عوام کی عید قرباں

زرداری صاحب نے اعلان عید میں کہا کہ ہم نے اپنی حکومت کے 5برسوں میں ن لیگ کے مکمل تعاون کا لطف لیا۔


Abdul Qadir Hassan October 18, 2013
[email protected]

جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو قربانی کی عید کا تیسرا اور آخری دن گزر رہا ہے، ڈاکٹروں کی مہربانی کہ میں نے عید گھر پر اپنے عزیزوں کے ساتھ منائی۔ عید سے دو دن پہلے مجھے دوپہر کو سخت سردی لگی، کپکپی شروع ہو گئی، میں نے اپنے ایڈیٹر لطیف چوہدری سے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کی لیکن انھوں نے میری درخواست سنی ان سنی کر کے مجھے فوراً ہی اسپتال جانے کا مشورہ دیا یا حکم سے ملا جلا مشورہ کہ یہ ڈینگی بخار کے دن ہیں، اس لیے اسپتال میں ہی یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ یہ ڈینگی ہے یا کوئی عام سا بخار۔ انھیں شاید خطرہ تھا کہ اگر ڈینگی نکل آیا تو میرا کالم نگار لمبی اور بہت لمبی چھٹی پر نہ چلا جائے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ انفیکشن ہے جو بخار کا باعث ہے اور اس کے علاج بہت ہیں۔ فکر نہ کریں۔ انھوں نے ایک دن رات میں کئی ٹیکوں اور گولیوں کی مدد سے اس موذی انفیکشن پر قابو پا لیا اور جب میں نے عید پر گھر جانے کے لیے کہا تو بادل نخواستہ اجازت دے دی گئی لیکن ایک علاج کے ساتھ جو دن رات کا تھا چنانچہ میں نے ڈینگی کے ڈر سے علاج میں احتیاط برتی۔

ٹیکے لگانے کے لیے اسپتال سے ہی ایک مسیحی نرس مل گئی جو صبح و شام ڈیوٹی دے رہی ہے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان بھی اپنے عوام کی دیکھ بھال کرتے جو سب کے سب بیمار ہیں اور ایک بڑے اسپتال میں داخل ہیں لیکن تازہ ترین اطلاع یہ ملی ہے کہ سیاست دان عوام کے مقابلے میں سب ملے ہوئے ہیں، جناب محترم زرداری صاحب نے اعلان عید میں کہا ہے کہ ہم نے اپنی حکومت کے پانچ برسوں میں ن لیگ کے مکمل تعاون کا لطف لیا ہے اور اب یہ لطف میاں صاحب کو منتقل کر دیا ہے کہ ان کی ہمت ہے وہ کب تک اس لطف کے مزے اڑاتے ہیں۔ میاں صاحب کی جو خطرناک اپوزیشن تھی وہ ان کی سابقہ اپوزیشن کی طرح اب فرینڈلی اپوزیشن بن گئی ہے علاوہ ازیں قابل ذکر اپوزیشن کوئی ہے نہیں جو ہے وہ یا تو حکومت کے لیے قیمتی مشوروں اور نصیحتوں تک محدود ہے یا دھمکیاں دینے تک ہے، عوام کی تو ان دنوں ان کے آنے والے بجلی کے بلوں کے ڈر سے گھگھی بندھ چکی ہے۔

عید کے دنوں میں مسلسل یہ لطیفہ چلتا رہا کہ قربانی کی کھال واپڈا کو دیں ورنہ یہ آپ کی کھال اتار لے گا۔ بجلی پٹرول ڈیزل وغیرہ پڑوسی ملکوں سے زیادہ مہنگا ہے بلکہ بہت زیادہ۔ ایسا کیوں ہے جب ایک اکائونٹنٹ ماہر معاشیات اور یوں وزیر خزانہ ہو گا تو پھر اور کیا ہو گا۔ پرانی ریاستوں میں ایسے لطیفے ہوا کرتے تھے کہ کسی مجسٹریٹ کو ڈاکٹر بنا دیا گیا اور کسی سلوتری کو ڈنگر اسپتال سے نکال کر کچہری میں بیٹھا دیا گیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ حکمرانی کیا ہوئی جس میں ایسے مزے نہ ہوں کہ سرکار کے ملازمین کٹھ پتلیوں کی طرح ملازمت نہ کریں۔ جو حکمران ایسا نہیں کر پاتے وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے۔ درحقیقت افسر لوگ طاقت ور نہیں ہوتے حکمران کمزور ہوتے ہیں۔ شاید اس فارمولے کے تحت اور عوام کو اپنی حکمرانی کا رعب دینے کے لیے جناب اسحاق ڈار المعروف اسحاق ڈالر کو حساب کتاب کے رجسٹروں سے نکال کر جھنڈے والی کار میں بٹھا دیا ہے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے لیکن پھر اسے بھگتنے کے لیے تیار بھی رہے۔

