سانحہ قصور… پولیس کیسے مرکزی ملزم تک پہنچی

اسمارٹ پولیسنگ کے تحت پولیس اہلکاروں نے ریڑھیاں لگائی تو کبھی گلیوں میں پاپڑ بیچے


سید مشرف شاہ November 03, 2019
اسمارٹ پولیسنگ کے تحت پولیس اہلکاروں نے ریڑھیاں لگائی تو کبھی گلیوں میں پاپڑ بیچے۔ فوٹو: فائل

قصور کے علاقہ چونیاں میں چار بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے والے ملزم کو پولیس نے انتہائی مختصر مدت میں گرفتار کر کے ایک بار پھر اپنی قابلیت ثابت کر دی ہے۔ اس کیس میں آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے جس طرح متحرک کردار ادا کیا، وہ ناقابل فراموش ہے۔

آئی جی پنجاب تقریبا ہر روز قصور جاتے اور ملزم کو ٹریس کرنے کی پلاننگ سمیت دیگر اقدامات کے حوالے سے ہر مرحلے پر خود اپنے افسران کے ساتھ کھڑے رہے۔ آئی جی پنجاب ہمیں رات ایک بجے شروع ہونے والی میٹنگ میں نظر آئے تو صبح 9 بجے بھی وہ فیلڈ میں ہوتے تھے۔ اسی طرح ڈی پی او قصور زاہد نواز مروت کے ہمراہ ایس پی انویسٹی گیشن قصور مرزا قدوس بیگ نے بھی اس کیس پر دن رات ایک کر دیا۔

زاہد نواز مروت کو بطور پولیس آفیسر یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ زینب قتل کیس کے ملزم کو ٹریس کرنے میں بھی ان کا ہی اہم کردار تھا اور اب قصور کے چار معصوم بچوں کے قاتل کی گرفتاری کے وقت بھی وہی ڈی پی او قصور کے عہدے پر کام کر رہے تھے، انہیں اس کیس کے لئے خاص طور پر تعینات کیا گیا تھا۔

ڈی پی او قصور زاہد نواز مروت نے اس کیس کے حوالے سے بتایا کہ قصور میں پولیس نے ملزم کی شناخت اور اس تک پہنچنے کے لئے''انڈر کور'' کے طور پر بھی کام کیا۔ پولیس ٹیم نے روایتی پولیسنگ کے ساتھ ساتھ سمارٹ اینڈ کمیونٹی پولیسنگ کی تکنیک کو اختیار کرتے ہوئے وردیاں اتار کر سادہ لباس میں شہریوں کے درمیان رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ گلی محلوں سے کوئی اہم بات یا راز معلوم کر کے ملزم تک پہنچا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے ان اہلکاروں میں سے کسی نے سبزی کی ریڑھی لگا لی، کوئی گلی گلی پاپڑ بیچنے لگا تو کسی نے کوئی اور شعبہ اختیار کر لیا، اس ٹیم میں لیڈی پولیس بھی شامل تھی۔

پولیس اہلکاروں نے ملزم کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے ہیومن انٹیلی جنس اور ڈیٹا سے مدد لی۔ یہ ایک پچیدہ کیس تھا، پولیس نے اپنی تحقیقات کے لیے مردم شماری کے ڈیٹا کو استعمال کیا اور اس ڈیٹا کی مدد سے پچیس ایسے بلاک منتخب کیے جو ان مقتول بچوں کی رہائش کے قریب تھے۔ اس طر ح ساٹھ ہزار افراد (قصور کی آبادی) میں سے چھبیس ہزار افراد کو مشکوک افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ یہ 26,000 افراد تقریبا ساڑھے چار ہزار کے قریب مکانات میں رہتے تھے اور ان میں سے 18 سے 40 سال کے درمیان عمر کے مردوں کی تعداد 3500 بنتی ہے۔ پولیس آہستہ آہستہ ساٹھ ہزار افراد کی آبادی میں سے مشکوک افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے کم تعداد تک لارہی تھی تاکہ اصل ملزم کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جا سکے۔

