تحریک پاکستان کے مجاہد اور صدر مرسی شہید

مرسی کو ہٹانے میں فوج کا نمایاں کردار تھا اس طرح 3 جولائی 2013 کو اس مرد مجاہد کا تختہ فوج نے الٹ دیا۔

nasim.anjum27@gmail.com

گزشتہ دنوں ڈاکٹر محمد مرسی شہید کے حوالے سے ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس اہم تقریب میں ہمیں بھی شرکت کا موقع میسر آیا۔ تقریب کے منتظم پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ تھے۔

شرکا مجلس کو ایک مجلہ بھی تحفتاً پیش کیا گیا تاکہ اسلام اور وطن کے لیے شہادت کا تاج سجانے والوں سے آگاہی حاصل ہو۔ چونکہ آج کا دور فتنوں کا دور ہے، دور دور تک جہل کا اندھیرا پھیلا ہوا ہے اس گھپ اندھیرے میں مجاہدین اور شہدا کی یادوں کو ان کے کارناموں کی بدولت روشن کرلیا جائے تو اس عمل سے آگہی اور افکار تازہ کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے اور علم کے چراغ جلتے ہیں۔

تقریب سے واپسی پر میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ جو کچھ میں نے جانا ہے دیکھا ہے اسے دوسروں تک پہنچاؤں کہ اس دور میں بھی ایسے عالموں اور سالکوں کی کمی نہیں ہے جو تخت وتاج کو محض ''عزیمت'' کی خاطر ٹھوکر مار دیتے ہیں اور یزید کے سامنے سر نہیں جھکاتے ہیں۔ تو جناب! کالم لکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کتاب کا تھوڑا بہت مطالعہ کرلوں، رسالہ ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہیں ہوا تو سوچا کہ جناب آزاد بن حیدر سے ہی مدد لی جائے۔

تحریک پاکستان کے سپاہی ان دنوں صاحب فراش ہیں لیکن انھوں نے اپنی علالت کے باعث اپنی لائبریری سے نہ کہ صدر مرسی شہید کا میگزین دوبارہ دینے کا بندوبست کیا بلکہ مزید ڈھیر ساری کتابوں کا بھی حق دار بنا دیا۔ میں ان کی اس عنایت کی بے حد ممنون ہوں ساتھ میں اس بات کے لیے بھی شکر گزار ہوں کہ وہ میرے کالم پابندی سے پڑھتے ہیں اور پسند فرماتے ہیں۔

پروفیسر آزاد بن حیدر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ فخر پاکستان اور محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انھیں اس طرح متعارف کرایا ہے اور ان کا یہ تعارف جناب آزاد بن حیدر کی ضخیم کتاب ''علامہ اقبال' یہودیت اور جمہوریت'' کے بیک کور پر درج ہے۔

''جناب آزاد بن حیدر ایک بزرگ مفکر ہیں، تحریک پاکستان کے سپاہی ہیں، مجاہد ہیں، ان کا سلسلہ ہمارے پیارے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملتا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ آپ نے ہمیشہ سچ کا علم بلند رکھا اور سچ کا ساتھ دیا ہے، قائد اعظم کی قربت نے جو جذبہ دل میں پیدا کیا وہ آج بھی پوری طرح گرم ہے، آپ ایک سچے محب وطن پاکستانی ہیں، آپ اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے محفلوں اور جلسوں میں نہایت ہر دلعزیز مقرر ہیں۔ اللہ رب العزت نے محترم جناب آزاد بن حیدر کو بہت طاقتور طرز تحریر اور انداز بیاں دیا ہے۔''

رسالے کی ترتیب و پیشکش جناب آزاد بن حیدر کی ہے، انھوں نے تقریباً 100 صفحات پر قابل قدر قلم کاروں کی وقیع تحریروں کو شایع کیا ہے، ان سب کو پڑھنے کے بعد ڈاکٹر محمد مرسی شہید کی زندگی کے بہت سے گوشے اجاگر ہوتے ہیں، ان کی محنت، لگن، طرز زیست اور جہد مسلسل کے کئی رنگ نمایاں ہوگئے ہیں، شہادت پانے والی عظیم ہستی نے شمالی مصر کے ''العدوان'' نامی گاؤں میں جنم لیا، پیدائش آٹھ اگست 1951 ہے۔ والد صاحب پیشے کے اعتبار سے کاشتکار تھے۔

محمد مرسی پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ایک موقع پر وہ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ دوران تعلیم واپسی پر وہ گدھے پر سوار ہوکر گھر آتے تھے یہی سواری انھیں میسر آتی تھی، غالباً دیہات اور گاؤں کے ماحول کے تحت ایسا تھا، تصنع و بناوٹ سے وہ بہت دور تھے جب اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بڑے عہدوں پر براجمان ہوئے تب بھی انھوں نے سچائی اور حق پرستی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ تعیشات زندگی سے ہمیشہ دور رہے ان کے اقتدار کا عرصہ بہت مختصر تھا اس ایک سالہ دور میں انھوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔ مرسی شہید نے صدر بننے کے بعد ایک ماہ کی بھی تنخواہ وصول نہیں کی۔


انصاف اور مساوات کا یہ عالم تھا جب ان کی عزیزہ ہمشیرہ سخت بیمار پڑیں تب ڈاکٹروں کے مشوروں کے باوجود اپنی بہن کو بیرون ملک علاج کی اجازت نہیں دی اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ لاکھوں مریض سرکاری اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں ان کو فراموش کرکے اپنی بہن کو کیونکر ترجیح دے سکتا ہوں۔ انھوں نے شاندار محلوں میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ اپنے فلیٹ میں ہی رہتے رہے۔ تقریب تعزیت میں ان کی شہادت اور وجہ شہادت کے حوالے سے بھی مقررین نے حقائق کی روشنی میں بہترین مضامین نذر سامعین کیے۔

آزاد بن حیدر نے اپنے مضمون ''آہ! ڈاکٹر محمد مرسی شہید'' سے چند سطور پڑھیں۔ انھوں نے بے حد غمزدہ لہجے میں دکھ اور غم کی چیخوں کو سینے میں اتارتے ہوئے کہا ''ڈاکٹر مرسی کی شہادت نے اس پیرانہ سالی میں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، آج دوپہر لیاقت نیشنل اسپتال سے چیک اپ کے بعد شکستہ دل سے ایک دو اقتباسات حاضرین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ''بین الاقوامی سازشوں کی سیاہ، تاریک ابواب کا ہمالیہ ہے اسے،

درد کی ابتدا کہوں یا ضبط کی انتہا کہوں

جو کچھ کہوں تو کیا کہوں اور جو کچھ نہ کہوں توکیا کروں

نام نہاد 9/11 کے بعد جونیئر بش کا یہ تاریخی بیان کہ آج سے صلیبی جنگ شروع ہوگئی ہے، تو میں لکھتے لکھتے تھک جاؤں گایا صہیونیوں کے پروٹوکول کا ذکر کروں جن پر عمل کرنے کے لیے شہید ڈاکٹر محمد مرسی کو شیشے کے پنجرے میں بند کرکے اسلام کے روشن باب کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو ایک آزاد بن حیدر نہیں سیکڑوں آزاد بن حیدر لکھ لکھ کر موت کی وادی میں گم ہوجائیں گے۔''

مقررین میں پروفیسر ہارون الرشید، پروفیسر فرحت عظیم ، پروفیسر خیال آفاقی اور ماہر تعلیم انوار احمد یوسف زئی شامل تھے۔ پروفیسر ہارون الرشید نے اس قسم کے خونی واقعات کو ایک سازش اور ایک تسلسل قرار دیا، ابو جمال ناصر کا استعفیٰ بھی ڈرامائی تھا، ماضی میں لوٹ چلیں تو روس اس وقت سوشل ازم کا بڑا حامی تھا، عراق کے بادشاہ کو بھی قتل کیا گیا اسی زمانے میں انورالسادات کا بھی قتل ہوا۔ پروفیسر خیال آفاقی نے منظوم خراج تحسین کیا۔

شہید مرسی نے جامعہ قاہرہ سے انجینئرنگ میں 1978 میں ایم فل کی سند حاصل کی تھی، سرکاری اخراجات پر اپنی قابلیت کی بنا پر امریکا کی یونیورسٹی میں 1982 سے 1985 تک تدریسی خدمات انجام دیں اسی دوران وہ اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ مہارت کے باعث عالمی شہرت یافتہ خلائی تحقیقی ادارے ناسا (National Aeronautics and Space Administration)میں بھی کام کرتے رہے اس قدر کامیابیاں سمیٹنے اور بہترین مستقل کی ضمانت کے باوجود وہ وطن کی محبت سے سرشار ہوکر اپنے ملک مصر لوٹ آئے یہاں جامعہ ''الزقازیق'' میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔

محمد مرسی 2000-2005 تک بطور آزاد امیدوار پارلیمنٹ کے رکن رہے۔ اپریل 2012 میں ان کو اخوان المسلمین کا صدارتی امیدوار منتخب کیا گیا۔ 2012 میں ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔ مرسی چونکہ اسلامی ذہن اور اسلامی نظریات رکھتے تھے اسی وجہ سے مرسی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ مرسی کو ہٹانے میں فوج کا نمایاں کردار تھا اس طرح 3 جولائی 2013 کو اس مرد مجاہد کا تختہ فوج نے الٹ دیا اور مرسی کو زنداں میں ڈال دیا گیا۔

مدت قید چھ سالوں پر محیط تھی، ان گزرے سالوں میں انھیں قید تنہائی میں رکھا، اپنوں سے ملنے کی اجازت نہ تھی، صرف دو تین ملاقاتوں کے علاوہ وہ کسی سے ملاقات نہ کرسکے، ظلم کی انتہا یہ کہ انھیں شیشے کے پنجرے میں بند کرکے عدالت لایا جاتا تھا۔ کمرہ عدالت میں وہ انتقال کرگئے اور زمانے کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد راہِ بہشت کو سدھارے۔
Load Next Story