انعام بٹ کو انعام کون دے گا کرکٹ ہی آنکھ کا تارا کیوں

کرکٹرز ہوں یا کوئی اور گیم کے کھلاڑی سب کا ایک ہی مقصد اپنے کھیل کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے۔

کرکٹرز ہوں یا کوئی اور گیم کے کھلاڑی سب کا ایک ہی مقصد اپنے کھیل کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

سری لنکن کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے دوران گرین شرٹس کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے، لیکن کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ کروڑوں شائقین کے دلوں کو توڑنے والے ہمارے کرکٹرز اب بھی قومی ہیروز ہیں جبکہ جو قوم کے اصل ہیروز ہیں، انہیں زیرو بنا دیا گیا ہے۔

زیادہ دور جانے کی بات نہیں،انٹرنیشنل ریسلرانعام بٹ کو ہی دیکھ لیں، انعام ہماری ملکی کھیلوں کا ایسا روشن ستارہ ہے جو اپنی غیر معمولی کارکردگی سے مسلسل دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے، حال ہی میں انہوں نے قطر میں شیڈول ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ کا ٹائٹل دوسری بار اپنے نام کیا ہے، لیکن افسوس صد افسوس ان کی اس کارکردگی کو ابھی تک حکومتی سطح پر سراہا نہیں گیا،چونکہ انعام بٹ کرکٹر ہے اور نہ ہی اس کا تعلق ہماری اشرافیہ سے ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے گولڈ میڈل کی وہ اہمیت نہیں جو حکمرانوں کو متاثر کر سکے۔

بلاشبہ عالمی سطح پر کامیابی سمیٹنا کوئی معمولی بات نہیں، اگر یہ کارنامہ ہماری لاڈلی اور چہیتی کرکٹ ٹیم انجام دیتی تو حکومت اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی، کھلاڑیوں کو ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدر میں بلا کر ان کی خوب ستائش کی جاتی، کرکٹرز کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے اور کروڑوں روپے کے انعامات اور میڈلز سے نوازا جاتا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے انعام بٹ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس لئے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرا کر یہ کھلاڑی جب پاکستان پہنچا تو ان کے استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی حکومتی عہدیدار ائرپورٹ پرموجود نہ تھا۔ اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے باوجود حکومت کی طرف سے اعزازات اور انعامات سے نوازنا تو دور کی بات ہے، حکومت کی طرف سے انعام بٹ کو مبارکباد تک نہیں دی گئی۔

ملکی کھیلوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ریسلنگ فیڈریشن کی کارکردگی نمایاں رہی ہے، ویٹ لفٹنگ میں بھی خاصا ٹیلنٹ سامنے آیا ہے، لیکن ناقدری ایسی کہ دل خون کے آنسو روتا ہے، بدقسمتی ہے کہ اچھی کارکردگی کے باوجود ریسلنگ فیڈریشن کو حکومت کی سرپرستی اور تعاون حاصل نہیں ہے۔اس رویے پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے، ہمارے حکمران باصلاحیت نوجوانوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرتے ہیں بلکہ نئے آنے والوں کاراستہ بھی روکتے ہیں، یہی رویے ہماری کھیلوں کی ترقی اور فروغ میں رکاوٹ کی بڑی وجہ ہیں۔


ہمارے ملکی کھیلوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ کرکٹ ہی حکمرانوں کی آنکھ کا تارہ رہی ہے، ہاکی کو قومی کھیل جان پر اس کی بھی سپورٹ کی جاتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے انفرادی کھیلوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ سنوکران چارملکی کھیلوں میں شامل ہے جس نے پاکستان کو عالمی چیمپئن بنایا ہے لیکن دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کھیل کے پاس کرکٹ جیسا گلیمر نہیں کہ سپانسرز خود چل کر آئیں ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے عالمی چیمپئن محمد یوسف اسی معاشی گردش میں پھنسے رہے۔ ان کے بعد عالمی ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے صالح محمد کو جب یہاں اپنا مستقبل نظر نہیں آیا تو وہ اپنے وطن افغانستان لوٹ گئے۔

صرف یہی دو نہیں بلکہ سنوکر کے ہر پاکستانی کھلاڑی کی کہانی ایک جیسی ہی ہے۔سابق عالمی چیمپئن محمد آصف بھی مسلسل حکومتی بے رخی کا شکار ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال باکسنگ، ایتھلیٹکس، ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ سمیت دوسری گیمز کا بھی ہے،حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ملکی اور عالمی سطح پرملک وقوم کا نام روشن کرنے والے بیشتر پلیئرز غربت اور بیماری سے لڑتے لڑتے منوں مٹی میں دفن ہو چکے ہیں اور جو زندہ ہیں،وہ معمولی معمولی کام کر کے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں، کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کوئی ریڑھی لگا کر گزر بسر کر رہا ہے،کوئی سرکاری و نیم سرکاری محکمے میں نچلے درجے کا ملازم ہے تو کوئی بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو کرکٹرز ہوں یا کوئی اور گیم کے کھلاڑی سب کا ایک ہی مقصد اپنے کھیل کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے، لیکن حکومتی نظر میں کرکٹ ہی صرف گیم ہے ، پلیئرز کی رائے میں پہلے ادوار میں کھلاڑیوں کو انعامات سے نوازنے کے ساتھ پلاٹ بھی ملتے تھے، اب تو کچھ بھی نہیں ہے، اگر کرکٹرز کو سنٹرل کنٹریکٹ اور دیگر مالی مراعات مل سکتی ہیں تو دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو کیوں نہیں۔

جب کھلاڑیوں کو مراعات ملیں گی توانہیں بھی اندازہ ہوگا کہ اگر وہ بڑا کارنامہ انجام دیں گے تو انہیں بھی معاشرے میں عزت ووقار ملنے کے ساتھ حکومت کی طرف سے انعام بھی ملے گا تو وہ زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی گیم پر توجہ دے سکیں گے، جب تک پلیئرز کوحکومت کی طرف سے مراعات اور ریوارڈز نہیں ملیں گی تو مزید کھلاڑیوں کا اوپر آنا بھی مشکل ہو جائے گا۔عمران خان خود بھی سپورٹسمین ہیں اور کھیلوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ بھی ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ریسلنگ سمیت دوسری گیمز کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کرے اور کرکٹ کی طرح دوسری ملکی کھیلوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دے جس کی وہ اصل حقدار ہیں۔
Load Next Story