اگلے مرحلے میں پولیس نے ان 3500 افراد میں سے ایسے افراد کو مارک کیا، جن کے بارے میں پولیس کو اس سے قبل بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا تشدد کی رپورٹیں اور ایف آئی آر ملی تھیں۔ پولیس کو بچوں کی لاشوں کے قریب رکشہ کے پہیے کے نشانات بھی ملے تھے، اس لئے ان افراد میں سے بھی ایسے ریکارڈ یافتہ افراد کی نشاندہی کی گئی جو رکشہ ڈرائیور تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مشکوک افراد کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا اور پھر پولیس کی ٹیموں نے اس علاقے میں گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی اور ان کا ڈی این اے کیا گیا۔ پولیس نے ایسے تمام مشکوک افراد کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر کے لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیجوا دیئے۔

17 سو سے زیادہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے تحقیق کے لئے لیبارٹری ارسال کیے گئے، جن میں 41 رکشہ ڈرائیور بھی شامل تھے۔ ملزم سہیل شہزادہ کا 1471 نمبر تھا جس پر ڈی این اے کا نمونہ مکمل طور پر میچ ہوا۔ اسی طرح پولیس کو جائے وقوعہ پر جوتے کا نشان بھی ملا تھا جسے نظر انداز نہیں کیا گیا کیوں کہ اس وقت یہ واحد ''ثبوت'' تھا جو کیس کے دوران ملزم کی نشاندہی میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔ پولیس نے جب ملزم کو گرفتارکیا اس نے اس وقت بھی وہی جوتا پہن رکھا تھا جس کا نشان اس کے مولڈ سے میچ کر گیا۔ ملزم نے پہلے تو صحت جرم سے انکار کیا لیکن جب پولیس نے اس کے سامنے ناقابل تردید شواہد رکھے تو اس کے پاس اقرار جرم کے سوا کوئی اور راستہ نہ بچا۔

آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان اس حوالے سے بھی قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی اور طریقہ تفتیش کی جانب گامزن کیا ہے، جس میں ڈیٹا اور ناقابل تردید شواہد کی مدد سے ملزم تک پہنچا جاتا ہے اور جب ملزم کے سامنے ایسے شواہد رکھے جاتے ہین تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اب اگر وہ انکار کرے تب بھی عدالت میں سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ اس کیس میں بھی آئی جی پنجاب کی ہدایات پولیس کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئیں اور انہی بنیادوں پر تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے ملزم تک رسائی حاصل کی گئی۔

وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب نے اس اہم ترین کیس کو ٹریس کرنے اور مرکزی ملزم کی گرفتاری پر آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان ،ڈی پی او قصور زاہد نواز مروت،ایس پی انویسٹی گیشن قصور مرزا قدوس بیگ اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا بلکہ سینٹ کمیٹی نے زاہد نواز مروت،مرزا قدوس بیگ اور دیگر ٹیم کو تمغہ اور نقد انعام کی سفارش کی ہے۔

اسی طرح اگر شیخوپورہ ریجن پر ایک نظر ڈالی جائے تو ضلع شیخوپورہ کرائم کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ ڈی پی او شیخوپورہ غازی صلاح الدین کی تعیناتی سے قبل کرائم کی شرح بھی عروج پر تھی لیکن جب سے ڈی پی او شیخوپورہ غازی صلاح الدین نے چارج سنبھالا ہے، کرائم کی شرح کم ہو رہی ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شیخوپورہ غازی صلاح الدین کی سربراہی میں ضلعی پولیس نے گزشتہ دو ہفتوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے89 اشتہاریوں سمیت ناجائز اسلحہ و منشیات کے142 ملزمان کو گرفتار کر کے بھاری مقدار میں ناجائز اسلحہ و منشیات برآمد کی۔ ڈاکوؤں کے متعدد متحرک گینگز کو گرفتار کیا گیا جن کی وجہ سے شہر میں واردات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔

اس ضمن میں ڈی پی او شیخوپورہ غازی صلاح الدین نے کہا ہے کہ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کے احکامات کے تحت طے شدہ ایس او پیز کے مطابق ضلع بھر میں سرچ آپریشنز اور چیکنگ کا عمل جاری ہے اور ضلع کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لئے ضلعی پولیس کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں