کھیل ’ملاکھڑا‘ سرکاری سرپرستی نہ ہونے سے معدومیت کے خطرے سے دوچار
طاقت، داؤ ، حوصلے کا کھیل زمانہ قبل از تاریخ سے سندھ کے لوگوں کی دلچسپی سمیٹے ہوئے ہے
سندھ کا قدیم کھیل ملاکھڑا آج بھی دیہی آبادی کیلیے تفریح طبع کا ذریعہ ہے لیکن سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے قدیم کھیل کے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
طاقت، داؤ اور حوصلے کا کھیل زمانہ قبل از تاریخ سے یہاں لوگوں کی دلچسپی سمیٹے ہوئے ہے۔ کشتی کا کھیل مختلف اشکال میں دنیابھر کے کئی ممالک میں صدیوں سے کھیلا جارہاہے۔
صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے کنارے پر ملاکھڑا کی جگہ کوئی کھیل نہیں لے سکا، مقامی باشندے اس کھیل کو شیروں کی جنگ کے طورپر پکارتے ہیں۔ ملاکھڑاکے مقابلے میں کشتی کی طرح 2پہلوان آمنے سامنے ہوتے ہیںجو ایک دوسرے کو زمین پر گرانے کی کوشش کرتے ہیں، پرپہلوان کی کمر پر کپڑے کو بل دے کر باندھ دیاجاتا ہے جس کو پکڑ کے حریف اپنے مقابل کو زمین پر گرانے کی کوشش کرتاہے۔
سندھ کے ہرگاؤں سے لوگ ملاکھڑا میں حصہ لیتے ہیں چھوٹے پیمانے پر یہ مقابلے سارا سال جاری رہتے ہیں۔ کھیل کی تاریخی اہمیت اور لوگوں کی تفریح طبع کیلیے موقع ہونے کے باوجود ملاکھڑاکی سرگرمیاں کم ہوتی جارہی ہیں ماضی میں ملاکھڑاکی سرگرمیاں سال بھر جاری رہتی تھیں لیکن اب یہ صرف شاہ لطیف، سچل سرمست، لعل شہباز قلندر کے عرس تقریبات تک محدود ہوچکی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے سابق پروفیسرالطاف عظیم کا کہناتھاکہ سندھ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو شطرنج، بیلوں کی دوڑ اورملاکھڑاکا تذکرہ ملتاہے، ملاکھڑا اپنی آب و تاب کھوتا جارہاہے جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ محکمہ ثقافت نے اس کھیل کو زندہ رکھنے کیلیے کچھ نہیں کیا۔
طاقت، داؤ اور حوصلے کا کھیل زمانہ قبل از تاریخ سے یہاں لوگوں کی دلچسپی سمیٹے ہوئے ہے۔ کشتی کا کھیل مختلف اشکال میں دنیابھر کے کئی ممالک میں صدیوں سے کھیلا جارہاہے۔
صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے کنارے پر ملاکھڑا کی جگہ کوئی کھیل نہیں لے سکا، مقامی باشندے اس کھیل کو شیروں کی جنگ کے طورپر پکارتے ہیں۔ ملاکھڑاکے مقابلے میں کشتی کی طرح 2پہلوان آمنے سامنے ہوتے ہیںجو ایک دوسرے کو زمین پر گرانے کی کوشش کرتے ہیں، پرپہلوان کی کمر پر کپڑے کو بل دے کر باندھ دیاجاتا ہے جس کو پکڑ کے حریف اپنے مقابل کو زمین پر گرانے کی کوشش کرتاہے۔
سندھ کے ہرگاؤں سے لوگ ملاکھڑا میں حصہ لیتے ہیں چھوٹے پیمانے پر یہ مقابلے سارا سال جاری رہتے ہیں۔ کھیل کی تاریخی اہمیت اور لوگوں کی تفریح طبع کیلیے موقع ہونے کے باوجود ملاکھڑاکی سرگرمیاں کم ہوتی جارہی ہیں ماضی میں ملاکھڑاکی سرگرمیاں سال بھر جاری رہتی تھیں لیکن اب یہ صرف شاہ لطیف، سچل سرمست، لعل شہباز قلندر کے عرس تقریبات تک محدود ہوچکی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے سابق پروفیسرالطاف عظیم کا کہناتھاکہ سندھ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو شطرنج، بیلوں کی دوڑ اورملاکھڑاکا تذکرہ ملتاہے، ملاکھڑا اپنی آب و تاب کھوتا جارہاہے جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ محکمہ ثقافت نے اس کھیل کو زندہ رکھنے کیلیے کچھ نہیں کیا۔