بھارت کی ایک اور شرارت
لداخ کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنا دیا گیا جس کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہو گی
بھارتی حکومت نے روایتی ہٹ دھرمی اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا اپنی مرضی کے مطابق نیا نقشہ جاری کر دیا ہے جس میں آزاد کشمیر کے تین اضلاع مظفر آباد' پونچھ اور میر پور کے علاوہ گلگت بلتستان کے تین علاقوں اور قبائلی علاقے کو بھارتی یونین کے علاقے میں ظاہر کیا گیا ہے جب کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس نقشے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان ان سیاسی نقشوں کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے نقشوں سے متضاد ہیں۔
ہندوستان کا کوئی بھی قدم اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ جموں و کشمیر کی ''متنازعہ'' حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا' نئی دہلی کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی ہے' حکومت ہند مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو غصب نہیں کر سکتی' پاکستان مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت کرتا رہے گا۔
امسال اگست کے آغاز میں ایسی خبریں منظرعام پر آئیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بھارتی قانونی ماہرین نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جس کے تحت پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع کسی بھی ریاست کی سرحدیں تبدیل کی جا سکتی ہیں جب کہ پاکستانی قانونی ماہرین نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام بین الاقوامی قانون اور یہاں تک کہ بھارتی آئین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو تقسیم کرنے اور نئی سرحدیں بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ہے۔
آرٹیکل35-A کے برعکس آرٹیکل370 آئین کا باضابطہ حصہ ہے اور ریاست کو خود مختارانہ حیثیت دیتا ہے جب کہ آرٹیکل 35-A آئین میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا جو ریاستی اسمبلی کو ریاست کے مستقل رہائشیوں کا تعین کرنے کی اجازت دیتا ہے اور انھیں خصوصی حقوق اور مراعات دیتا ہے۔ ابھی یہ خبریں موضوع بحث تھیں کہ 5اگست کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختاری اور خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں وفاقی علاقہ کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا' لداخ کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنا دیا گیا جس کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہو گی۔
اس اقدام کے بعد بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے وہاں کرفیو نافذ کر دیا جسے اب تک ہٹایا نہیں گیا۔ کرفیو کو نافذ ہوئے اتنے دن گزرنے کے باعث وہاں کے عوام کو خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے' مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔ بھارت کے اس جارحانہ اقدام نے پاکستان میں ہل چل مچا دی، اس نے بھارت کے اس اقدام کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں دنیا کو بھارت کے ظالمانہ اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بھرپور مہم چلائی۔
جس سے یہ امید پیدا ہونے لگی کہ اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں بھارت پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالیں گی لیکن افسوس اب تک ایسی کوئی صورت سامنے نہیں آئی جس سے بھارت کی حکومت کو مزید ہلہ شیری ملی اور اسے یہ پیغام ملا کہ دنیا اس کی جارحیت پر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ جس پر اب اس نے ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا من چاہا نقشہ جاری کر دیا ہے جس میں اس نے گلگت بلتستان کے علاوہ آزاد جموں کشمیر کے کچھ حصے بھی شامل کرنے کی بھونڈی کوشش اور شرارت کی ہے۔ یہ اقدام اس کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے۔
اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات پر قطعی آمادہ نہیں اور اس نے اپنے تئیں مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرتے ہوئے بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ بھارت کے اس جارحانہ اقدام کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب تک مسئلہ کشمیر پرامن طریقے سے حل نہیں ہوتا خطے میں جنم لینے والی چپقلش کے باعث جنگی ماحول کے بادل چھائے رہیں گے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا اس معاملے میں بے حسی کا رویہ قابل افسوس ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی بھی کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ اس خطے کو کسی ممکنہ جنگ سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو صرف نظری کا رویہ ترک کر کے موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔
ہندوستان کا کوئی بھی قدم اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ جموں و کشمیر کی ''متنازعہ'' حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا' نئی دہلی کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی ہے' حکومت ہند مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو غصب نہیں کر سکتی' پاکستان مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت کرتا رہے گا۔
امسال اگست کے آغاز میں ایسی خبریں منظرعام پر آئیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بھارتی قانونی ماہرین نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جس کے تحت پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع کسی بھی ریاست کی سرحدیں تبدیل کی جا سکتی ہیں جب کہ پاکستانی قانونی ماہرین نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام بین الاقوامی قانون اور یہاں تک کہ بھارتی آئین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو تقسیم کرنے اور نئی سرحدیں بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ہے۔
آرٹیکل35-A کے برعکس آرٹیکل370 آئین کا باضابطہ حصہ ہے اور ریاست کو خود مختارانہ حیثیت دیتا ہے جب کہ آرٹیکل 35-A آئین میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا جو ریاستی اسمبلی کو ریاست کے مستقل رہائشیوں کا تعین کرنے کی اجازت دیتا ہے اور انھیں خصوصی حقوق اور مراعات دیتا ہے۔ ابھی یہ خبریں موضوع بحث تھیں کہ 5اگست کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختاری اور خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں وفاقی علاقہ کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا' لداخ کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنا دیا گیا جس کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہو گی۔
اس اقدام کے بعد بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے وہاں کرفیو نافذ کر دیا جسے اب تک ہٹایا نہیں گیا۔ کرفیو کو نافذ ہوئے اتنے دن گزرنے کے باعث وہاں کے عوام کو خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے' مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔ بھارت کے اس جارحانہ اقدام نے پاکستان میں ہل چل مچا دی، اس نے بھارت کے اس اقدام کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں دنیا کو بھارت کے ظالمانہ اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بھرپور مہم چلائی۔
جس سے یہ امید پیدا ہونے لگی کہ اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں بھارت پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالیں گی لیکن افسوس اب تک ایسی کوئی صورت سامنے نہیں آئی جس سے بھارت کی حکومت کو مزید ہلہ شیری ملی اور اسے یہ پیغام ملا کہ دنیا اس کی جارحیت پر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ جس پر اب اس نے ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا من چاہا نقشہ جاری کر دیا ہے جس میں اس نے گلگت بلتستان کے علاوہ آزاد جموں کشمیر کے کچھ حصے بھی شامل کرنے کی بھونڈی کوشش اور شرارت کی ہے۔ یہ اقدام اس کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے۔
اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات پر قطعی آمادہ نہیں اور اس نے اپنے تئیں مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرتے ہوئے بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ بھارت کے اس جارحانہ اقدام کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب تک مسئلہ کشمیر پرامن طریقے سے حل نہیں ہوتا خطے میں جنم لینے والی چپقلش کے باعث جنگی ماحول کے بادل چھائے رہیں گے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا اس معاملے میں بے حسی کا رویہ قابل افسوس ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی بھی کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ اس خطے کو کسی ممکنہ جنگ سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو صرف نظری کا رویہ ترک کر کے موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