آس لگائے بیٹھے ہیں …
صبح صبح کشتی میں شور اٹھا کہ میں لٹ گیا، لوگوں نے کہا خیر تو ہے؟ کیا بات ہوئی؟ مگر وہ آدمی چلائے جارہاتھا۔
صبح صبح کشتی میں شور اٹھا کہ میں لٹ گیا، لوگوں نے کہا خیر تو ہے؟ کیا بات ہوئی؟ مگر وہ آدمی چلائے جارہاتھا ایک ہی رٹ لگی تھی کہ میں لٹ گیا،کشتی میں بڑے عالم فاضل اﷲ کے بندے بھی بیٹھے تھے، شور کی آوازیں انھوں نے بھی سنیں، رونے پیٹنے والے کو سمجھا سمجھا کر جب بات پوچھی گئی تو اس نے کہا غریب مسافر ہوں ایک تھیلی میں زندگی بھر کا سرمایہ میں نے چھپا رکھا تھا کسی ظالم نے وہ تھیلی چرالی، سب کو یہ سن کر افسوس ہوا کچھ لوگوں نے پوچھا کہ کتنا مال تھا تھیلی میں، اس نے بتایاکہ ہزار اشرفیاں تھیں، یہ بہت بڑی رقم تھی کچھ لوگوں نے کشتی کے مالک کو بلایا اور سارا ماجرا اسے کہہ سنایا۔ اس نے کہا اگر تھیلی کشتی میں ہے تو پتہ چل جائے گا۔ کڑی نگرانی میں سب کی تلاشی ہوئی مگر کشتی میں موجود کسی بھی شخص کے پاس سے تھیلی برآمد نہ ہوئیں اب لوگ اس شخص کو برا بھلا بولنے لگے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور اس کی وجہ سے ہم سب کو پریشانی ہوئی، جھوٹے پر اﷲ کی لعنت ہوتی ہے۔
اصل میں ہوا یہ تھا کہ جب سفر شروع ہوا تھا یہ جھوٹا شخص پھرتا پھراتا کشتی میں گشت کرتااس فاضل اﷲ کے بندے کے پاس بھی پہنچا تھا اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے اس کو معلوم ہوگیا تھا ان اﷲ کے بندے کے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں، اب اس فریبی کو ہر لمحہ یہ فکر تھی کہ کسی طرح ان کی تھیلی اڑالے۔ جب کوئی تدبیر نہ بن پائی تو اس جھوٹے نے یہ کھیل کھیلا جب سفر ختم ہوا اور کشتی کنارے میں لگی تو جھوٹے نے علیحدہ میں اﷲ کے اس نیک بندے سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ آپ کے پاس ہزار اشرفیاں ہیں، انھوںنے بولا میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا میرے پاس واقعی ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ اس نے پوچھا تو پھر وہ تھیلی کہاں گئی؟ انھوں نے بولا تو نے اپنی تھیلی گم ہونے کا ڈھونگ رچایا تو میں سمجھ گیا کہ تو نے میری تھیلی ہتھیانے کے لیے یہ حربہ چلایا ہے اگر تھیلی میرے پاس سے نکلتی تو لوگوں کو یقین ہوجاتا کہ میں چور ہوں، اس لیے میں نے چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دی۔ اس نے کہا تب تو آپ کو بہت نقصان ہوا۔ جواب ملا نیکی کا بدلہ برائی سے دینے والے ظالم دوست! میرے نزدیک اہمیت دولت کی نہیں لوگوں کی ہے اس اعتماد کی ہے جو حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لیے مجھے برقرار رکھنا ضروری ہے اگر میں خائن مشہور ہوجاتا تو میری بیان کردہ حدیثوں پر کون اعتماد کرے گا۔ اب آپ بھی سن لیں کہ یہ بزرگ کون تھے؟ یہ امام بخاری رحمۃ اﷲ تھے جن کی بخاری شریف دنیا بھر میں مشہور اور مستند مانی جاتی ہے۔
حقیقت ہے جو شخص نیک اور سچا ہوتاہے اس کو اپنے کہے ہوئے لفظوں کا زیادہ پاس ہوتاہے جو بولتے ہیں وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔ دولت سے زیادہ عزت زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ دولت ایسے لوگوں کے لیے کوئی اہمیت و حیثیت نہیں رکھتی ہے، ایسے نیک لوگ بس چاہتے ہیں کہ ان کی شخصیت پر کوئی داغ نہ آئے۔ آہ کہاں گئے ایسے نیک لوگ جو بولتے تھے وہ کرتے تھے، صرف انسانوں کی بھلائی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے، انسانی خدمت ان کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ ہمارے معاشرے کو دوبارہ ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں بالکل ایسے سچے، کھرے حکمران کی ضرورت ہے جو بولے وہ کرے بھی ایسے حکمران جن کو اپنے مفادات سے زیادہ اپنے کہے ہوئے لفظوں کا پاس ہو جو بولے وہ کرکے بھی دکھائے اگر ہر حکمران اور سیاسی رہنما کو اپنے انتخابات سے پہلے کی تقریریں سنائی جائیں تو شاید ان کو پھر بھی احساس نہ ہوگا کہ ان کے قول اور فعل میں کس قدر تضاد ہے۔ انھوںنے اقتدار میں آنے سے پہلے کس قدر عوام کو امیدیں دلائی تھی اور اب ایک ایک امید دم توڑنے لگی ہے۔
یہ دور پاکستان کے لیے انتہائی مشکل دور ہے ہر ایک کو بس پیسہ بنانے اور بس اپنے اپنے مفادات کی پڑی ہوئی ہے جو طاقت ور اور امیر ہے اس کو بس جینے کا حق ہے، غریب اور کمزور کو کوئی جینے کا حق نہیں، ہمارے ملک میں سرکاری افسروں کے تو مزے ہی مزے ہوتے ہیں مگر دوسرے ممالک میں ایسا بالکل کوئی تصور نہیں، سرکاری افسروں کو عوام کا خدمت گار ہی سمجھا جاتاہے۔ چین میں ایک چینی سرکاری افسر نے اپنے بیٹے کی شادی پر 2لاکھ 60ہزار ڈالر خرچ کردیے تو اس چینی افسر کو برطرف کردیاگیا کہ دولت کی زیادہ نمائش سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگی اور غریبوں کی دل آزاری ہوگی۔ کاش کہ ہماری حکومت بھی ہمارے ملک میں ایسا نظام قائم کرے جس سے غریب بھی سر اٹھاکر جی سکے۔
افسوس ہماری حکومت نے تو عوام کو اتنی مہنگائی کا تحفہ دیا ہے کہ غریب سر اٹھاکر کیاجیے گا غریب اور غریب ہوچکا ہے جہاں عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے وہاں ہی دہشت گردی کا بھی مقابلہ کررہے ہیں، آج ملک کے چاروں صوبوں میں یکے بعد دیگرے بم دھماکے ہوئے کئی انسانی جانیں اپنی زندگی کی بازی ہارچکی ہیں۔ عوام کرے تو کیا کرے جائے تو کہاں جائے مہنگائی اور دھماکوں سے کب تک پاکستانی مرتے رہیں گے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں یہ بم دھماکے ہمارے ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں، دہشت گرد بم دھماکے کرکے یہ بتارہے ہیں کہ وہ کس قدر طاقت ور ہیں اور ہماری حکومت اور ہمارے سرکاری ادارے ان دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے کس قدر کمزور ہیں، صرف ملک میں یہی مسئلے نہیں ہیں ہمارا ملک اس وقت بے شمار مسائل کا شکار اور اس کی لپیٹ میں ہم جیسے پاکستانی عوام ہیں۔
ملک کو درپیش توانائی کے سنگین بحران، اس سے پیدا شدہ لوڈ شیڈنگ، صنعتی یونٹوں کی پیداواری صلاحیت و استعداد میں کمی اور پینے کے لیے پانی کی آیندہ دہائیوں میں شدید قلت کے خدشات ہیں۔ ملک کو صنعتی تعطیل اور بیروزگاری و مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے جن کے حل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی نہ صرف ضروری ہے بلکہ ارباب اختیار اس بات کو یقینی بنائیں کہ پانی، بجلی اور توانائی کی ہمہ جہتی مخدوش صورت حال کی بہتری پر توجہ مرکوز کی جائے، توانائی کا مسئلہ حل ہوجائے تو معیشت بھی بے دم ہونے سے بچ سکتی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کا مطلب ہی اشیائے خور و نوش کی ہر چیز کے دام کا از خود بڑھ جانا ہے، اسی سے افراط زر، مہنگائی، نوٹ چھاپنے کی مجبوری، علاوہ ازیں چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور عوام کی قوت خرید کا جنازہ نکالنے کے تمام تر اسباب منسلک ہیں۔
جہاں پاکستانی عوام بڑے بڑے مسائل کا شکار ہیں وہاں ہی پاکستانی عوام ناقص ٹرانسپورٹ کی وجہ سے بھی اذیت کا شکار ہیں، پاکستانی شہریوں کو نظم و ضبط کے ساتھ ایک بہترین ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے جو سیکیورٹی کے اعتبار سے بھی محفوظ،کراچی بھر میں چلنے والے چنگ چی رکشہ پر مکمل طورپر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اگر چنگ چی رکشے حکومت بند کررہی ہے تو فوری طورپر مسافروں کی سہولت کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا حکومت کا کام ہے جہاں چنگ چی رکشے سے مسافروں کو سہولت بھی وہاں کئی بے روزگار افراد کو اس کے ذریعے روزگاری بھی مل رہی تھی۔ اب کئی لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور مسافروں کو الگ پریشانی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے شہروں میں بسیں اتنی نہیں کہ مسافروں کو سہولت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ وقت پر پہنچادیں بس اسٹینڈ پر کھڑے کھڑے مسافر پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کئی مسافروں کو دیر تک بسوں کا انتظار کرنا پڑتاہے کیونکہ بسیں بے حد کم ہیں۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی وہ ٹرانسپورٹ پر خصوصی توجہ دیں بسوں کی تعداد میں اضافہ کرے ایک زبردست قسم کا ٹرانسپورٹ نظام پورے ملک میں رائج کرے۔ ہم پاکستانی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن ضرور تقدیر بدل جائے گی ہماری۔ کیا واقعی ایسا ممکن ہے یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا وعدے جو کیے عوام سے وہ پورے ہوںگے کہ نہیں تقدیر بدلے گی یا نہیں؟