تہذیب کا تصادم اور نوبل انعام
ترقی پذیرممالک کی جمہوریت کا کیا کہنا، انصاف نہ ملنا، غربت کا پھولنا پھیلنا اور کرپشن کا جڑ پکڑنا۔
ترقی پذیر ممالک کی جمہوریت کا کیا کہنا، انصاف نہ ملنا، غربت کا پھولنا پھیلنا، کرپشن کا جڑ پکڑنا، آسودگی کو چند لوگوں میں رہنا، علم کا زیوربنا زرداروں کا گہنا، پھر غریب کہاں جائے ظاہر ہے وہ مدرسوں کا رخ کرتا ہے اس طرح ملک میں طبقاتی جنگ کا آغاز ہوگیا، ظاہر ہے آسودہ اور تنگ دست لوگوں کے مابین یہ جنگ بتدریج شروع ہوگئی یہ جنگ اس مرکز سے شروع ہوئی جہاں نہ انڈسٹری ہے نہ روزگار کے مواقعے، نہ زرخیز زمین، صدیوں سے وہ ایک گھٹن کا شکار رہنے والے لوگ ہم اس کو غلط کہیں یا صحیح ان کی اگر صحیح رہنمائی ہوتی تو وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کو ہلاک نہ کرتے مگر ان کو ہر سفید پوش اپنے حلقہ بدوش نہیں بلکہ دشمن نظر آتا دونوں تہذیبوں اور تمدن کے مابین ابہام ہے شکوک ہیں اس لیے معاملات الجھتے چلے گئے۔
اب مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ دو تہذیبوں کے تصادم کی شکل لے چکا ہے نہ یہ بہ زور بندوق حل ہوگا اور نہ گفتگو سے بلکہ تہذیبوں کے تصادم اور معاشی ناہمواری کی خلیج کو پاٹنا ہوگا۔ ابہام اور خلیج کے درمیان پل بنانا ہوگا، ظاہر ہے ظالمانہ اقدام ہی ظالمانہ خیالات پیدا کرتے ہیں، عمل اور ردعمل کی کڑیاں طویل تر ہوتی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیبی خلا نے شہروں کے بسنے والوں اور سنگلاخ پہاڑوں اور دور افتادہ لوگوں کے درمیان دوری کا گرم ریگستان بنادیا گو کہ میں نہیں سمجھتا کہ انسان انسان کو سفاکی سے مارنا چاہتا ہے درحقیقت اپنے اصل دشمن کو پہچاننے میں غلطی کرتا ہے ممکن ہے کہ جس کو ہم دشمن سمجھ رہے ہوں وہ ہماری غلط فہمی ہو ۔گفت باہم سے نفاق کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں اور اعتماد سازی کا عمل تیز ہوتا ہے، عالمی نظریاتی تناظر میں مسلم امہ کو یک جہتی کا عمل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
بالکل ایسے ہی تمام عالم اسلام میں قربانی کا ایک ہی دن مقرر ہے اور تمام لوگ اسی دن قربانی کرتے ہیں اور تین روز تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا چھوٹے چھوٹے فقہی اختلافات اور تشریحات پر چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں تہذیب کا یہ تصادم جس سے ہم گزر رہے ہیں ہماری تعلیمی پالیسی کا نتیجہ ہے کیونکہ اردو اور دیگر مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے نوکری کے دروازے بند ہیں۔ اس لیے مجبوراً والدین بچوں کو اپنی نسل کو خوشحال بنانے کے لیے انگریزی اسکولوں میں ڈالتے ہیں ۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ تہذیبوں کے تصادم کا راستہ ہم خود بنارہے ہیں اور غیر ممالک سے پڑھ کر آنے والے خواہ ان کی علمیت کسی معیار کی نہ ہو وہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، نظام تعلیم کے اس تصادم نے ایک حلقے کو اس نظام تعلیم کا مخالف بنادیا اور وہ ان اسکولوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ طلبہ جو اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور جو مدرسوں میں زیر تعلیم ان کے درمیان کوئی انٹرایکشن (Interaction) ہے اور نہ روابط اور دونوں اساتذہ کے مابین بھی بڑی خلیج ہے۔
تعلیم کے دہرے اور تہرے معیار نے 50 برسوں میں کیا کیا اثرات مرتب کیے اب پختون علاقوں میں انگریز کے بنائے ہوئے پولیٹیکل ایجنٹ بے دست و پاہوچکے ہیں ان کی جگہ ایک دوسرے نظام نے لے لی ہے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور بعض معاملات کو سلجھانے کی بھی ضرورت ہے اس راستے کی تاریخی حیثیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر دنیا کے معروضی حالات اب کیا ہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جنگ میں شامل تمام پارٹیوں کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ تہذیب کے اسی تصادم اور نظریات نے شمال اور جنوب کے فاصلے نے ملالہ پر حملے کے لیے اکسایا بالآخر ملالہ کے سر کو چھیلتی ہوئی گولی پار ہوگئی ۔
سوات سے ملالہ کو سی ایم ایچ (CMH) منتقل کیا گیا اور قسمت کی کرنی یہ کہ وہ ملکہ برطانیہ کے اسپتال سے صحت یاب ہوکر عالمی فورم پر نمودار ہوئی ملالہ کی اس ترقی اور برق رفتاری کے فیصلے ان کے والد کے زیر اثر تھے اور بعد ازاں ملالہ کو بین الاقوامی فورم سے مغربی سیاست دانوں اور دانشوروں نے اس کی آرا کو روغن بخشا یہاں تک کہ جب ملالہ نے سخاروف انعام جیت لیا تو پھر یہ بات سامنے آئی کہ ملالہ کو نوبل انعام کے لیے آگے بڑھایا جائے اور ملالہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اقوام متحدہ نے اس کا یوم پیدائش بڑے زور و شور سے منایا پھر جب ملالہ نوبل انعام کے لیے نامزد ہوئیں تو پاکستانی میڈیا نے مزید امیدیں بندھوائیں۔اگر آپ کو یاد ہو تو گوربا چوف کو بھی نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ میخائل گوربا چوف نے اپنی تمام مسلم ریاستیں بغیر گولی چلائے آزاد کردی تھیں مگر ان کو یہ انعام نہ مل سکا مگر اس وقت جو انعام دیا گیا وہ ایک تنظیم کو دیا گیا (OPCN) جب کہ نوبل انعام فرد کو دیا جاتا ہے مگر اس تنظیم کا بول بالا کرنے کے لیے یہ انعام اس لیے دیا گیا ہے کہ ابھی اس تنظیم سے مزید دوسرے ملکوں میں کام لینا ہے ۔
پاکستان اس وقت ایک سیاسی سہ راہے سے گزر رہا ہے اس لیے نوبل پرائز ملنے سے قبل ملالہ کا بین الاقوامی امیج بنایا گیا جوکہ کئی پہلوؤں سے جائز بھی تھا اور بین الاقوامی طور پر اس کا تعارف بھی ہوگیا لہٰذا ملالہ کا یہ بیان جو اس نے نوبل انعام کے فیصلے سے قبل ہی دے دیا تھا وہ قابل غور ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لے گی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یقینا چند برسوں سے پاکستان میں انقلاب کے نعرے لگائے جارہے ہیں عوام کرپشن اور مہنگائی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں وہ کسی بھی تبدیلی کا استقبال کرنے کو تیار ہیں۔ رہ گیا جمہوریت تو اس ڈھول کا بھی پول کچھ طاہر القادری نے کھول دیا تھا باقی ماندہ الیکشن کے نتائج نے سو اس کا بھی اعتبار عوام سے جاتا رہا ۔لہٰذا یہ بروقت نعرہ ملالہ نے جو لگایا عوام امید لگانے لگے ہیں کہ ملالہ دنیا کی کم عمر ترین وزیر اعظم ہوگی بختاور بھٹو نے اس کے نعرے پر صاد کردی ہے۔ اب انگریز کی تربیت گاہ سے کم ازکم موروثی سیاست کا خاتمہ ہوسکے گا مگر سیاست میں اس کی آمد سے پاکستان میں تہذیب کا یہ تصادم تیز تر ہوسکتا ہے۔
دراصل طالبان کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب پاکستان نے 9/11 کے بعد سیاست میں یو ٹرن لیا مگر طالبان نے یو ٹرن سے گریز کیا ورنہ حکومت کی پالیسی طالبان نواز تھی۔ خارجہ پالیسی کا یہ متصادم عمل پاکستانی عوام کے لیے مقتل بن گیا انقلابات زمانہ میں تشدد کا راستہ نیا نہیں مگر بے گناہ عوام کو اس کی زد پر نہیں لایا جاتا اور یہ تشدد عوام کو سہولیات پہنچانے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ معصوم لوگوں کو لباس، زبان، نسل، مذہب کی بنیاد پر اور انقلاب کی کامیابی کی یہی راہ ہے جس میں عوام کا تعاون حاصل ہوتا ہے کامریڈ ماوزے تنگ کا قول ہے بندوق کی نالی اقتدار کا سرچشمہ ہے، اسی فارمولے پر لاطینی امریکا انقلاب، ویتنام کا انقلاب اور نئے انقلابات جنم لیتے رہے ہیں مگر انقلابی رہنماؤں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون ان کا دوست ہے اور کون دشمن اور وہ کون لوگ ہیں جو چڑھتے سورج کے پجاری ہرکس و ناکس پر حملہ خود اپنے دشمنوں میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ اگر یہی صورت حال طوالت پکڑتی ہے تو حکمراں بھی امپورٹ ہوں گے۔