غلط، خود غرض اور لُٹیری حکومتوں سے تھکے ماندے عوام اپنی اس حکومت اور ان حکمرانوں سے بڑی امیدیں رکھتے تھے اور اس لیے انھیں ریکارڈ ووٹ بھی دیتے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ عوام کی کوئی آرزو تو کیا پوری ہونی تھی ان کو لینے کے دینے پڑ گئے اور سچ عرض کر رہا ہوں میں بجلی کے آنے والے بل سے خوفزدہ ہوں۔ بجلی کے بغیر بھی گزر نہیں اور اب بجلی کے ساتھ بھی گزر نہیں، جائیں تو جائیں کہاں کوئی راستہ سامنے دکھائی نہیں دیتا سوائے حکومتی محلوں کے راستوں کے اور وہ یوں ہے کہ یاروں نے اتنی دور بسائی ہیں بستیاں کہ ان تک رسائی نا ممکن ہے۔ قدم قدم پر چیک پوسٹیں ہیں جیسے کسی کے گھر نہیں کسی جیل میں جا رہے ہیں۔ شکر ہے کہ اس دفعہ ہمارے حکمران اب تک عوام اور صحافیوں سے لاتعلقی پر سختی سے قائم ہیں اور دعا ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں ورنہ ہم ان کے بلاوے پر ان کے ہاں حاضری کیسے دیں گے اور غیر حاضری کی سزا کو کیسے برداشت کریں گے۔ الحمد اللہ کہ آج کی طرح اور خدا نہ کرے کہ آیندہ بھی کسی حکومتی ادارے سے کوئی کام نہ پڑے۔

معلوم نہیں کل کیا ہو گا کہ وقت بڑا بے رحم ہے ورنہ آج تو طالب املی کے اس شعر والی بے نیازی کا مست الست عالم ہے کہ ''میں ارباب کرم اور سخی لوگوں کے سامنے سے اس طرح بے نیازانہ گزر جاتا ہوں جیسے کوئی سیاہ چشم سرمہ فروشوں کے سامنے سے گزر جاتا ہے''۔ ہم آپ سب مسلمان ہیں لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے واضح فیصلوں کو بھی دل سے نہیں مانتے۔ مثلاً رزق اس نے اپنے پاس رکھا ہے بلکہ یہاں تک کہ وہ کسی کو وہاں سے بھی رزق دیتا ہے جہاں سے اسے ذرہ بھر توقع بھی نہیں ہوتی۔ اس سب کا اس نے اپنی آخری کتاب میں اعلان فرما دیا ہے مگر ہم، معافی چاہتا ہوں بھکاریوں کی طرح ارباب دولت و اقتدار کے دروازوں پر جھکے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ خود ان کو دولت اور اقتدار کس نے دیا۔

مجھے لاتعداد ایسے لوگوں کی حقیقت معلوم ہے کہ ان کی اصل اوقات کیا تھی جو اب ان کو یاد نہیں رہی مگر چھوڑیئے ان باتوں کو یہ کسی کے کام کی نہیں ہیں۔ اس وقت تو ڈالر ہم پر حکمران ہے اس کی قیمت کے ساتھ ہماری قیمت وابستہ ہو چکی ہے اس کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے ہمارے کئی لیڈروں کی بیرونی ملک ڈالری دولت میں اتنا اضافہ ہوتا ہے، وہ راتوں رات لاکھوں کروڑوں میں بڑھ جاتی ہے لیکن ہم گھروں میں پڑے پاکستانیوں کی اتنی گھٹ جاتی ہے بلکہ اب تو ہماری 'دولت' میں گھٹنے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ ایک بار سیلاب کے دنوں میں جب لوگ گھروں کا سامان اٹھا کر کسی خشکی کی تلاش میں تھے تو گائوں کا ایک غریب ایک درخت پر آرام کے ساتھ بیٹھا تھا کہ نیچے سے اس کے گائوں کا ایک رئیس گزرا اور اس نے کہا کہ پاگل نیچے اترو اور چلو ہمارے ساتھ اس پر اس غریب مسکین نے کہا چوہدری صاحب آپ لوگوں کو اس حالت میں دیکھ کر آج ہی تو غریبی کا مزا آیا ہے، آپ اس کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بات لمبی ہو رہی ہے مگر سن لیجیے۔

ایک بادشاہ کو افسردگی لاحق ہو گئی، اس کی غمزدگی کو دور کرنے کے لیے دانشوروں اور ارباب حکومت نے کسی صوفی کے مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کو کسی خوش باش شخص کی قمیض پہنائی جائے چنانچہ ایسے شخص کی تلاش شروع ہوئی جو بڑی تگ و دو اور محنت کے بعد ایک کھیت میں ملا جہاں وہ بکریاں چرا رہا تھا۔ تلاش کرنے والوں نے اس کی تفتیش کی تو اسے غم جہاں سے بے نیاز پایا اس پر انھوں نے بڑے پیار سے اس سے اس کی قمیض مانگی لیکن اس نے بڑی معذرت اور شرمندگی کے ساتھ کہا کہ اس کے پاس تو سر ے سے کوئی قمیض ہے ہی نہیں، بس اس دھوتی میں وقت گزر جاتا ہے اور بہت مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیراعظم سے کہا کہ میری انگوٹھی کے نگینے پر کوئی ایسا جملہ لکھوائو جسے دیکھ پڑھ کر میں مطمئن ہو جائوں چنانچہ اس کی انگوٹھی پر لکھا گیا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا تو زندگی کا راز ہی اس جملے میں ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا خواہ یہ وقت کسی ڈار عرف ڈالر کے قبضے میں بھی کیوں نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں