آیندہ انتخابات سے توقعات
انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے دیکھنے میں مصروف ہیں کہ آیندہ انتخابات میں کون سی پارٹی مرکز میں اگلی حکومت بنائے گی۔
انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے ہوا کا رخ دیکھنے میں مصروف ہیں کہ آیندہ انتخابات کے بعد کون سی پارٹی مرکز میں اگلی حکومت بنائے گی۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز انتخابات کے حوالے سے کرائے جانے والے سروے کے نتائج پیش کر رہے ہیں جب کہ نجومی اور ستارہ شناس لوگ بھی حسب معمول قیاس آرائیوں کے میدان میں کود پڑے ہیں جس طرح کہ وہ ہر انتخاب سے قبل کرتے ہیں۔
اس وقت ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی 535 نشستوں پر دائو کھیلے جا رہے ہیں۔ کامیاب امیدواروں پر مشتمل پارلیمنٹ کی آیندہ پانچ سالہ مدت کے لیے حکومت سازی کی جائے گی۔ ایک نکتہ جو تمام تجزیوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایک پارٹی محض اپنے طور کی حکومت نہیں بنا سکے گی بلکہ انھیں اراکین پارلیمنٹ کی جادوئی تعداد یعنی 272 نشستیں حاصل کرنے کے لیے دیگر اتحادیوں کی اشد ضرورت ہو گی۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی موجودہ حکومت بھی اسی طور قائم کی گئی ہے۔ کانگریس کی قیادت میں بننے والی حکومت میں تقریباً 25 چھوٹی بڑی پارٹیوں کی شراکت شامل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس نے 203 نشستیں جیتی تھیں لیکن آیندہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے یقینا اس سے بھی کہیں زیادہ پارٹیوں اور آزاد اراکین کی ضرورت ہو گی اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ 2014ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ منقسم ہو گی اور کہیں زیادہ ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر ترتیب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اب زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں علاقائی بنیادوں پر تشکیل پا رہی ہیں۔
اس طرح ان پارٹیوں میں ان کی علاقائی شناخت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے نیز مذہب اور ذات پات کی شناخت کو بھی ابھارا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں پوری قوم مبتلا ہو رہی ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس واحد جماعت تھی جس کو اکثریت حاصل تھی اور یہ تقریباً پانچ دہائیوں تک اقتدار میں رہی۔ کانگریس کو یہ فائدہ تحریک آزادی کے دوران اس کی جدوجہد کی وجہ سے حاصل ہوا تھا اور کانگریس ان سب عناصر کے لیے ایک مشترک پلیٹ فارم تھا جنہوں نے قومی تحریک میں حصہ لیا تھا لہٰذا کانگریس کو غلط طور پر جدوجہد آزادی کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا۔ آج کانگریس سے علیحدہ ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے گروپ مکمل پارٹیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ سیاست کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور یہ سب جمہوری عمل کا منطقی نتیجہ ہے۔البتہ ایک پارٹی جو کانگریس سے نہیں نکلی وہ ہے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)۔ یہ پارٹی دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کی تخلیق کُھرچن سے یا تِلچھٹ سے ہوئی ہے۔
موجودہ وقت میں کانگریس کے مدمقابل یہ واحد جماعت ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کی آپس میں زیادہ کھلی عداوت اس وجہ سے بھی پروان نہیں چڑھ سکی کیونکہ دونوں پارٹیوں کے اندرونی طور پر بھی بہت سے گروپ بنے ہوئے ہیں جن میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ یہ بات خاصی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ ہندوتوا پر یقین رکھنے والی بی جے پی کا کوئی رکن کانگریس پارٹی میں شامل ہوتے ہی کس طرح یکلخت سیکولر بن جاتا ہے یا سیکولر کانگریس کا کوئی رکن بی جے پی میں شامل ہوکر ہندوتوا کا حامی بن جاتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اپنی اپنی پارٹی کی داخلی بغاوتوں کو آخر عوام کی نظروں سے کب تک چھپا سکتی ہے۔ آنے والے انتخابات دونوں پارٹیوں کے لیے ایک کڑا امتحان ہوں گے کیونکہ جن کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا وہ متوقع مخالفوں میں شامل ہو جائینگے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ریاستی سطح پر انھی رجحانات کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتائج بھی یکسر مختلف نہیں ہوں گے۔ حالیہ عرصے تک اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ 2014ء کے انتخابات میں کانگریس ہی سب سے بڑی پارٹی کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے گی لیکن آج یہ حالت نہیں ہے۔
آج تو زیادہ تر لوگ بی جے پی کی جیت پر شرط لگانے کو تیار ہوں گے۔ ان کے نزدیک کانگریس دوسرے درجے پر رہے گی۔ بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی طرف سے کرائے جانے والے سروے کے حوالے سے ایسی ہی پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔ تاہم اگر انتخابات کے نتیجے میں کانگریس نمبر ایک پارٹی بن کر ابھری تو اسے ایک بہت بڑا ''اپ سیٹ'' خیال کیا جائے گا حالانکہ کانگریس نے اپنی سابقہ حیثیت بڑی حد تک بحال کر لی ہے۔ اس کا سہرا راہول گاندھی کے سر باندھا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے یہی پارٹی سبقت لے جائے کیونکہ مسلمانوں کے ووٹ ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی سے برگشتہ ہو کر واپس کانگریس کی طرف آ رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مظفرنگر کے فسادات میں اس پارٹی نے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اب ریاستی ہوم سیکریٹری نے ایک خط میں ایک اور معاشرتی ناانصافی کا اظہار کیا ہے۔ داخلہ سیکریٹری کے خط میں ریاست کے تمام بڑے افسروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی کے مندر کی تعمیر کے بارے میں صلاح مشورہ کریں۔
اگرچہ اس حرکت پر داخلہ سیکریٹری کو معطل کر دیا گیا ہے مگر اس خط سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی بی جے پی کی طرف سے ملک کے وزیراعظم کے طور پر نامزدگی نے اس جماعت کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے۔ مودی نے شمالی ہندوستان میں ہندوتوا کے فلسفے کے لیے مضبوط جذبات پیدا کر دیے ہیں اور موصوف مذہبی تعصب کے اسی گھوڑے پر سواری کر رہے ہیں لیکن اس عمل میں اس نے نہ صرف ملک کے سیکولرازم کے بنیادی فلسفے کو بہت نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملک کی یکجہتی کو بھی پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ بی جے پی بلکہ بالخصوص آر ایس ایس ملک کی تقسیم در تقسیم کے عمل پر بہت خوش ہیں۔ جس مقصد میں یہ دونوں قبل ازیں کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی پہلی جیسی حیثیت نہیں رہی جب کہ جنوب ہند میں بی جے پی کو جو حمایت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ کانگریس سے آگے نکل گئی ہے۔ اس سے ان دونوں جماعتوں کے اختلافات کو ایک نیا رخ مل گیا ہے جو کہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تلخ اور شدید ہے۔
پارلیمنٹ کے دو سابقہ اجلاسوں میں دونوں جماعتوں کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات کو واضح طور پر دیکھا گیا تھا۔ دونوں کی طرف سے کسی بھی معاملے پر اتفاق رائے سے صاف انکار کے باعث پارلیمنٹ کے دونوں ایوان مکمل انجماد کا شکار ہو گئے تھے۔ اپوزیشن تو قابل فہم ہے کیونکہ جمہوریت میں یہ معمول کی بات ہے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آخر دونوں جماعتوں نے ایسا مؤقف کیوں اختیار کیا جو ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ دونوں جماعتیں ایسا نعرہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو مودی نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کو چھپانے کے لیے استعمال کیا اور کانگریس کے ساتھ افہام تفہیم کے معمولی سے امکان کو بھی سختی سے مسترد کر دیا حالانکہ جمہوریت میں ڈائیلاگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان دونوں پارٹیوں کی انتہا پسندی کے جواب میں ''عام آدمی پارٹی'' (اے اے پی) معرض وجود میں آئی تاہم یہ زیادہ تر صرف دہلی تک ہی محدود ہے۔ اس نے رائے دہندگان کے خیالات کو متاثر کیا ہے۔
عام لوگ کانگریس اور بی جے پی کی ہٹ دھرمی سے کوفت میں مبتلا ہو گئے ہیں جس کے لیے ایک تیسرا محاذ کھلنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔بائیں بازو کی سماج وادی پارٹی' جنتا (یونائیٹڈ) اور اوڑیسہ کی بی جے ڈی کے رہنماوں کی دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اتحاد کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا مگر انتخابات سے قبل ہونے والے اتحاد کو بجا طور پر مسترد کر دیا گیا کیونکہ ریاستوں میں یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ ان کے اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ انتخابات میں وہ کتنے ووٹ لیتی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کے لیے یا ان میں سے کسی ایک کے لیے کانگریس یا بی جے پی کی مدد کی بغیر مرکز میں حکومت بنا لینا ممکن نہیں ہے۔ اس تاریکی میں روشنی کی صرف ایک ہی کرن ہے اور وہ یہ کہ تمام پارٹیاں اتحادیوں کی تلاش میں ہیں اور یہی ایک امید ہے کہ وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے میں کوئی تبدیلی کر سکیں۔ اگر اس بنا پر بی جے پی اپنے ہندوتوا کے فلسفے میں نرمی پیدا کر سکے تو یہ قوم کے لیے ایک اچھا شگون ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اس وقت ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی 535 نشستوں پر دائو کھیلے جا رہے ہیں۔ کامیاب امیدواروں پر مشتمل پارلیمنٹ کی آیندہ پانچ سالہ مدت کے لیے حکومت سازی کی جائے گی۔ ایک نکتہ جو تمام تجزیوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایک پارٹی محض اپنے طور کی حکومت نہیں بنا سکے گی بلکہ انھیں اراکین پارلیمنٹ کی جادوئی تعداد یعنی 272 نشستیں حاصل کرنے کے لیے دیگر اتحادیوں کی اشد ضرورت ہو گی۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی موجودہ حکومت بھی اسی طور قائم کی گئی ہے۔ کانگریس کی قیادت میں بننے والی حکومت میں تقریباً 25 چھوٹی بڑی پارٹیوں کی شراکت شامل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس نے 203 نشستیں جیتی تھیں لیکن آیندہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے یقینا اس سے بھی کہیں زیادہ پارٹیوں اور آزاد اراکین کی ضرورت ہو گی اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ 2014ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ منقسم ہو گی اور کہیں زیادہ ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر ترتیب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اب زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں علاقائی بنیادوں پر تشکیل پا رہی ہیں۔
اس طرح ان پارٹیوں میں ان کی علاقائی شناخت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے نیز مذہب اور ذات پات کی شناخت کو بھی ابھارا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں پوری قوم مبتلا ہو رہی ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس واحد جماعت تھی جس کو اکثریت حاصل تھی اور یہ تقریباً پانچ دہائیوں تک اقتدار میں رہی۔ کانگریس کو یہ فائدہ تحریک آزادی کے دوران اس کی جدوجہد کی وجہ سے حاصل ہوا تھا اور کانگریس ان سب عناصر کے لیے ایک مشترک پلیٹ فارم تھا جنہوں نے قومی تحریک میں حصہ لیا تھا لہٰذا کانگریس کو غلط طور پر جدوجہد آزادی کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا۔ آج کانگریس سے علیحدہ ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے گروپ مکمل پارٹیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ سیاست کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور یہ سب جمہوری عمل کا منطقی نتیجہ ہے۔البتہ ایک پارٹی جو کانگریس سے نہیں نکلی وہ ہے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)۔ یہ پارٹی دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کی تخلیق کُھرچن سے یا تِلچھٹ سے ہوئی ہے۔
موجودہ وقت میں کانگریس کے مدمقابل یہ واحد جماعت ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کی آپس میں زیادہ کھلی عداوت اس وجہ سے بھی پروان نہیں چڑھ سکی کیونکہ دونوں پارٹیوں کے اندرونی طور پر بھی بہت سے گروپ بنے ہوئے ہیں جن میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ یہ بات خاصی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ ہندوتوا پر یقین رکھنے والی بی جے پی کا کوئی رکن کانگریس پارٹی میں شامل ہوتے ہی کس طرح یکلخت سیکولر بن جاتا ہے یا سیکولر کانگریس کا کوئی رکن بی جے پی میں شامل ہوکر ہندوتوا کا حامی بن جاتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اپنی اپنی پارٹی کی داخلی بغاوتوں کو آخر عوام کی نظروں سے کب تک چھپا سکتی ہے۔ آنے والے انتخابات دونوں پارٹیوں کے لیے ایک کڑا امتحان ہوں گے کیونکہ جن کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا وہ متوقع مخالفوں میں شامل ہو جائینگے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ریاستی سطح پر انھی رجحانات کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتائج بھی یکسر مختلف نہیں ہوں گے۔ حالیہ عرصے تک اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ 2014ء کے انتخابات میں کانگریس ہی سب سے بڑی پارٹی کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے گی لیکن آج یہ حالت نہیں ہے۔
آج تو زیادہ تر لوگ بی جے پی کی جیت پر شرط لگانے کو تیار ہوں گے۔ ان کے نزدیک کانگریس دوسرے درجے پر رہے گی۔ بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی طرف سے کرائے جانے والے سروے کے حوالے سے ایسی ہی پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔ تاہم اگر انتخابات کے نتیجے میں کانگریس نمبر ایک پارٹی بن کر ابھری تو اسے ایک بہت بڑا ''اپ سیٹ'' خیال کیا جائے گا حالانکہ کانگریس نے اپنی سابقہ حیثیت بڑی حد تک بحال کر لی ہے۔ اس کا سہرا راہول گاندھی کے سر باندھا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے یہی پارٹی سبقت لے جائے کیونکہ مسلمانوں کے ووٹ ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی سے برگشتہ ہو کر واپس کانگریس کی طرف آ رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مظفرنگر کے فسادات میں اس پارٹی نے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اب ریاستی ہوم سیکریٹری نے ایک خط میں ایک اور معاشرتی ناانصافی کا اظہار کیا ہے۔ داخلہ سیکریٹری کے خط میں ریاست کے تمام بڑے افسروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی کے مندر کی تعمیر کے بارے میں صلاح مشورہ کریں۔
اگرچہ اس حرکت پر داخلہ سیکریٹری کو معطل کر دیا گیا ہے مگر اس خط سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی بی جے پی کی طرف سے ملک کے وزیراعظم کے طور پر نامزدگی نے اس جماعت کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے۔ مودی نے شمالی ہندوستان میں ہندوتوا کے فلسفے کے لیے مضبوط جذبات پیدا کر دیے ہیں اور موصوف مذہبی تعصب کے اسی گھوڑے پر سواری کر رہے ہیں لیکن اس عمل میں اس نے نہ صرف ملک کے سیکولرازم کے بنیادی فلسفے کو بہت نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملک کی یکجہتی کو بھی پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ بی جے پی بلکہ بالخصوص آر ایس ایس ملک کی تقسیم در تقسیم کے عمل پر بہت خوش ہیں۔ جس مقصد میں یہ دونوں قبل ازیں کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی پہلی جیسی حیثیت نہیں رہی جب کہ جنوب ہند میں بی جے پی کو جو حمایت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ کانگریس سے آگے نکل گئی ہے۔ اس سے ان دونوں جماعتوں کے اختلافات کو ایک نیا رخ مل گیا ہے جو کہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تلخ اور شدید ہے۔
پارلیمنٹ کے دو سابقہ اجلاسوں میں دونوں جماعتوں کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات کو واضح طور پر دیکھا گیا تھا۔ دونوں کی طرف سے کسی بھی معاملے پر اتفاق رائے سے صاف انکار کے باعث پارلیمنٹ کے دونوں ایوان مکمل انجماد کا شکار ہو گئے تھے۔ اپوزیشن تو قابل فہم ہے کیونکہ جمہوریت میں یہ معمول کی بات ہے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آخر دونوں جماعتوں نے ایسا مؤقف کیوں اختیار کیا جو ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ دونوں جماعتیں ایسا نعرہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو مودی نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کو چھپانے کے لیے استعمال کیا اور کانگریس کے ساتھ افہام تفہیم کے معمولی سے امکان کو بھی سختی سے مسترد کر دیا حالانکہ جمہوریت میں ڈائیلاگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان دونوں پارٹیوں کی انتہا پسندی کے جواب میں ''عام آدمی پارٹی'' (اے اے پی) معرض وجود میں آئی تاہم یہ زیادہ تر صرف دہلی تک ہی محدود ہے۔ اس نے رائے دہندگان کے خیالات کو متاثر کیا ہے۔
عام لوگ کانگریس اور بی جے پی کی ہٹ دھرمی سے کوفت میں مبتلا ہو گئے ہیں جس کے لیے ایک تیسرا محاذ کھلنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔بائیں بازو کی سماج وادی پارٹی' جنتا (یونائیٹڈ) اور اوڑیسہ کی بی جے ڈی کے رہنماوں کی دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اتحاد کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا مگر انتخابات سے قبل ہونے والے اتحاد کو بجا طور پر مسترد کر دیا گیا کیونکہ ریاستوں میں یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ ان کے اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ انتخابات میں وہ کتنے ووٹ لیتی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کے لیے یا ان میں سے کسی ایک کے لیے کانگریس یا بی جے پی کی مدد کی بغیر مرکز میں حکومت بنا لینا ممکن نہیں ہے۔ اس تاریکی میں روشنی کی صرف ایک ہی کرن ہے اور وہ یہ کہ تمام پارٹیاں اتحادیوں کی تلاش میں ہیں اور یہی ایک امید ہے کہ وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے میں کوئی تبدیلی کر سکیں۔ اگر اس بنا پر بی جے پی اپنے ہندوتوا کے فلسفے میں نرمی پیدا کر سکے تو یہ قوم کے لیے ایک اچھا شگون ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)