ہمیں تو اپنوں نے لوٹا

آئین پاکستان میں آمریت مطلق طرز حکمرانی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے


دلاور حسین November 05, 2019
عوام ستر برس سے اپنی سیاسی و معاشی بے بسی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا میں آزادی، حریت اور اصول کی جنگیں ہمیشہ غیروں سے ہی نہیں لڑنا پڑتیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیرت مند، خوددار اور جرأت مند قوموں کو اپنی ہی قوم کے جباروں کے خلاف مصروفِ جہاد ہونا پڑتا ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ نبی پاکؐ قریش کے خلاف مصروفِ پیکار ہوئے۔ امام حسینؑ اپنے ہی دور کے حکمران کے خلاف سربکف ہوکر نکلے۔ امام ابوحنیفہؒ، امام احمد ابن حنبلؒ، مجددالف ثانیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور امام خمینی نے اپنے اپنے ادوار کے مسلمان حکمرانوں اور ان کے جابرانہ و آمرانہ طرزِ حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ عوام کی بالادستی اور ان کے بنیادی سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کےلیے جدوجہد کی۔ چین والوں نے خاقان چین کے خلاف لڑائی لڑی، فرانس والے اپنے ہی آمر بادشاہ لوئس چہارم کے خلاف برسرِپیکار ہوئے اور روس والوں نے وقت کے زاروں کے خلاف آوازِ آزادی و حریت بلند کی۔

جو قومیں اپنے سیاسی و معاشی حقوق، فکری و نظریاتی آزادی اور اظہارِرائے کی آزادی کےلیے اپنے حکمرانوں کے خلاف استقامت و عزیمت کا مظاہرہ نہ کرسکیں، وہ بڑی آسانی سے بیرونی جباروں کا لقمہ تر اور نرم چارہ بن گئیں۔ غرض آزادی پسند قوموں کو غیروں کے خلاف اپنے حقوق و آزادی کی جنگیں شاید اتنی بڑی تعداد میں نہ لڑنا پڑیں ہوں جتنی جدوجہد انہیں اپنی قوم کے آمر حکمرانوں اور ان کے حواریوں و حمایتیوں کے خلاف کرنا پڑی۔

پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جس کسی نے بھی عوام و آئین کی بالادستی کےلیے آواز اٹھائی اسے بدعنوان، غدار، کافر اور غیر ملکی ایجنٹ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ اور اگر ان خطابات کے ملنے کے باوجود بھی متعلقہ آواز نے 'ڈھٹائی' کا مظاہرہ کیا تو اسے ہمیشہ کےلیے خاموش کردیا گیا۔

اپنے ہی نہتے شہریوں کو اپنے حقوق کے مطالبے کے 'جرم' میں ابدی نیند سلادیا گیا۔ اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو اسی جرم کی سزا چوبیس برس دیتے رہے۔ آخرکار حقوق نہ ملنے پر مجبوراً انہیں علیحدگی کا سوچنا پڑا اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ اپنے ہی بلوچ، ہزارہ اور پشتون بھائیوں کو کبھی غیروں کی ایما پر تو کبھی حقوق کے مطالبہ کرنے کے جرم کی پاداش میں 'دہشت گرد' قرار دیا۔ کبھی غیروں کے حوالے کیا، تو کبھی مسلح چڑھائی کرکے ان کو خود 'سبق' سکھایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح ہم نے سول بالادستی کی آوازوں کو تختہ مشقِ ستم بنایا، اس سفاکی کی داستانیں غیروں کے ظلم کے سامنے گرد ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس آمرانہ سوچ کے عوض ملک و قوم کو سیاسی و معاشی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ آمرانہ سوچ و قوتیں ایک طرف پرورش پاتی چلی گئیں تو دوسری طرف عوام کے اس ظلم سہنے کی عادت کے نتیجے میں مقتدر قوتیں اپنی ان کارروائیوں کو اخلاقی، آئینی جواز دے کر جائز و درست قرار دلواتی رہیں۔ کبھی جمہوریت اور جمہوری سوچ کا قتل بلاواسطہ اقتدار پر قبضہ کرکے کیا گیا، تو کبھی بلاواسطہ بزور 'اپنے' نمائندے جمہوری لبادے میں مسند نشین و نصب کے گئے۔ کبھی بظاہر تو کبھی پس پردہ عوام کی رائے و مشاورت کے برعکس آمرانہ سوچ کو پروان چڑھایا اور سول بالادستی کو روندا گیا۔

اس آمرانہ سوچ کا نتیجہ کیا نکلا۔ عوام ستر برس سے اپنی سیاسی و معاشی بے بسی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ معاشی صورت حال بد سے برتر ہوتی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے باعث ان کے ہی سیاسی و معاشی اور فکری غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کھینچاتانی میں ملک کی معیشت، سیاست، سفارت کاری، نظریہ، امن، سیکیورٹی، ملکی و قومی وقار، صحت، تعلیم، ادارے، آزادی، استحکام، ترقی سب دن بدن تیزی سے تنزلی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کا خاتمہ، عدلیہ کی آزادی مشکوک، شورائی نظام سے اعتماد اٹھنا، نسلی و علاقائی عصبیتوں کا ابھرنا جیسے منفی رویے جنم لے چکے ہیں۔

ظاہر ہے اس کے بعد باقی کیا رہ گیا ہے، جس کی طلب عوام کے اندر رہے۔ حکمران اپنے آپ کو عوامی نمائندہ سمجھنے کے بجائے کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت، گروہ یا کسی ایک ملکی ادارے کا جانشین سمجھے بیٹھے ہیں۔ اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے 'استعمال' کیا جانے لگا ہے۔ مخالف سیاسی و صحافتی آواز کو بزرو دبایا جانے لگا ہے۔ آئین پر اپنی خودساختہ تشریح تھوپ کر اسے ذاتی انا کی تسکین کےلیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ آئین کی ردوقدح کو پس پردہ ڈال کر اپنے مقاصد کے حصول کےلیے ذاتی خوبیاں اور محاسن بیان کیے جارہے ہیں۔

آئین پاکستان میں آمریت مطلق طرز حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان کسی ایک شخصیت، ادارے یا جماعت کی ملکیت نہیں کہ وہ اپنی مرضی کرے۔ یہ ارض پاک اس میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کی برابر ملکیت ہے۔ یہاں صرف عوام اور آئین کی بالادستی کے بندوبست کی ضرورت ہے۔

اس لیے ارضِ پاک کا نظام جمہوریت سے آمریت کے مذبح خانہ کی صورت میں ڈھلنے کے بجائے شورائی نظام اور عوام کی بالادستی کے تحفظ و تقدس کےلیے آواز اٹھائی جائے۔ کسی بھی سیاسی، ادبی اور صحافتی آواز جو اختلاف کی جساست کرے اس کو بدعنوان، غدار اور کافر کا خطاب دے کر راستے سے ہٹانے کے بجائے برداشت، رواداری اور جمہوری سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔ موجودہ پاکستان کو شدید سیاسی، معاشی، اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ اس مشکل وقت میں تمام اپوزیشن وحکومتی جماعتوں بالعموم اور پنڈی کی باسی مقتدر قوتوں کو بالخصوص ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں