ ہوگیا تو شاید یہ ملک بالخصوص اسٹیٹس کو قوتوں کی موجودہ شکل کے لیے اچھا ثابت نہ ہو ۔ یہ بات حکومت نہ سہی لیکن ملک کے فیصلہ ساز ادارے اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی لیے تواس کیس میں ضمانت کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود عدالتوں میں قوانین کی Resettlement پر باتیں ہورہی ہیں اور پہلی مرتبہ اسلام آباد جیل نہ ہونے کی آوازیں اُٹھی ہیں اور علاج کی اجازت حکومت کا استحقاق ہونے کے باوجود عدالت سے فیصلہ لیا گیا ہے ، مگر بیرون ِ ملک جانے کی اجازت کے حوالے سے وہ اب بھی تذبذب کا شکار ہیں ۔ جس کی وجہ ہے موجودہ حکومت کو مسند پر بٹھانے کے لیے ملک میں ن لیگ اور پی پی پی سمیت دیگر بڑی جماعتوں اور اُن کی قیادت کو اِس قدر بدنام کیا گیا ہے کہ اب جب اُنہیں صاف راستہ دینے کی بات آئی ہے تو ان قوتوں کے اقدامات عوام کے سامنے بے نقاب کررہے ہیں اور وہ کھسیانی بلی کی طرح منہ چھپانے کی کوشش میں ہیں ۔

پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ ''دشمن مریے تے خوشی ناں کرئیے ، سجناں وی مرجانا اے '' ۔ موجودہ حکومت کی قیادت کی بڑی اکثریت خود پنجاب سے ہونے کے باوجود اس کہاوت سے ناواقف نظر آتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ موت ،بیماری اور جیل صرف مخالفین کے لیے ہوتے ہیں ۔ وہ (حکمراں) تو پارسا ہیں ، اُن کے تو ''منی لانڈرنگ ''، '' بیرون ِ ملک اثاثے '' اوربنائے گئے ''نجی و خیراتی ادارے '' پاک صاف ہیں ۔

ایسے میں حکومت کو مشورہ ہے کہ اُس کو ن لیگ قیادت کا ماضی پڑھنا چاہیے کہ یہ سوچ کبھی اُس پر بھی حاوی تھی اور اُن کے ساتھ اداراتی ماحول تو موجودہ حکومت سے بھی بہتر تھا لیکن آج ن لیگ کی حالت یہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس ملک میں دائمی مفاد صرف اور صرف اُن نادیدہ قوتوں کا محفوظ ہے، جن کے ہاتھوں کا ہم سب (تمام جماعتیں و ادارے ) کھلونا بنے ہوئے ہیں ، اور وہی قوتیں اس ملک میں کسی شاہی خاندان کی طرح مطلق العنان بنی ہوئی ہیں۔ تبھی تو اُن کے کسی جُز (فرد) پر میگا کرپشن یا بدنیتی اور غیرقانونی اثاثہ جات کا کوئی کیس اول تو ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر وہ کسی طرح ظاہر ہوبھی جائے تو ملوث جُز (فرد) کے صرف خاموش استعفیٰ پر اکتفا کیا جاتا ہے اور بدلے میں تمام الزامات سے بری اور ملک سے باہر جانے کا صاف راستہ اور ریٹائرمنٹ کی مراعات و اعزازات بھی برقرار - اور تو اور الزام کا باعث میگا کرپشن کا پیسہ تک واپس کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔!!!

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں طبقاتی نظام ہے ، یہاں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ، جن میں جاگیردار اور کسان ایک دوسرے کے مقابل تو سرمایہ دار اور مزدور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ،لیکن میری نظر میں یہاں صرف اور صرف ایک ہی طبقاتی نظام ہے ، اور وہ ہے ''جمہوری و غیر جمہوری طبقاتی نظام ''۔یہاں جمہوری طبقہ جہدمسلسل کے باوجود کمزور اور ہمیشہ عتاب میں رہا ہے جب کہ غیر جمہوری طبقہ تمام تر آئینی و قانونی عہد شکنیوں اور خرافات کے باوجود ملک کے سیاہ و سفید کا مالک اور عیاشیوں سے پُر زندگی بلاخوف و خطر جیے جارہا ہے ۔

اس لیے ملک میں حکمران بھی انھی دو طبقوں کی چپقلش سے آتے جاتے رہتے ہیں اور ان حکمرانوں کی حیثیت بھی اسی طبقاتی نظام کے تحت طے ہوتی ہے ۔ یہاں غیر جمہوری طبقے کا نمایندہ ہے تو آئین کو 2مرتبہ معطل کرنے اور بے نظیر بھٹو ، اکبر بگٹی سمیت لال مسجد و 12مئی کے قتل عام جیسے سنگین جرائم میں ملوث آمر اگر جیل میں بیمار ہوجائے تو اُسے علاج کے لیے بیرون ِ ملک جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے، پھر چاہے وہ وہاں جاکر کلبوں میں ڈانس کرے ، میڈیا اینکر بن جائے اور واپس نہ بھی آئے تو کوئی اَچھنبے کی بات نہیں ، لیکن اگر جمہوری طبقے کا نمایندہ ہے تو پھر محض ایک اقامے اور غیر ثابت شدہ کرپشن کے الزام میں ہی یا تو دوران ِ کیس کال کوٹھڑی اُس کا مسکن ہے یا پھر عمر قید کی سزا اُس کا مقدر ہے ۔ پھر اگر وہ جیل میں بیمار ہوجائے تو اُس کی بیماری ''ڈھونگ'' ہوتی ہے، جب کہ علاج ملک میں ہی مناسب نہیں ملتااور بیرون ِ ملک جانا تو خواب و باعث ِ غداری ٹھہرتا ہے ۔

اس لیے اس جمہوری و غیر جمہوری دوطبقاتی نظام میں بیمار بھی جمہوری اور غیر جمہوری ہوتے ہیں ۔ اور اس وقت آصف علی زرداری اور خورشید شاہ سمیت کئی ''جمہوری بیمار'' ملک میں علاج کی سہولت مانگ رہے ہیں لیکن نواز شریف ''جمہوری بیمار ''کی ایک بڑی علامت بن چکے ہیں ۔ جنھیں صحت کے معاملات میں شدید سنگینی سے دوچار ہونے کے باوجود بھی مشرف کی طرح بیرون ِ ملک علاج کی اجازت نہیں ۔۔۔ ہائے ری جمہوریت اور ہائے رے جمہوری بیمار - تیری قسمت ۔۔۔!!!
Load Next Story