کراچی سے مردانی تک
گزشتہ دنوں کراچی سے ضلع اوکاڑہ اور پھر اس کے گاؤں مردانی جانے کا اتفاق ہوا۔
ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں کراچی سے ضلع اوکاڑہ اور پھر اس کے گاؤں مردانی جانے کا اتفاق ہوا۔ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں بیشتر ٹرینیں وقت پر آجارہی تھیں۔ میں بھی واپسی میں خیبر سے جسے 9 بجے صبح کراچی پہنچنا تھا صبح 6:15 بجے ڈرگ روڈ پہنچ گئی تھی۔ ابھی گزشتہ دنوں ریلوے کے وزیر رفیق سعد نے بیان دیا کہ ''اگر ریلوے کو نجی ملکیت میں دیا گیا تو اس کی وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا'' یہ بڑی جرأت اور ہمت کی بات ہے اگر واقعی ایسا کرگئے تو یہ عمل قابل ستائش ہوگا۔ بہرحال اوکاڑہ اسٹیشن پر میں پہنچ گیا، اسٹیشن سے وسیم مجھے لینے آگئے۔ ان کے والد رائے گلزار حسین کھرل کسان اتحاد اوکاڑہ کے جنرل سیکریٹری ہیں اور ایک نامور وکیل بھی۔ ان کے گھر پہنچتے ہی گلزار حسین اور ان کے بھائی رائے ذوالفقار علی کھرل نے میرا خیر مقدم کیا۔ ذوالفقار علی بھی ایک زمیندار اور اسکول ٹیچر ہیں بلکہ ٹریپل ایم اے ہیں۔ وہ مجھے اپنے گاؤں مردانی لے گئے، وہاں کسانوں اور استادوں سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
انھی دنوں گلزار حسین ایڈوکیٹ کا ایک بیٹا شہزاد گلزار فیصل آباد ڈویژن سے نویں جماعت کے امتحان میں اول آیا۔ اس لڑکے نے ریاضی میں 75 میں سے 74 اور حیاتیات میں بھی 75 میں سے 74 نمبر حاصل کیے۔ اس سے سوال کرنے پر جواب دیا کہ اس نے کبھی ٹی وی اور موبائل فون استعمال ہی نہیں کیا۔ یہ بہت ذہین لڑکا ہے جوکہ سائنسدان بننے کا خواہشمند ہے اور طبقاتی نظام تعلیم کے سخت خلاف۔ ذوالفقار علی جب مجھے اپنی گاڑی میں اپنے گاؤں مردانی لے جارہے تھے تو خواتین کے پردے پر کچھ بات چل پڑی۔ میں نے ان سے کہا کہ جس ملک میں صرف 2012 میں 6000 خواتین کا قتل ہوا ہو، آئے روز بچیاں اغوا ہورہی ہوں، ریپ کا کیس عام ہو، وہاں پردے سے کہیں آگے بات نکل گئی ہے۔ بس میں ان سے یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ مردانی گاؤں کی چند خواتین سر پر گوبر لیے، کچھ خواتین دیوار پر گوبر تھاپتے اور سریہ لکڑی لادے گزر رہی تھیں تو میں نے ذوالفقار علی کو متوجہ کراتے ہوئے کہا کہ دیکھیے یہ محنت کش خواتین برقعے میں یہ سب کام کرنے کی متحمل ہوسکتی ہیں؟
پنجاب میں تو لاکھوں خواتین سڑکوں پر پتھر کوٹتی ہیں، دھان اور گندم بوتی اور کاٹتی ہیں، مویشیوں کو چارہ کھلاتی ہیں اور صبح سویرے گوبر کی صفائی کرتی ہیں اور کپڑے بھی دھوتی ہیں۔ کیا یہ سارے کام برقعہ اوڑھ کر کرنا ممکن ہے؟ مردانی کی مسجد سے ذوالفقار علی نے اعلان کروایا کہ گاؤں کے سارے کسان ان کے ڈیرے پر جمع ہوجائیں، جہاں کسانوں (بے زمین) کے مسائل پر بات ہوگی۔ اعلان کے بمشکل 15 منٹ میں تقریباً 250 کسان جمع ہوگئے۔ وہ اپنے دکھڑے سنانے لگے۔ اس علاقے میں تقریباً چار ہزار کی آبادی ہوگی، جن میں 95 فیصد بے زمین کسان ہیں۔ ہر کسان کو صبح سے شام تک کھیت میں کام کرنے کا 100 روپے سے 250 روپے تک ملتے ہیں۔ اب بھلا اس مہنگائی میں جہاں چاول 150 روپے کلو، تیل 200 روپے، دودھ 60 روپے، دالیں 150 روپے کلو، انڈا 120 روپے درجن اور سبزیاں 80 سے 120 روپے کلو ہو وہاں اس قلیل دیہاڑی میں کیسے گزارہ ہوسکتا ہے؟ جس گھر میں 4/5 افراد ہوں۔
اگر وہ 2 کلوآٹا لے تو 80 روپے کا بنتا ہے، آدھا کلو دودھ 30 روپے کا، ایک کلو چاول کم ازکم 100 روپے، سبزی آدھا کلو 50 روپے ہے۔ بس اسی کا 260 روپے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر کہیں آنا جانا، دوا دارو، حقہ پانی، صابن، کپڑے وغیرہ کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی بچہ پڑھتا ہے تو اس کی فیس اور کتابیں خریدنا اس کے بس میں نہیں۔ بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کسان نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا ان کی روز کی دیہاڑی کم ازکم 500 روپے ہو اور ہر کسان خاندان کو کم ازکم ایک ایکٹر زمین ملنی چاہیے۔ اس لیے بھی کہ ایک ہفتے میں ہر روز کام بھی تو نہیں ملتا ہے۔ کبھی ملتا ہے تو کبھی نہیں ملتا۔ اس گاؤں میں ایک ڈسپنسری ہے۔ جہاں ڈسپنسر تو ہے لیکن ڈاکٹر نہیں ہے، دوائیاں ناپید ہیں۔ پرچی 2 روپے کی کٹتی ہے لیکن کسانوں سے 3 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ میٹرنٹی اسپتال ہے اور نہ ایمرجنسی کا کوئی انتظام۔ دولت مند تو اوکاڑہ شہر چلے جاتے ہیں۔ ایک پرائمری اسکول ہے جس کی حالت زار ہے جب کہ ہائی اسکول میں سائنس کے اساتذہ ناپید ہیں (ابھی ابھی ایک استاد کو بھرتی کیا گیا ہے)۔ یہ ہے لکھا پڑھا پنجاب۔ یہ تو رہی بے زمین کسانوں کی کتھا۔ اب ذرا زمینداروں کے مسائل سنیں جنھیں پنجاب میں کسان کہتے ہیں۔
مردانی میں چند زمیندار ہیں جن کے پاس 10 ایکڑ سے 50 ایکڑ تک زمینیں ہیں۔ انھیں کھاد، بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ اور مہنگے داموں میں حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ فصل گندم، دھان، گنا، مکئی، آلو، گاجر، مولی اور شلجم پیدا ہوتے ہیں۔ فصل پر لاگت زیادہ آنے پر فصل کی قیمت متوقع ہدف سے کم ہوتی ہے۔ سرکاری ادارہ پاسکو محدود پیمانے پر فصل کی خریداری کرتا ہے پھر کنڈلی مار کے بیٹھ جاتا ہے۔ بیشتر فصل آڑھتی (مڈل مین) کم قیمت میں خریداری کرتا ہے۔ اس طرح سے زمیندار کو بھی کم قیمت ملتی ہے اور صارفین کو بھی مہنگے داموں اجناس خریدنا پڑتا ہے۔ لہٰذا حکومت ہر دیہی علاقوں میں کھاد اور ٹریکٹر بنانے کے کارخانے قائم کرے اور ''پاسکو'' ساری فصل کی خریداری خود کرے تو صارفین اور زمیندار دونوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر زمیندار زمین کو فی ایکڑ 40/50 ہزار روپے میں سالانہ کے حساب سے ٹھیکے پر دیتے ہیں۔ ویسے یہاں کی زرخیز زمین فی ایکڑ 20 لاکھ روپے سے کم نہ ہوگی۔ پھر مجھے مردانی پرائمری اسکول کا دورہ کرایا گیا جہاں کے ہیڈ ماسٹر شفیق صاحب ایک ترقی پسند اور لائق استاد ہیں، پھر ہمیں مردانی اسکول کے کامن روم میں تقریباً 20 اساتذہ سے مخاطب ہونے کا اور سیکھنے کا موقع ملا۔
اس اسکول کو عمر حیات نے گلستان بنادیا ہے۔ جن میں تقریباً سبھی استاد ایم اے ڈبل ایم اے اور ٹریپل ایم اے ہیں۔ یہاں کے کرتا دھرتا یا یوں کہہ لیں کہ استادوں کے استاد عمر حیات ہیں جنہوں نے پنجابی زبان میں ایم اے کیا ہے، پھر ایک نوجوان فزکس کے استاد سعید صاحب جوکہ ترقی پسند خیالات کے مالک ہیں بھی موجود تھے۔ ان استادوں کی تنخواہیں 25 سے 35 ہزار تک ہے۔ ان استادوں سے عالمی اور ملکی حالات پر تبادلہ خیال کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر عمر حیات امداد باہمی کے نظام پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں اور کھیتوں سے لے کر ملکوں کی سرحدوں کی مصنوعی لکیروں کے خلاف ہیں۔ وہ برصغیر کے مزدوروں، کسانوں، دانشوروں کی ایک امداد باہمی کے معاشرے کے سخت گیر حامی ہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے بڑی خوبصورت مثال دی کہ انھوں نے کسانوں (بے زمین) کو 200 کے بجائے 400 روپے کی مزدوری دی جس پر انھیں ایک ساتھی زمیندار نے کہا کہ اس سے کسانوں کی عادت بگڑے گی۔ جس پر عمر حیات نے جواب میں کہا کہ 400 روپے مزدوری دینے سے پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سے تو دونوں فریقین کو فائدہ ہوا۔
جب کراچی پہنچا تو چند خبروں سے آشنا ہوا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ چنگ چی رکشہ ہم غریبوں کو 10 روپے میں کم فاصلے کے لیے بڑا مفید تھا۔ اس پر حکومت نے پابندی لگادی ہے جب کہ ایک کار میں 2/3 افراد سفر کرتے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ کہا گیا کہ موٹرسائیکل چوری کے ہیں۔ اگر موٹرسائیکل چوری کے ہیں تو پاکستان میں ہر ماہ ہزاروں کاریں، موبائل، بینک سے کروڑوں روپے اور زیورات کیا چوری نہیں ہورہے ہیں؟ ہمارے بجٹ کی 76 فیصد رقم کالے دھن پر مشتمل ہے۔ درحقیقت یہ ٹرانسپورٹ مافیا کا کارنامہ ہے۔ ادھر امریکا کے سرکاری اداروں کا شٹ ڈاؤن ہونے سے چار لاکھ ملازمین بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ عمل امریکی حکمران طبقات کے مابین مفادات کا کھلا تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔ مسائل اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان، برصغیر، ایشیا اور دنیا بھر میں ایک ہی ہیں اور وہ ہیں عالمی سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ۔ لہٰذا دنیا بھر کے شہری اور کارکنان ایک ایسا امداد باہمی کا معاشرہ قائم کریں گے جہاں ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ گداگر۔ سارے امور زندگی مل جل کرچلائیں گے۔
گزشتہ دنوں کراچی سے ضلع اوکاڑہ اور پھر اس کے گاؤں مردانی جانے کا اتفاق ہوا۔ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں بیشتر ٹرینیں وقت پر آجارہی تھیں۔ میں بھی واپسی میں خیبر سے جسے 9 بجے صبح کراچی پہنچنا تھا صبح 6:15 بجے ڈرگ روڈ پہنچ گئی تھی۔ ابھی گزشتہ دنوں ریلوے کے وزیر رفیق سعد نے بیان دیا کہ ''اگر ریلوے کو نجی ملکیت میں دیا گیا تو اس کی وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا'' یہ بڑی جرأت اور ہمت کی بات ہے اگر واقعی ایسا کرگئے تو یہ عمل قابل ستائش ہوگا۔ بہرحال اوکاڑہ اسٹیشن پر میں پہنچ گیا، اسٹیشن سے وسیم مجھے لینے آگئے۔ ان کے والد رائے گلزار حسین کھرل کسان اتحاد اوکاڑہ کے جنرل سیکریٹری ہیں اور ایک نامور وکیل بھی۔ ان کے گھر پہنچتے ہی گلزار حسین اور ان کے بھائی رائے ذوالفقار علی کھرل نے میرا خیر مقدم کیا۔ ذوالفقار علی بھی ایک زمیندار اور اسکول ٹیچر ہیں بلکہ ٹریپل ایم اے ہیں۔ وہ مجھے اپنے گاؤں مردانی لے گئے، وہاں کسانوں اور استادوں سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
انھی دنوں گلزار حسین ایڈوکیٹ کا ایک بیٹا شہزاد گلزار فیصل آباد ڈویژن سے نویں جماعت کے امتحان میں اول آیا۔ اس لڑکے نے ریاضی میں 75 میں سے 74 اور حیاتیات میں بھی 75 میں سے 74 نمبر حاصل کیے۔ اس سے سوال کرنے پر جواب دیا کہ اس نے کبھی ٹی وی اور موبائل فون استعمال ہی نہیں کیا۔ یہ بہت ذہین لڑکا ہے جوکہ سائنسدان بننے کا خواہشمند ہے اور طبقاتی نظام تعلیم کے سخت خلاف۔ ذوالفقار علی جب مجھے اپنی گاڑی میں اپنے گاؤں مردانی لے جارہے تھے تو خواتین کے پردے پر کچھ بات چل پڑی۔ میں نے ان سے کہا کہ جس ملک میں صرف 2012 میں 6000 خواتین کا قتل ہوا ہو، آئے روز بچیاں اغوا ہورہی ہوں، ریپ کا کیس عام ہو، وہاں پردے سے کہیں آگے بات نکل گئی ہے۔ بس میں ان سے یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ مردانی گاؤں کی چند خواتین سر پر گوبر لیے، کچھ خواتین دیوار پر گوبر تھاپتے اور سریہ لکڑی لادے گزر رہی تھیں تو میں نے ذوالفقار علی کو متوجہ کراتے ہوئے کہا کہ دیکھیے یہ محنت کش خواتین برقعے میں یہ سب کام کرنے کی متحمل ہوسکتی ہیں؟
پنجاب میں تو لاکھوں خواتین سڑکوں پر پتھر کوٹتی ہیں، دھان اور گندم بوتی اور کاٹتی ہیں، مویشیوں کو چارہ کھلاتی ہیں اور صبح سویرے گوبر کی صفائی کرتی ہیں اور کپڑے بھی دھوتی ہیں۔ کیا یہ سارے کام برقعہ اوڑھ کر کرنا ممکن ہے؟ مردانی کی مسجد سے ذوالفقار علی نے اعلان کروایا کہ گاؤں کے سارے کسان ان کے ڈیرے پر جمع ہوجائیں، جہاں کسانوں (بے زمین) کے مسائل پر بات ہوگی۔ اعلان کے بمشکل 15 منٹ میں تقریباً 250 کسان جمع ہوگئے۔ وہ اپنے دکھڑے سنانے لگے۔ اس علاقے میں تقریباً چار ہزار کی آبادی ہوگی، جن میں 95 فیصد بے زمین کسان ہیں۔ ہر کسان کو صبح سے شام تک کھیت میں کام کرنے کا 100 روپے سے 250 روپے تک ملتے ہیں۔ اب بھلا اس مہنگائی میں جہاں چاول 150 روپے کلو، تیل 200 روپے، دودھ 60 روپے، دالیں 150 روپے کلو، انڈا 120 روپے درجن اور سبزیاں 80 سے 120 روپے کلو ہو وہاں اس قلیل دیہاڑی میں کیسے گزارہ ہوسکتا ہے؟ جس گھر میں 4/5 افراد ہوں۔
اگر وہ 2 کلوآٹا لے تو 80 روپے کا بنتا ہے، آدھا کلو دودھ 30 روپے کا، ایک کلو چاول کم ازکم 100 روپے، سبزی آدھا کلو 50 روپے ہے۔ بس اسی کا 260 روپے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر کہیں آنا جانا، دوا دارو، حقہ پانی، صابن، کپڑے وغیرہ کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی بچہ پڑھتا ہے تو اس کی فیس اور کتابیں خریدنا اس کے بس میں نہیں۔ بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کسان نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا ان کی روز کی دیہاڑی کم ازکم 500 روپے ہو اور ہر کسان خاندان کو کم ازکم ایک ایکٹر زمین ملنی چاہیے۔ اس لیے بھی کہ ایک ہفتے میں ہر روز کام بھی تو نہیں ملتا ہے۔ کبھی ملتا ہے تو کبھی نہیں ملتا۔ اس گاؤں میں ایک ڈسپنسری ہے۔ جہاں ڈسپنسر تو ہے لیکن ڈاکٹر نہیں ہے، دوائیاں ناپید ہیں۔ پرچی 2 روپے کی کٹتی ہے لیکن کسانوں سے 3 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ میٹرنٹی اسپتال ہے اور نہ ایمرجنسی کا کوئی انتظام۔ دولت مند تو اوکاڑہ شہر چلے جاتے ہیں۔ ایک پرائمری اسکول ہے جس کی حالت زار ہے جب کہ ہائی اسکول میں سائنس کے اساتذہ ناپید ہیں (ابھی ابھی ایک استاد کو بھرتی کیا گیا ہے)۔ یہ ہے لکھا پڑھا پنجاب۔ یہ تو رہی بے زمین کسانوں کی کتھا۔ اب ذرا زمینداروں کے مسائل سنیں جنھیں پنجاب میں کسان کہتے ہیں۔
مردانی میں چند زمیندار ہیں جن کے پاس 10 ایکڑ سے 50 ایکڑ تک زمینیں ہیں۔ انھیں کھاد، بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ اور مہنگے داموں میں حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ فصل گندم، دھان، گنا، مکئی، آلو، گاجر، مولی اور شلجم پیدا ہوتے ہیں۔ فصل پر لاگت زیادہ آنے پر فصل کی قیمت متوقع ہدف سے کم ہوتی ہے۔ سرکاری ادارہ پاسکو محدود پیمانے پر فصل کی خریداری کرتا ہے پھر کنڈلی مار کے بیٹھ جاتا ہے۔ بیشتر فصل آڑھتی (مڈل مین) کم قیمت میں خریداری کرتا ہے۔ اس طرح سے زمیندار کو بھی کم قیمت ملتی ہے اور صارفین کو بھی مہنگے داموں اجناس خریدنا پڑتا ہے۔ لہٰذا حکومت ہر دیہی علاقوں میں کھاد اور ٹریکٹر بنانے کے کارخانے قائم کرے اور ''پاسکو'' ساری فصل کی خریداری خود کرے تو صارفین اور زمیندار دونوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر زمیندار زمین کو فی ایکڑ 40/50 ہزار روپے میں سالانہ کے حساب سے ٹھیکے پر دیتے ہیں۔ ویسے یہاں کی زرخیز زمین فی ایکڑ 20 لاکھ روپے سے کم نہ ہوگی۔ پھر مجھے مردانی پرائمری اسکول کا دورہ کرایا گیا جہاں کے ہیڈ ماسٹر شفیق صاحب ایک ترقی پسند اور لائق استاد ہیں، پھر ہمیں مردانی اسکول کے کامن روم میں تقریباً 20 اساتذہ سے مخاطب ہونے کا اور سیکھنے کا موقع ملا۔
اس اسکول کو عمر حیات نے گلستان بنادیا ہے۔ جن میں تقریباً سبھی استاد ایم اے ڈبل ایم اے اور ٹریپل ایم اے ہیں۔ یہاں کے کرتا دھرتا یا یوں کہہ لیں کہ استادوں کے استاد عمر حیات ہیں جنہوں نے پنجابی زبان میں ایم اے کیا ہے، پھر ایک نوجوان فزکس کے استاد سعید صاحب جوکہ ترقی پسند خیالات کے مالک ہیں بھی موجود تھے۔ ان استادوں کی تنخواہیں 25 سے 35 ہزار تک ہے۔ ان استادوں سے عالمی اور ملکی حالات پر تبادلہ خیال کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر عمر حیات امداد باہمی کے نظام پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں اور کھیتوں سے لے کر ملکوں کی سرحدوں کی مصنوعی لکیروں کے خلاف ہیں۔ وہ برصغیر کے مزدوروں، کسانوں، دانشوروں کی ایک امداد باہمی کے معاشرے کے سخت گیر حامی ہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے بڑی خوبصورت مثال دی کہ انھوں نے کسانوں (بے زمین) کو 200 کے بجائے 400 روپے کی مزدوری دی جس پر انھیں ایک ساتھی زمیندار نے کہا کہ اس سے کسانوں کی عادت بگڑے گی۔ جس پر عمر حیات نے جواب میں کہا کہ 400 روپے مزدوری دینے سے پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سے تو دونوں فریقین کو فائدہ ہوا۔
جب کراچی پہنچا تو چند خبروں سے آشنا ہوا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ چنگ چی رکشہ ہم غریبوں کو 10 روپے میں کم فاصلے کے لیے بڑا مفید تھا۔ اس پر حکومت نے پابندی لگادی ہے جب کہ ایک کار میں 2/3 افراد سفر کرتے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ کہا گیا کہ موٹرسائیکل چوری کے ہیں۔ اگر موٹرسائیکل چوری کے ہیں تو پاکستان میں ہر ماہ ہزاروں کاریں، موبائل، بینک سے کروڑوں روپے اور زیورات کیا چوری نہیں ہورہے ہیں؟ ہمارے بجٹ کی 76 فیصد رقم کالے دھن پر مشتمل ہے۔ درحقیقت یہ ٹرانسپورٹ مافیا کا کارنامہ ہے۔ ادھر امریکا کے سرکاری اداروں کا شٹ ڈاؤن ہونے سے چار لاکھ ملازمین بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ عمل امریکی حکمران طبقات کے مابین مفادات کا کھلا تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔ مسائل اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان، برصغیر، ایشیا اور دنیا بھر میں ایک ہی ہیں اور وہ ہیں عالمی سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ۔ لہٰذا دنیا بھر کے شہری اور کارکنان ایک ایسا امداد باہمی کا معاشرہ قائم کریں گے جہاں ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ گداگر۔ سارے امور زندگی مل جل کرچلائیں گے۔