مولانا کا آزادی مارچ دھرنے سے پڑاؤ تک

حکومت پردباؤ بڑھانے کےلئےمولانا مرکز کا رخ کریں گے غالب امکان ہے کہ مارچ کے شرکا اتوار یا پیر کو ڈی چوک کارخ کرسکتےہیں


عاطف خان November 03, 2019
مولانا ہر حکومت میں مفاہمت کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں فوٹو: پی پی آئی

جمیعت علمائے اسلام کے آزادی مارچ کے اسلام آباد میں پڑاؤ کو آج تیسرا روز ہے۔ گو کہ احتجاجی مقام شہر سے پرے ایک کونے پر واقع ہے لیکن کنٹینروں کی وجہ سے شہر جزوی طور پر بند ہے۔ پیٹرول کی قلت شروع ہو چکی ہے۔ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے سبزی، پھلوں اور دیگر اجناس سونے کے بھاؤ بک رہی ہیں۔

پورے ملک میں ہی ایک غیر یقینی کی سی صورتحال ہے۔ دوسرے شہروں بلکہ بیرون ملک سے بھی احباب فون کر کے خیریت دریافت کررہے ہیں اور ہر کوئی اپنی بصیرت کے مطابق رائے زنی کررہا ہے۔

مارچ کی روانگی سے قبل ہی دارالخلافہ میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ مولانا ایک دن کے لئے نہیں آرہے۔ ان کا لمبا پروگرام ہے۔ اس مارچ کی تیاری وہ اس وقت سے کر رہے ہیں جب گزشتہ عام انتخابات کے بعد اپوزیشن نے ان کے کہنے پر اسمبلیوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ اس بات کی دلیل میں مولانا کی گزشتہ سال 6 ستمبر کی پشاور میں کی گئی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے 2018 کے عام انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جلد ایک ملک گیر مہم کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مولانا تو ہر حکومت میں مفاہمت کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب انہیں عوام کو بھڑکانے کے الزام میں نظربند کیا گیا تو محض چھ مہینے بعد ہی نہ صرف ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لئے گئے بلکہ انتخابات میں وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
مولانا ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ یہ مولانا ہی ہیں کہ پرجوش امریکا مخالف تقاریر کے باوجود امریکی سفیر این پیٹرسن سے 2007 میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکرسکتے ہیں۔ یہ مولانا کا ہی کمال تھا کہ وہ 2008 سے 2018 تک پیپلز پارٹی اور نواز دور میں بھی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے۔ ان کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ کیا سیاستدان اور کیا دوسرے، ان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کے سب ہی معترف ہیں۔

ایک مذہبی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے شاز ہی مخالفت کی سیاست کی ہو۔ آج اگر ان کے لہجے میں سختی ہے تو یقیناً اس کی وجہ ہوگی۔ کیا مولانا کے کندھے پر کسی کی تھپکی ہے یا گزشتہ انتخابات میں ناکامی کے بعد وہ محض اپنی سیاسی بقا کی خاطر میدان میں کودے ہیں۔ وجہ جو بھی رہی ہو مولانا بہرحال ایک بڑی تعداد کے ساتھ دارالخلافہ میں موجود ہیں۔ وہ نا صرف حکومت بلکہ عوام کی توجہ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ مولانا وزیر اعظم کے استعفے پر ڈٹے ہیں جب کہ حکومت استعفی کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کر چکی ہے۔ مولانا یقینا ایچ 9 کے ویرانے میں بیٹھنے کو نہیں آئے، وہ آگے بڑھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت ا ایک طرف تو مولانا کے بیانات کے خلاف عدالت جانے کا کہہ رہی ہے تو دوسری طرف اسلام آباد میں ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے یا پھر نیم فوجی دستے ۔ کشیدگی دیوار پر لکھی ہے۔

حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے مولانا فضل الرحمان مرکز کا رخ کریں گے غالب امکان یہی ہے کہ مارچ کے شرکا اتوار یا پیر کو ڈی چوک کا رخ کرسکتے ہیں۔ پولیس روکے گی اور تصادم ہوگا، تصادم کی صورت میں کسی بڑے نقصان کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن ریاستی مشینری کے خلاف کوئی کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے۔ لوگ آخر منتشر ہو ہی جائیں گے۔ اداروں اور حکومت کے درمیان تاریخی ہم آہنگی دیکھ کر لگتا ہے کہ غیر جمہوری اقدام خارج از امکان ہے۔

کسی ناخوشگوار واقعے پر ایک منتخب جمہوری حکومت پر زیادہ سے زیادہ تنقید ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاں مولانا کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آئے گا۔ آگے چل کر وہ اسے بھلے ہی سیاسی طور پر کیش کر واتے رہیں۔ مگر کل کس نے دیکھی۔ اسلام آباد سے واپس جاکر وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احتجاجی سیاست کا دائرہ کار پورے ملک تک بھی پھیلا لیں پھر بھی یہ معاملہ فوری نوعیت کا نہیں۔ لیکن معاشی عدم استحکام ہے۔

حکومت اگر گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر، دھونس اور طاقت کے بجائے حکمت عملی سے کام لے۔ تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ احتجاج اگر کسی طور جا ری بھی رہا تو حکومت کے لئے مزید نقصان دہ نہ ہوگا۔ لیکن اگر ملک کے معاشی معاملات میں بہتری نہ آئی۔ مہنگائی کنٹرول نہ ہوئی اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو پھر مشکل ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

1

عاطف خان
صاحب تحریر کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور بطور صحافی کئی ملکی و غیر ملکی اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں