اجتماعی بے حسی

سانحہ اجڑی رونما ہوا تو ملک پر سوگواریت کی دبیز گھٹا طویل عرصے تک چھائی رہی۔

سانحہ اجڑی رونما ہوا تو ملک پر سوگواریت کی دبیز گھٹا طویل عرصے تک چھائی رہی، اس واقعے سے ذرا پیچھے جائیں تو ''پھلاں دے رنگ کالے'' والے دور میں ایک عوامی لیڈر کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد کھلے نہیں مگر دبے لفظوں میں عوام ایک لمبی مدت تک اندوہ کا اظہار کرتے پائے گئے، ملک میں پٹاخہ چھوٹ جاتا تو سارے ملک کو سانپ سونگھ جاتا۔ تھڑوں، سی سی ہوٹلز، چوراہوں، چوباروں اور بیٹھکوں میں تندوتیز تبصرے ہوتے، تمام ملک دشمن عناصر کا بحث و مباحث میں تیا پانچہ کیا جاتا۔ اب ملک ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے، روز بے گناہ شہری مر رہے ہیں، بے وقت جنازے اور کفن گزشتہ کئی سال سے پاکستانی قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔ لیکن معاشرے میں انسانی دکھ اور حساسیت کی وہ فضا نظر نہیں آتی۔

دکھ اور الم کی اس کیفیت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے قرب اور مخلوق خدا سے باہمی محبت میں ''معجزے'' رونما ہوتے۔ مگر احساس اور حساس پن کی جگہ معاشرے پر ''بے حسی'' کی چادر تنی ہوئی ہے۔ جس حملے یا دھماکے میں دو، چار شہری مارے جائیں اس کا نوٹس نہ تو عوامی سطح پر اور نہ حکومتی سطح پر اس شد و مد سے لیا جاتا ہے جس کا تقاضا انسانیت، دین اسلام اور ہماری معاشرتی اقدار کرتے ہیں۔ شاید اجتماعی معاشرتی بے حسی کی یہی کیفیت ہے جس کی بدولت دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں بھی ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار بلکہ شاہکار ہے۔ دہشت گردی کوئی بھی کرے اس کے ہاتھ کاٹنے ضروری ہیں، لیکن اس بدترین لعنت کے خاتمے میں بھی ''مامے چاچے'' والا معاملہ حائل نظر آتا ہے۔


انسانی جان جس کی بھی ہے وہ قیمتی ہے، خواہ اس کا تعلق جس بھی گروہ سے ہو۔ ہر پاکستانی کی جان بچانا اور اس کی جان و مال کا تحفظ کے اصول پر عمل پیرا ہو کر ہی ملک اور معاشرے میں کامل قسم کا امن قائم ہوسکتا ہے اور کامل امن کے دیرپا قیام کے لیے ضروری ہے کہ بلا کم و کاست امن کی بحالی کے لیے جان بھی جوکھوں میں ڈالی جائے، دل بھی دکھائے جائیں اور میرٹ کو بھی مقدم رکھا جائے۔ خرابی یہاں سے جنم لیتی ہے جب دہشت گردی کے خاتمے میں بھی ''اسے مارو اور اسے بچائو'' والا کلیہ اختیار کیا جائے۔ بات تلخ ہے مگر برحق ہے۔ کراچی سے لے کر فاٹا اور پاٹا تک دہشت گردی کے خاتمے کے اقدامات اور پالیسیوں میں سیاسی، عوامی اور حکومتی سطح پر بے شمار جھول پائے جاتے ہیں۔ عقل کے اندھے کو بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ ''غیر'' کے لیے اور پالیسی ''اپنے'' کے لیے اور پالیسی ہے۔ دہشت گردی کے معاملے میں اس ''نرم اور گرم'' پالیسی کے نفاذ ہی کی بنا پر آج تک ہمارے ملک میں امن کا بول بالا اور دہشت گردی کا منہ کالا نہ ہوسکا۔

افرادی قوت کی فراوانی اور ہتھیاروں کی بہتات کے باوجود دہشت گردی کے خاتمے میں حکومت اور عوامی سطح پر ہم ناکام چلے آرہے ہیں۔ معذرت خواہانہ پالیسی کو ایک جانب رکھ کر بات کی جائے تو خدا واسطے بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں کا بھی پتا ہے اور دوستوں کا بھی، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ کون ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا ذمے دار ہے۔ ہماری حکومتوں کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ہمارے سینے کو چھلنی کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ہر بات شیشے کی طرح عیاں ہے، جس میں ہمارے دشمنوں کے مکروہ چہرے بھی صاف نظر آرہے ہیں، جس میں ہمیں اپنے مفادات کے پائوڈر میں لت پت چہرے بھی نظر آرہے ہیں۔ انانیت اور مفادات کی چپ کی بہار میں کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہماری ساری ''طرم خانیاں'' ہماری ساری اکڑفوں، ہمارا سارا کروفر، ہمارے سارے مزے اسی ملک کی مرہون منت ہیں، جس کی جڑیں صرف اور صرف چند حقیر سکوں کی کھنک کے لیے ہم کاٹنے میں لگے ہیں۔ ہمارے سارے عیش، ہمارا سارا دھن اسی ماں دھرتی کے صدقے ہے جس نے ہمیں اپنی ملائم آغوش میں ہر گرم و سرد سے پناہ دے رکھی ہے۔

لیکن ہم جانتے بوجھتے، سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اندھے اور بہرے ہو کر چلے جارہے ہیں۔ جس کو دیکھو، جس سے بولو، ہر ایک نے اپنے اپنے مفادات کی ٹوکری سر پر اٹھا رکھی ہے۔ ہر ایک کو اپنے مفاد کی پڑی ہے، ملک اور قوم کے مفاد سے ہر ایک بے بہرہ ہے۔ آخر کب ہمیں سمجھ آئے گی کہ یہ ملک رہے گا تو ہماری عیاشیاں بھی اسی طرح قائم رہ سکیں گی۔ ابتری کے شکار اپنے پڑوسی کے حالات سے سبق حاصل کرنے میں کوئی ندامت نہیں۔ افغانستان میں کیا ہوتا رہا؟ حکمران چین کی بانسری بجاتے رہے اور ملک کے مختلف گروہ آپس میں ''ٹکڑوں'' کے لیے ٹکراتے رہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کوئی قتل ہوتا رہا، کوئی ملک سے فرار ہوتا رہا اور کسی کو چوک پر پھانسی پر لٹکایا جاتا رہا اور جب آفرینی حد سے بڑھی تو انکل سام نے آکر سب کو مسخ کرکے اپنی حکمرانی قائم کرلی۔ کل جو چند سکوں اور چند ایکڑ پر تھانیداری کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہے، ان میں سے کوئی رزق خاک ہوا اور کوئی آج دم دبا کر انکل سام کی تابعداری میں ہے۔ عرض یہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنے بھائی بندوں کے لیے نہ صرف دل میں تڑپ کو جگائیں بلکہ اس ملک کے ذرے ذرے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سب ایک ہوں۔ گندے انڈوں سے جب تک ملک کو پاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک امن خواب رہے گا اور دہشت گردی کا عذاب رہے گا۔
Load Next Story