لاہور میں موسم تبدیل ہونے کے ساتھ ہی مچھلی کی فروخت میں بھی اضافہ

سمندر سے پکڑی جانے والی مچھلی کی مقدار ساڑھے 6 لاکھ ٹن سالانہ ہے


آصف محمود November 04, 2019
تازہ پانی میں رکھی گئی زندہ مچھلی کی فروخت کا رحجان بھی بڑھنے لگاہے فوٹو: فائل

صوبائی دارالحکومت میں موسم تبدیل ہونے کے ساتھ ہی مچھلی کی فروخت میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔

لاہورسمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں زیادہ تر فارمی مچھلیاں ہی فروخت کی جارہی ہیں تاہم سمندراور دریائی مچھلیاں بھی منڈی سے مل جاتی ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت زندہ مچھلی کی قیمت میں 20 سے 25 فیصد اضافہ نظرآرہا ہے، تازہ پانی میں رکھی گئی زندہ مچھلی کی فروخت کا رحجان بھی بڑھنے لگا ہے۔

لاہورکی مچھلی مارکیٹ میں ان دنوں لاہورکے مضافات اورمختلف شہروں سے آئے چھوٹے دکانداروں کا رش نظرآتا ہے۔ لاہور کی مچھلی مارکیٹ میں آپ کو تقریباً ہر قسم کی مچھلی مل جاتی ہے۔ یہاں سے روزانہ کئی ہزار کلو مچھلی پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی بھیجی جاتی ہے۔ مچھلی کو سیلوفین کی تھیلیوں، زپ والے بیگ، ہوا بند ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ جب مچھلی پیک کی جاتی ہے تو اس میں کئی کلو برف رکھی جاتی ہے تاکہ اسے خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔



مچھلی دنیا بھر میں مرغوب غذا سمجھی جاتی ہے اور اسکی کئی اقسام ہیں،پاکستانی سمندر سے 1800 اقسام کی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں جن میں سے 350 اقسام کی مچھلیوں کی انتہائی زیادہ طلب ہے وہ خاصی مہنگی بھی ہیں ، پاکستانی سمندروں سے جھینگوں کی 25 اقسام، لابسٹر کی 4، کیکڑوں کی 6 جبکہ 12 اقسام کی پائی جاتی ہیں۔ پاکستان سمندری خوراک کی برآمد سے اوسطاً 3 ارب امریکی ڈالر حاصل کرتا ہے۔

ماہی پروری پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹرڈاکٹرغلام قادر نے بتایا کہ پاکستان میں رہو، ٹراؤٹ، سنگھاڑہ اور مہاشیر کو تمام مچھلیوں پر سبقت حاصل ہے۔ رہو تمام ایشائی ممالک میں عام پائی جاتی ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے جبکہ ٹراؤٹ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ مچھلی تقریبا 10 سے 16 انچ لمبی ہوتی ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے بہت کم ہوتے ہیں۔ ذائقہ نہایت ہی لذیذ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر لوگ اسے باقی مچھلیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

لاہورکی مچھلی مارکیٹ کی بات کی جائے تویہاں ان دنوں رہو، موری، تھیلا، سلورکار،گراس کار،تلاپیا، سنگھاڑہ،مہلی، بام ،ڈولا،کھگہ اورگلفام سمیت چند دیگر اقسام فروخت ہورہی ہیں۔ ان میں سے تلاپیا، رہو،موری ، تھیلا،گراس،بیگ ہیڈ فارموں سے لائی جاتی ہیں جبکہ سنگھاڑی، بام ، مہلی،ڈولہ ، کھگہ اورگکفام سمندراوردریا سے ملتی ہیں۔ ڈولہ مچھلی چھوٹے جوہڑوں اورتلابوں سے بھی پکڑی جاتی ہیں۔



ماہی پروری پنجاب کے سپروائزر کامران مختارنے بتایا کہ ابھی چونکہ سیزن شروع ہورہا ہے ، مچھلی کی قیمت اس کے وزن اور سائزکے حساب سے مقرر کی جاتی ہے، رہو، تھیلا، موری اور گراس مچھلی جس کا وزن ایک سے ڈیرھ کلو تک ہوتا ہے یہ مچھلی 275 روپے فی کلو گرام فروخت ہورہی ہے۔ اگر ان کا سائز دو، ڈھائی کلو کے قریب ہو تو پھر قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ملہی ، سنگھاڑی کی قیمت 500 سے 600 روپے کلو تک ہے۔

مارکیٹ میں کئی دکاندار شکار کی گئی مچھلی فروخت کرتے ہیں اور عام خریدار اس کی پہچان نہیں کرپاتا ہے۔ کامران مختارنے بتایا کہ تازہ اورزندہ مچھلی کی پہچان چندآسان طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ تازہ مچھلی کی آنکھیں شفاف، چمکدار اور پوری ہوتی ہیں جبکہ ان میں دھندلا پن اس چیز کی علامت ہے کہ اسے وہاں رکھے بہت دیر ہوچکی ہے. مچھلی کو چھو کر دیکھیں، گوشت اچھا اور سخت ہوگا۔ اگر وہ نرم یا پلپلا ہو تو مچھلی تازہ نہیں ہوگی۔


ماہی پروری ماہرین کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کا حصہ جی ڈی پی میں 22 فیصد کے قریب ہے جس میں ایک فیصد حصہ ماہی گیری کے شعبے کا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سمندر سے پکڑی جانے والی مچھلی کی مقدار ساڑھے 6 لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ ہماری ماہی گیری کی صنعت سے اندازاً 40 لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔ماہی گیری سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کی افزائش میں کمی واقع ہورہی ہے جس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ دریاؤں اورسمندروں میں آلودہ اور کیمیکل ملے پانی کا شامل ہونا ، ماہی گیروں کا بے دریغ جال کا استعمال ہے ۔ جال کی وجہ سے چھوٹی مچھلیاں بھی اس میں پھنس جاتی ہیں۔

حکام کوخدشہ ہے کہ اگر مچھلیوں کے شکار کے لیے اِن ممنوعہ جالوں کا استعمال جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سمندری وسائل خواب و خیال بن جائیں گے اور مستقبل قریب میں مچھلیوں کی بہت سی انواع اور جھینگوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔۔ پنجاب میں بہنے والے دریا توپہلے ہی خشک ہوچکے ہیں اورچندایک مقامات پرپانی کے ذخائرموجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں