جینے کا جرم
ہاسٹل میں ایک لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے دہلی سے نکلنے والے ماہنامہ شمع کے ایڈیٹر کے نام خط لکھا تھا۔
ہاسٹل میں ایک واقعہ ہوا۔ وارڈن نے تمام لڑکیوں کو ہال میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ ایک لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے دہلی سے نکلنے والے ماہنامہ شمع کے ایڈیٹر کے نام خط لکھا تھا۔ سب کے سامنے اسے برا بھلا کہا گیا۔ اس رات اس لڑکی نے سیاہی پی کر خودکشی کرنا چاہی۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ایڈیٹر کے نام خط لکھا تھا۔ یہ اقتباس سینئر صحافی ش فرخ کی خود نوشت جینے کا جرم سے ماخوذ ہے۔ ش فرخ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ 40 کی دھائی میں پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک استاد تھے۔ والد کی حوصلہ افزائی سے والدہ بھی استانی بن گئیں۔ ش فرخ لکھتی ہیں کہ شادی کے وقت امی کی تعلیم پرائمری تک تھی، اباجی نے انھیں مزید پڑھنے کے لیے فیروز پور کے ایک ہاسٹل میں بھیج دیا۔ امی نے ٹیچرز ٹریننگ حاصل کی اور وہ اسکول ٹیچر ہوگئیں۔ ش فرخ لکھتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی سوالات کرتی تھیں۔ اس عادت نے انھیں صحافی بنادیا۔ فرخ کو کچی پہلی جماعت میں داخل کروانے کے بجائے پانچ جماعتوں تک ڈبل پروموشن دلوا کر چھٹی جماعت میں داخل کروادیا گیا۔
قصبے کا صرف ایک ہی پرائمری اسکول تھا۔ پوری کلاس میں خاکی نیکروں والے لڑکے اور میں اکیلی لڑکی، لیکن علامہ صاحب کی بیٹی تھی اس لیے سب بہت خیال رکھتے تھے۔ ش فرخ نے اپنے بچپن کی یادوں میں پاکستان کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے کہ ہمارے قصبے میں زیادہ تر ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی تھی۔ وہ ایک دم سے کہیں چلے گئے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ سامنے کی سڑکوں پر لوگوں کا تانتابندھا رہتا تھا۔ بہت سے لوگ کبھی مغرب کی جانب جاتے تھے تو کبھی مشرق کی طرف۔ یہ قافلے مشرق کی طرف دریائے ستلج کے اس پار فاصلکا تھا جو ہندوستان کا شہر بن گیا تھا۔ دریا پار کر کے مغرب کی طرف آنے والے مسلمان تھے جو پاکستان آرہے تھے ۔ ش لکھتی ہیں کہ جب میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ میرا داخلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لڑکیوں کی عمر میٹرک کا امتحان دینے کے لیے کم از کم15 سال ہونی چاہیے جب کہ میری عمر کم تھی۔ پھر ابا جانی نے گاؤں سے دو ڈھائی میل کا فاصلہ ٹانگے سے طے کیا تھا اور وساوالا ریلوے اسٹیشن کے تار گھر سے گورنر جنرل کو تار دیا کہ یہ قانون ختم کیا جائے۔
وہ قانون شاید بعد میں ختم کردیا گیا۔ مجھے بہرحال میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ پھر انھیں گھر کی الماری میں ایک کتاب ملی جو سعیدہ عروج کا ناول نئی صبح تھا۔ وہ میری زندگی کا پہلا ناول تھا۔ میں نے چھپ چھپ کر پڑھا۔ کہانی کا چسکا لگا تو کہانیاں ڈھونڈنے لگی۔ اباجی کے پاس قدیم شعراء کے دیوان تھے۔ انھیں پڑھنا میرے بس میں نہیں تھا۔ چھوٹے بھائی عتیق کو ورغلایا کہ وہ لائبریری سے کتابیں لادیا کرے۔ ش فرخ نے اپنے بچپن میں گاؤں کے لبرل ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار خالو نے کہا کہ کل ہمارے ہاں آنا، اس کے ساتھ پلٹ کر امی سے مخاطب ہوئے کہ برقعہ پہن کر آنا ہو تو آنے کی ضرورت نہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ گاؤں میں برقعے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ش فرخ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج کے ہوسٹل میں خاصا وقت گزارا۔
ش فرخ دور حاضر میں نوجوانوں کے ذہنی افلاس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے کچھ ادیب آئے تھے۔ ضمیر نیازی کے ہاں ان کے ساتھ ایک نشست تھی۔ انھوں نے نوجوانوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم سب خاموش تھے کیونکہ ہمارے پاس وہ نوجوان نہیں تھے جو آئیڈیالوجی کی بات کرتے تھے۔ ش نے جغرافیہ میں ایم اے کیا، پھر منٹگمری کالج میں ملازمت کرلی۔ مارچ 1961 میں کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کراچی پر اتر کر اپنا اٹیچی کیس قلی کے سپرد کیا۔ کہاں جانا ہے بی بی جی؟ رکشہ والے نے کہا۔ ناظم آباد۔ کراچی میں ش فرخ کو اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی۔ پھر ملازمت کے چار ماہ بعد کامرس کالج کا وائس پرنسپل بنادیا گیا۔ ش فرخ اپنی شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اردو اخبار میں پورے صفحے پر بہت سے تصویروں کے ساتھ میرا انٹرویو شایع ہوا۔ شام کو ''م'' سے ملاقات ہوئی، خوشی خوشی اخبار دکھایا۔ اس کا رنگ بدل گیا۔ اگر یہ اخبار میرے گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ رشتے سے انکار کردیں گے۔ پھر بینک سے ایک ہزار روپے قرض لیے، اپنے لیے سونے کا ایک سیٹ بنایا۔ کالج سے 3 ماہ کی رخصت لی۔ پھر پی ای سی ایچ ایس میں ایک کرائے کا مکان تھا۔ شادی کے بعد مجازی خدا نے کالج جانے کی اجازت نہیں دی۔ بمشکل یہ مہلت ملی کہ ایک بار کالج جا کر استعفیٰ دے دوں۔ پرنسپل نے کہا کہ آپ کی شادی کی خبر سن کر کالج کے مالک نے آپ کی ملازمت ٹرمینیٹ کردی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ڈیفنس میں ایک مکان لیا۔ پڑوس کی ایک خاتون ملنے آئیں، پوچھا بچے کہاں ہیں؟ جی میرے بچے نہیں ہیں۔لیکن وہ جب یہ مکان دیکھنے آئے تو بچے ساتھ تھے۔ پھر ایک روز حکم ملا کہ امی کے پاس چلی جائے، یوں شادی کا باب اختتام کو پہنچ گیا۔
ش فرخ صحافت میں آنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اخبار خواتین میں سرفراز رفیقی پر میرا مضمون شایع ہوا۔ ایک روز وہاں گئی، حسن عابدی ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے مجھے کچھ لکھنے کو دیا، مضمون چھپ گیا، معاوضہ 20 روپے نقد ملا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایک خاتون طاہرہ حسین نے کراچی پریس کلب کے جوائنٹ سیکریٹری کا انتخاب لڑا۔ ش نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ یہ اخباری دنیا سے پہلا تعارف تھا۔ اخبار خواتین میں ملازمت ملی۔ اخبار خواتین کے ایڈیٹر نصیر انور کا کہنا تھا کہ ویج بورڈ آیا تو صحافیوں کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ ش نے 1971 کی جنگ کے دوران کراچی میں رپورٹنگ کی۔ وہ لکھتی ہیں کہ جنگ نے شہر کو سنسان کردیا تھا۔ کراچی نسبتاً محفوظ شہر تھا۔ آئل ریفائنری حملہ آوروں کے بم سے بھڑک اٹھی تھی۔ اس کا دھواں کئی روز تک اٹھتا رہا۔ اس رپورٹنگ کے دوران افتخار عارف، عبیداﷲ بیگ، قریش پور سے تعارف ہوا۔ یوں کسوٹی کے پروگرام میں جانا ہوا۔
وہ پروین شاکر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ پروین کی عادت تھی کہ وہ مجھ سے برسوں نہ ملیں مگر جب کوئی نئی کتاب آتی تو وہ گھر آکر دے جاتی تھی۔ اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کی بین الاقوامی کانفرنس ہورہی تھی۔ میں ہال سے باہر آئی، پروین سامنے کھڑی تھی۔ وہ مجھے میرے ہوٹل چھوڑ گئی۔ اس نے پوچھا شام کو کیا کرنا ہے؟ کشور کے ہاں جاؤں گی۔ میں رات بارہ بجے ہوٹل لوٹی تو محمد علی صدیقی نے بتایا کہ پروین آپ کے لیے ایک کتاب چھوڑ گئی ہیں۔ وہ ماہ تمام تھی۔ اس سے وہ میری آخری ملاقات تھی۔ مجھے تو اسے فون کر کے کہنا تھا کہ کتاب کا نام غلط ہے۔ تم نے ایسا مایوس کن نام کیوں رکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو سے ایک تقریب میں ہوٹل میٹروپول میں ملاقات ہوئی۔وہ سابقہ روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر بن گئیں۔ پھر ایک دن کراچی میں ان کی قیام گاہ پر ایک نامعلوم شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ ش حملے میں بال بال بچ گئیں۔ ش تنہا زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں رواداری اور عیب چھپانے کی روایت کو برقرار رکھا۔
قصبے کا صرف ایک ہی پرائمری اسکول تھا۔ پوری کلاس میں خاکی نیکروں والے لڑکے اور میں اکیلی لڑکی، لیکن علامہ صاحب کی بیٹی تھی اس لیے سب بہت خیال رکھتے تھے۔ ش فرخ نے اپنے بچپن کی یادوں میں پاکستان کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے کہ ہمارے قصبے میں زیادہ تر ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی تھی۔ وہ ایک دم سے کہیں چلے گئے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ سامنے کی سڑکوں پر لوگوں کا تانتابندھا رہتا تھا۔ بہت سے لوگ کبھی مغرب کی جانب جاتے تھے تو کبھی مشرق کی طرف۔ یہ قافلے مشرق کی طرف دریائے ستلج کے اس پار فاصلکا تھا جو ہندوستان کا شہر بن گیا تھا۔ دریا پار کر کے مغرب کی طرف آنے والے مسلمان تھے جو پاکستان آرہے تھے ۔ ش لکھتی ہیں کہ جب میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ میرا داخلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لڑکیوں کی عمر میٹرک کا امتحان دینے کے لیے کم از کم15 سال ہونی چاہیے جب کہ میری عمر کم تھی۔ پھر ابا جانی نے گاؤں سے دو ڈھائی میل کا فاصلہ ٹانگے سے طے کیا تھا اور وساوالا ریلوے اسٹیشن کے تار گھر سے گورنر جنرل کو تار دیا کہ یہ قانون ختم کیا جائے۔
وہ قانون شاید بعد میں ختم کردیا گیا۔ مجھے بہرحال میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ پھر انھیں گھر کی الماری میں ایک کتاب ملی جو سعیدہ عروج کا ناول نئی صبح تھا۔ وہ میری زندگی کا پہلا ناول تھا۔ میں نے چھپ چھپ کر پڑھا۔ کہانی کا چسکا لگا تو کہانیاں ڈھونڈنے لگی۔ اباجی کے پاس قدیم شعراء کے دیوان تھے۔ انھیں پڑھنا میرے بس میں نہیں تھا۔ چھوٹے بھائی عتیق کو ورغلایا کہ وہ لائبریری سے کتابیں لادیا کرے۔ ش فرخ نے اپنے بچپن میں گاؤں کے لبرل ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار خالو نے کہا کہ کل ہمارے ہاں آنا، اس کے ساتھ پلٹ کر امی سے مخاطب ہوئے کہ برقعہ پہن کر آنا ہو تو آنے کی ضرورت نہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ گاؤں میں برقعے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ش فرخ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج کے ہوسٹل میں خاصا وقت گزارا۔
ش فرخ دور حاضر میں نوجوانوں کے ذہنی افلاس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے کچھ ادیب آئے تھے۔ ضمیر نیازی کے ہاں ان کے ساتھ ایک نشست تھی۔ انھوں نے نوجوانوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم سب خاموش تھے کیونکہ ہمارے پاس وہ نوجوان نہیں تھے جو آئیڈیالوجی کی بات کرتے تھے۔ ش نے جغرافیہ میں ایم اے کیا، پھر منٹگمری کالج میں ملازمت کرلی۔ مارچ 1961 میں کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کراچی پر اتر کر اپنا اٹیچی کیس قلی کے سپرد کیا۔ کہاں جانا ہے بی بی جی؟ رکشہ والے نے کہا۔ ناظم آباد۔ کراچی میں ش فرخ کو اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی۔ پھر ملازمت کے چار ماہ بعد کامرس کالج کا وائس پرنسپل بنادیا گیا۔ ش فرخ اپنی شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اردو اخبار میں پورے صفحے پر بہت سے تصویروں کے ساتھ میرا انٹرویو شایع ہوا۔ شام کو ''م'' سے ملاقات ہوئی، خوشی خوشی اخبار دکھایا۔ اس کا رنگ بدل گیا۔ اگر یہ اخبار میرے گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ رشتے سے انکار کردیں گے۔ پھر بینک سے ایک ہزار روپے قرض لیے، اپنے لیے سونے کا ایک سیٹ بنایا۔ کالج سے 3 ماہ کی رخصت لی۔ پھر پی ای سی ایچ ایس میں ایک کرائے کا مکان تھا۔ شادی کے بعد مجازی خدا نے کالج جانے کی اجازت نہیں دی۔ بمشکل یہ مہلت ملی کہ ایک بار کالج جا کر استعفیٰ دے دوں۔ پرنسپل نے کہا کہ آپ کی شادی کی خبر سن کر کالج کے مالک نے آپ کی ملازمت ٹرمینیٹ کردی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ڈیفنس میں ایک مکان لیا۔ پڑوس کی ایک خاتون ملنے آئیں، پوچھا بچے کہاں ہیں؟ جی میرے بچے نہیں ہیں۔لیکن وہ جب یہ مکان دیکھنے آئے تو بچے ساتھ تھے۔ پھر ایک روز حکم ملا کہ امی کے پاس چلی جائے، یوں شادی کا باب اختتام کو پہنچ گیا۔
ش فرخ صحافت میں آنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اخبار خواتین میں سرفراز رفیقی پر میرا مضمون شایع ہوا۔ ایک روز وہاں گئی، حسن عابدی ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے مجھے کچھ لکھنے کو دیا، مضمون چھپ گیا، معاوضہ 20 روپے نقد ملا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایک خاتون طاہرہ حسین نے کراچی پریس کلب کے جوائنٹ سیکریٹری کا انتخاب لڑا۔ ش نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ یہ اخباری دنیا سے پہلا تعارف تھا۔ اخبار خواتین میں ملازمت ملی۔ اخبار خواتین کے ایڈیٹر نصیر انور کا کہنا تھا کہ ویج بورڈ آیا تو صحافیوں کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ ش نے 1971 کی جنگ کے دوران کراچی میں رپورٹنگ کی۔ وہ لکھتی ہیں کہ جنگ نے شہر کو سنسان کردیا تھا۔ کراچی نسبتاً محفوظ شہر تھا۔ آئل ریفائنری حملہ آوروں کے بم سے بھڑک اٹھی تھی۔ اس کا دھواں کئی روز تک اٹھتا رہا۔ اس رپورٹنگ کے دوران افتخار عارف، عبیداﷲ بیگ، قریش پور سے تعارف ہوا۔ یوں کسوٹی کے پروگرام میں جانا ہوا۔
وہ پروین شاکر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ پروین کی عادت تھی کہ وہ مجھ سے برسوں نہ ملیں مگر جب کوئی نئی کتاب آتی تو وہ گھر آکر دے جاتی تھی۔ اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کی بین الاقوامی کانفرنس ہورہی تھی۔ میں ہال سے باہر آئی، پروین سامنے کھڑی تھی۔ وہ مجھے میرے ہوٹل چھوڑ گئی۔ اس نے پوچھا شام کو کیا کرنا ہے؟ کشور کے ہاں جاؤں گی۔ میں رات بارہ بجے ہوٹل لوٹی تو محمد علی صدیقی نے بتایا کہ پروین آپ کے لیے ایک کتاب چھوڑ گئی ہیں۔ وہ ماہ تمام تھی۔ اس سے وہ میری آخری ملاقات تھی۔ مجھے تو اسے فون کر کے کہنا تھا کہ کتاب کا نام غلط ہے۔ تم نے ایسا مایوس کن نام کیوں رکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو سے ایک تقریب میں ہوٹل میٹروپول میں ملاقات ہوئی۔وہ سابقہ روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر بن گئیں۔ پھر ایک دن کراچی میں ان کی قیام گاہ پر ایک نامعلوم شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ ش حملے میں بال بال بچ گئیں۔ ش تنہا زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں رواداری اور عیب چھپانے کی روایت کو برقرار رکھا۔