امریکن ایمبیسی میں بھٹو سے آمنا سامنا
امریکن ایمبیسی میں ذوالفقار علی بھٹو مجھے دیکھ کر ایک دم برہم ہوگئے، شیخ رشید
تھوڑے دنوں کے بعد ایک سپیشل پیغام رساں میرے گھر آیا اور امریکن ایمبیسی کی طرف سے 4 جولائی کو امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔
ابھی تک میرے پاس وہی فلپس کی سائیکل تھی تیزی سے پیڈل مارتا ہوا امریکن ایمبیسی پہنچ گیا۔ آج بھی مجھے یاد ہے کہ چودھری افتخار جس کا تعلق آئی بی سے تھا، گیٹ پر کھڑا تھا مجھ سے پوچھا کیسے آئے ہو، میں نے کہا کہ دعوت نامہ دے کر بلایا ہے۔ اس نے اپنے پاس موجود لسٹ دیکھی حیران ہوکر کہا کہ ہاں آپ کا نام مہمانوں کی لسٹ میں موجود ہے، لیکن یہاں سائیکل اسٹینڈ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ میرے سادہ کپڑے والے آدمی کو دے دو۔ واپسی پر لے لینا۔ سائیکل پر آنے کے باعث ے دیر ہوگئی تھی جس کی وجہ سے تمام اہم مہمان اندر پہنچ چکے تھے۔
جونہی اندر داخل ہوا تو ایک جانب ولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی اپوزیشن کے دوسرے لیڈر موجود تھے اور سامنے ہی ذوالفقار علی بھٹو کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر ایک دم برہم ہوگئے۔ میری طرف بڑھے اور کہا ''قومی بدمعاش'' بھٹو نے میرا یہ نام پتہ نہیں کس سوچ سے رکھا۔ بعد میں کئی دفعہ بھٹو نے میرے نام کے ساتھ ''قومی بدمعاش'' کے الفاظ استعمال کیے۔ تمام مہمان بھٹو کی اس تبدیلی کو محسوس کررہے تھے۔ میرے قریب آکر کہنے لگے۔ ''اس دن لیاقت باغ میں میں نے تمہیں بچایا ہے ورنہ لوگ تمہارا قیمہ بنا دیئے۔'' پھر ایک دم بولے تم کیا سمجھتے ہو کہ ایوب خان کو تم نے اتارا ہے یا بھٹو نے اتارا ہے۔
''نہیں نہیں'' کان کھول کر سن لو ایوب خان کو گوہر ایوب اور اختر ایوب نے اتارا ہے ساتھ ہی مجھ سے پوچھا تم نے بی اے کرلیا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی نہیں۔ انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری کوکہا کہ ''قومی بدمعاش'' کو گورڈن کالج سے نکالنا مشکل ہوجائے گا اور بعد میں انہوں نے گورڈن کالج کے بارے میں متعدد جلسوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اب قوم کے مسائل گورڈن کالج کے ہوسٹل میں طے ہوتے ہیں۔ میں نے بھٹو کی باتیں سنی ان سنی کردیں۔ تقریب کے بعد اپنی سائیکل لی اور پیڈل مارتے ہوئے کوچوان کے گھوڑے کی طرح خراماں خراماں اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔
(آپ بیتی ''فرزند ِ پاکستان'' سے اقتباس)
ابھی تک میرے پاس وہی فلپس کی سائیکل تھی تیزی سے پیڈل مارتا ہوا امریکن ایمبیسی پہنچ گیا۔ آج بھی مجھے یاد ہے کہ چودھری افتخار جس کا تعلق آئی بی سے تھا، گیٹ پر کھڑا تھا مجھ سے پوچھا کیسے آئے ہو، میں نے کہا کہ دعوت نامہ دے کر بلایا ہے۔ اس نے اپنے پاس موجود لسٹ دیکھی حیران ہوکر کہا کہ ہاں آپ کا نام مہمانوں کی لسٹ میں موجود ہے، لیکن یہاں سائیکل اسٹینڈ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ میرے سادہ کپڑے والے آدمی کو دے دو۔ واپسی پر لے لینا۔ سائیکل پر آنے کے باعث ے دیر ہوگئی تھی جس کی وجہ سے تمام اہم مہمان اندر پہنچ چکے تھے۔
جونہی اندر داخل ہوا تو ایک جانب ولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی اپوزیشن کے دوسرے لیڈر موجود تھے اور سامنے ہی ذوالفقار علی بھٹو کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر ایک دم برہم ہوگئے۔ میری طرف بڑھے اور کہا ''قومی بدمعاش'' بھٹو نے میرا یہ نام پتہ نہیں کس سوچ سے رکھا۔ بعد میں کئی دفعہ بھٹو نے میرے نام کے ساتھ ''قومی بدمعاش'' کے الفاظ استعمال کیے۔ تمام مہمان بھٹو کی اس تبدیلی کو محسوس کررہے تھے۔ میرے قریب آکر کہنے لگے۔ ''اس دن لیاقت باغ میں میں نے تمہیں بچایا ہے ورنہ لوگ تمہارا قیمہ بنا دیئے۔'' پھر ایک دم بولے تم کیا سمجھتے ہو کہ ایوب خان کو تم نے اتارا ہے یا بھٹو نے اتارا ہے۔
''نہیں نہیں'' کان کھول کر سن لو ایوب خان کو گوہر ایوب اور اختر ایوب نے اتارا ہے ساتھ ہی مجھ سے پوچھا تم نے بی اے کرلیا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی نہیں۔ انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری کوکہا کہ ''قومی بدمعاش'' کو گورڈن کالج سے نکالنا مشکل ہوجائے گا اور بعد میں انہوں نے گورڈن کالج کے بارے میں متعدد جلسوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اب قوم کے مسائل گورڈن کالج کے ہوسٹل میں طے ہوتے ہیں۔ میں نے بھٹو کی باتیں سنی ان سنی کردیں۔ تقریب کے بعد اپنی سائیکل لی اور پیڈل مارتے ہوئے کوچوان کے گھوڑے کی طرح خراماں خراماں اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔
(آپ بیتی ''فرزند ِ پاکستان'' سے اقتباس)