زلزلہ متاثرین کی بحالی میں پاک فوج کا کردار…
زمانہ امن ہو یا جنگ، پاک فوج ہر حال میں ملک کی حفاظت کے لیے برسر پیکار ہے۔
زمانہ امن ہو یا جنگ، پاک فوج ہر حال میں ملک کی حفاظت کے لیے برسر پیکار ہے، اسی وجہ سے پاک فوج سے محبت کا جذبہ ہر دور میں عوام کی جانب بڑھتا ہی دیکھا گیا ہے۔ پاک فوج کے جوان سے لے کر افسر سب کا مقصد مادر وطن کی خاطر جان قربان کرنا ہے، چاہے گرمی ہو یا سردی، سیاچن کے گلیشئر ہوں یا ریگستان کی تپتی ریت۔ غرض ہر طرح کے موسم اور حالات میں تیار و گامزن رہنے کے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی جان ہتھیلی پر لیے گھر بار سے دور ملک کی دفاعی سالمیت میں مگن ہیں۔
پاک فوج کے جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک آنے والی قدرتی آفات میں بھی عوام کی امداد و بحالی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سیلاب متاثرین کو سیلابی ریلوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے دن رات انسانی ہمدردی کی خاطر کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اکتوبر 2005 کے ہولناک زلزلے میں پاک فوج نے عوام کی ریلیف کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور زلزلہ زدگان کی بحالی اور امداد میں ابتدا سے اختتام تک مصروف عمل رہی۔ آپریشن راہ نجات کے تحت خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری کے لیے بے شمار جانوں کے نذرانے دے کر قیام امن کو یقینی بنایا۔
صوبہ بلوچستان میں 24 ستمبر 2013 میں 7.7 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکوں نے ہلاکتوں کے انبار لگا دیے۔ 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جب کہ تین لاکھ سے زائد متاثر ہوئے۔ اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں آواران اور مشکے ہیں جہاں جانی و مالی نقصان دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ یہ زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں سلطنت عمان کے علاوہ ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے جب کہ 27 ستمبر 2013 کو ایک بار پھر صوبہ بلوچستان میں دوبارہ زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2 تھی۔ زلزلہ متاثرین علاقوں کے اکثر زخمیوں کی ہڈیاں چھتوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے ٹوٹی ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین کی تعداد شامل ہے لیکن قبائلی روایات کے باعث شدید ترین زخمی خواتین کو طبی امداد دینے میں مشکلات درپیش ہیں، اس کے علاوہ لیڈی ڈاکٹرز بھی وہاں جانے سے گھبرا رہی ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں میں دواؤں اور خوراک کی کمی بے حد زیادہ ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ سرکار عملے کے ہمراہ بذات خود ان علاقوں میں امداد و بحالی کی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست نے پہلی بار اپنے وجود کا ثبوت دیا ہے اور زلزلہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے کیے گئے صوبائی اور وفاقی انتظامی اہلکار و افسران نامساعد حالات کے باوجود موجود ہیں۔ اس حوالے سے حکومت نے تین امدادی مراکز بھی قائم کیے، جن میں تربیت سینٹر ڈانڈار یونین کونسل، حب سینٹر آواران اور خضدار سینٹر مشکے شامل ہیں۔ حکومتی ذرایع کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں بیماریوں کے اضافے میں تیزی دیکھی جارہی ہے جس کی ایک اہم وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے کیونکہ مشکے میں کنوئیں زلزلے کی وجہ سے مٹی سے بھر گئے ہیں جو یہاں کی آبادی کے لیے ذرایع فراہمی آب ہیں اور اب مقامی آبادی برساتی نالوں ندیوں کا پانی پینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں انفرااسٹرکچر کی کمی ہے، سڑکیں ملبے کی وجہ سے بند ہیں اور اسکول، رہائشی و تجارتی عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں پاک فوج اپنی سابقہ روایات اور تاریخ کے مطابق مزاحمت کاروں کے حملوں اور فائرنگ کے باوجود ان کی ریلیف کی سرگرمیوں میں تمام اداروں سے آگے ہے۔ آواران، ترتیج، مالار، منگولی، مزدار اور مشکے میں آرمی کی 15 سو پلٹونیں بمع ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف متاثرہ علاقوں میں عوام کی خدمات کے لیے مامور ہیں جب کہ متاثرین کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے 7 آرمی فیلڈ اسپتال قائم کیے گئے ہیں جہاں مرد و خواتین ڈاکٹرز عملے کے ساتھ حتی الوسع طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ان اسپتالوں میں ایک طرف زلزلے سے زخمی افراد کا علاج کیا جارہا ہے اور دوسری جانب دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج بھی کیا جارہا ہے جن میں حاملہ خواتین اور بچے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے لیے نہ صرف علاج معالجے کے خصوصی انتظام کیے گئے ہیں بلکہ ان کے لیے بہتر خوراک کی فراہمی کے لیے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ پاک فوج کے افسر اور جوان ریلیف کی کارروائیوں میں تندہی سے مصروف ہیں اور اب تک 11 سو ٹن فوڈ آئٹم، 30 ہزار ٹینٹ کے علاوہ کمبل اور مچھردانیاں وغیرہ متاثرین میں تقسیم کی جاچکی ہیں جب کہ 12 ہیلی کاپٹر عام حالات کے لیے اور 225 مخصوص صورتحال کے پیش نظر آپریشن کا حصہ ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق زلزلے سے متاثر دور دراز علاقوں میں بحالی اور ریلیف کے سامان کی ترسیل میں مسائل ہیں، سڑکیں نہایت خستہ حال ہیں۔ آواران سے مشکے کی جانب سفر کے دوران کہیں کہیں سڑکیں پختہ ہیں جب کہ پہاڑی سلسلہ بھی امدادی کاموں میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیوں میں انتہا پسندوں کی مزاحمت سے رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ انتہا پسندوں نے آرمی کے تین ہیلی کاپٹروں پر حملہ کیا۔ 28 ستمبر کو آرمی یونٹ پر ان کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں ایف سی کے 4 اہلکار ہلاک جب کہ 2 زخمی ہوئے۔ آواران کے قریب 30 ستمبر کو اس وقت راکٹ فائر کیے گئے جب پاک فوج متاثرین میں امدادی اشیا تقسیم کر رہی تھی۔ اسی روز نوکجو میں راکٹوں کے حملوں کے علاوہ فائرنگ بھی کی گئی۔ علاوہ ازیں یکم اکتوبر کو نوکجو ہی میں ریلیف کیمپ پر 7 راکٹ فائر کیے گئے جب کہ اسی روز مشکے میں پاک فوج پر فائرنگ کرنے کا واقعہ بھی رونما ہوا۔ 2 اکتوبر کو مشکے میں امدادی مراکز پر تشدد پسند کارروائیوں کے نتیجے میں 2 جوان شہید جب کہ 3 زخمی ہوئے۔ صورت حال اب بھی کشیدہ ہے اور تسلسل کے ساتھ امدادی کارروائیوں میں مصروف پاک فوج کے جوانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
زلزلہ متاثرین کی ریلیف کی جانب آرمی کی پیش قدمی کے موقع پر خیال کیا جارہا تھا کہ پاک فوج کی امداد و بحالی کی سرگرمیوں کے باعث صوبہ بلوچستان میں موجود نام نہاد قوم پرست، مسلح تشدد پسند عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والی تنظیمیں منفی رجحانات سے گریز کریں گی اور ان کا خیرمقدم کریں گی لیکن صورت حال کو ابتدا ہی سے خراب کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں اور 26 ستمبر کو چیئرمین این ڈی ایم اے میجر جنرل سمریز مالک کے ہیلی کاپٹر پر حملہ کیا گیا اس وقت ان کے ہمراہ سعید علیم بھی تھے۔ علاوہ ازیں ضلع آواران کے راستے میں ایف سی کے امدادی قافلے پر حملہ کیا گیا جو متاثرین کے لیے سامان لے جارہا تھا۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کا موقف ہے کہ ریاست امداد و تعاون کے نام پر فنڈز بٹورنا چاہتی ہے اور متاثرین کی بحالی کو وجہ بناکر یہاں سیاست کرنا چاہتی ہے جس کی وہ قطعی اجازت نہیں دیں گے۔ وہ فوج کے کردار کو بلوچ عوام پر طاقت مسلط کرنے سمجھتے ہیں۔ انھوں نے فورسز کی موجودگی میں امدادی سرگرمیوں کی مذمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج چاہے کسی بھی صورت میں یہاں ہو، ہم ان کی امداد کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ بحالی و امداد کرنے کے پس پردہ ہمارا قتل عام کرنے آرہی ہے لہٰذا ان کی سرگرمیوں کی مخالفت کرتے ہوئے مزاحمت کرتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی کے لیے تعاون کرنا چاہتی ہیں تو وہ علیحدگی پسند تنظیموں کے ذریعے ہی مدد کریں۔
ہمارا نظریہ ہے کہ انتہا پسند، مسلح تشدد پسند عناصر انسانیت کی خاطر متاثرین کے لیے صوبائی، وفاقی اور پاک فوج کی امدادی کارروائیوں میں مزاحم نہ بنیں بلکہ ان کا ساتھ دیں کیونکہ بلوچستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران سمیت دور افتادہ علاقوں میں لاکھوں افراد امداد کے منتظر ہیں اور وہ شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کسی صورت انسانی حقوق کی پاسداری کے زمرے میں نہیں آتا۔