پاکستان میں حالات اتنے برے نہیں ہیں

اس وقت ہر جگہ ادارے تو موجود ہیں، مگر ان کی ترجیحات کو درست سمت اور عملے کی ضرورت ہے


شہر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کی ذمے داری میونسپلٹی کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''شکر ہے میں جون میں پاکستان نہیں آیا، ورنہ میرا برا حال ہوجاتا، کیونکہ نہ بجلی ہوتی نہ پانی۔'' میں آملیٹ کو اپنی طرف کھسکاتے ہوئے دادی جان سے گویا ہوا۔ ''ارے نہیں بیٹا! اس بار تو گرمیوں میں بجلی کا مسئلہ نہیں تھا''۔ دادی جان نے میری اصلاح کی۔ ''واقعی؟'' میں نے بے یقینی کی کیفیت میں پوچھا، کیونکہ دو برس قبل رمضان المبارک میں پاکستان آنا ہوا تو ہر ایک گھنٹے کے بعد بجلی آرہی ہے، اور بجلی گئی کی آواز لگتی تھی۔ اسی لیے میں نے دو عیدوں کی قربانی دے کر اکتوبر کا انتخاب کیا۔ مگر اس بار تو یوں لگا کہ میں نئے پاکستان میں آگیا ہوں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہیں ہے، امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ سرکاری ادارے گاہے بگاہے بازار کا چکر لگا کر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج برائے مردانہ و زنانہ اور عدالتوں کی تعمیر، نادرا سینٹر کے قیام کی بدولت زندگی پہلے کی نسبت کافی سہل ہوگئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت ملک کے وسیع تر مفاد میں تعمیر کے بجائے اگر مرمت کا فریضہ سرانجام دے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ ہوگا، کیونکہ اگر ہم گزشتہ بیس سال میں آنے والی حکومتو ں کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے تعمیرات پر زور دیا۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، سڑکیں، ریسکیو 1122 جیسے ادارے، ٹریفک وارڈن، گلی محلوں میں ہونے والے جرائم کا قلع قمع کرنے کےلیے ڈولفن فورس، خواص کی حفاظت کےلیے خصوصی سیکیورٹی دستوں کی تشکیل وغیرہ پر زور دیا گیا۔ (ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے کمیشن کے حصول کےلیے قائم ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے تو بن گئے مگر ان میں عملہ مکمل نہ ہوسکا۔ پنجاب کے موجودہ اسپیکر چوہدری پرویزالٰہی جب اپوزیشن میں تھے تو آپ شکایت کرتے تھے کہ حکومت ہمارے تعمیر کیے گئے تعلیمی اداروں میں عملہ مہیا نہیں کررہی۔ آج اللہ کے فضل سے وہ حکومت میں ہیں۔ امید ہے کہ وہ مزید ادارے قائم کرنے کے بجائے پہلے سے موجود اداروں میں عملہ فراہم کرنے کی کوشش کریں گے)۔

آج ہمارے اردگرد ادارے تو موجود ہیں، مگر ان اداروں میں نہ صرف عملے کی کمی ہے، بلکہ بعض جگہ پر موجود عملہ خواص کے گھروں پر فرائض منصبی سرانجام دیتا پایا گیا۔

میری خان صاحب سے عاجزانہ التماس ہے کہ آپ براہِ کرم ملک و قوم پر احسان کرتے ہوئے، پہلے سے موجود اداروں کو فعال کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ کیونکہ اس وقت ہر جگہ ادارے تو موجود ہیں، مگر ان کی ترجیحات کو درست سمت اور عملے کی ضرورت ہے۔ جیسے پنجاب کی تحصیل بھیرہ میں جابجا گندگی کے ڈھیر ہیں۔ شہر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کی ذمے داری میونسپلٹی کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عملہ کو فعال کیا جائے، اور اس کےلیے میونسپلٹی کے افسران کو دفتری زبان میں ذمے داری کا احساس دلایا جائے۔

گزشتہ دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج برائے مردانہ کی پرشکوہ عمارت دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اندر داخل ہوئے تو یوں لگا کہ اصطبل میں آگیا ہوں۔ صفائی کا انتہائی ناقص انتظام دیکھنے کو ملا۔ ایک مہربان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ صفائی کا عملہ سیاسی اثر و رسوخ کا حامل ہے، اس لیے وہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے۔ اور آخری بات ڈینگی پر شہباز شریف کے دور حکومت کے تیارکردہ ہر قسم کے ضابطے موجود ہیں۔ صرف ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

اگر پی ٹی آئی سرکار نے ذاتی تشہیر کو پس پشت ڈال کر ملک کے وسیع تر مفاد میں تعمیر کے بجائے مرمت پر توجہ مرکوز کی، تو نہ صرف غیر ضروری تعمیرات کی بدولت قومی خزانے پر بوجھ کم ہوگا، بلکہ سیاسی کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔ بصورت دیگر اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، سڑکیں تو تعمیر ہوں گی، مگر عوام کی حالت وہی رہے گی، اور جیسے ماضی میں آپ شہباز شریف کو تعمیرات کے حوالے سے ننقید کا نشانہ بناتے رہے، آنے والے کل میں آپ پر بھی نہ صرف انگلیاں اٹھیں گی، بلکہ عین ممکن ہے کہ آپ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق کی طرح نیب کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں