بیٹے تنخواہیں اوراضافے
یوں تو مجھے امریکا آئے صرف مہینہ ہوا ہے مگر اس عرصے میںمیرے پیارے وطن میںجو ''ہزار داستانیں'' رقم ہوئیں ایسا ہونا دوسری دنیا میں ناممکن ہے۔تقریباً ایک مہینے میں واقعات تیز رفتاری سے نمودار ہوئے، پھر کسی ان دیکھے ''بلیک ہول'' میںغرق ہوتے رہے۔ یوں لگا سب کچھ موہنجو داڑو کی تاریخ سے پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔ واقعات کے نمودار ہونے سے لے کر انھیں بھولی داستانیں اور تاریخ بنانے کا سہرا ہمارے آزاد میڈیا کے سر ہے۔ جونہی کوئی وقوعہ نمودار ہوتا ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غازی اور پراسرار اینکر پرسنز اسے یوں رگڑتے کہ پرانے نلکے کی طرح اس میںسے ''ریت '' آنا شروع ہو جاتی۔ ذرا اپنی یادداشت کو زحمت دیجئے کہ یوسف رضا گیلانی کونسی صدی میںہمارے وزیراعظم رہے؟کب وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، کب ان کے خلاف فیصلہ آیا اور کب وہ الیکٹرانک میڈیا کے لیے ''سند باد کا آخری سفر'' بن گئے۔ عدلیہ کے حوالے سے حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والی ''اُم الداستان'' کو تو میڈیا کے کہنہ مشقوں نے ''شارٹ افسانہ'' بنا کر کسی بہت اونچی پرچھتی پر رکھ دیا۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ایک عدد جز وقتی '' بلی'' چڑھا کر اسی کھیل کو دوبارہ شروع کر دیا گیا۔
ان دنوں پنجاب میں سورج آگ برسا رہا ہے مگر لوڈشیڈنگ اسے سوا نیزے پر لے آئی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی ذمے دار چونکہ وفاقی حکومت ہے اس لیے خادم اعلیٰ نے مناسب جانا کہ احتجاجی تحریک کی قیادت کا ملامتی خیمہ لگایا جائے۔ مخالفین کچھ بھی کہیں خادم اعلیٰ کے یوں خیمہ بازی کرنے سے لوڈشیڈنگ کے محاذ پر پیپلز پارٹی کی حکومت لاجواب ضرور ہوئی ہے۔ لاجواب ہونے کا عملی مظاہرہ لوڈشیڈنگ ''فیم'' وزیرا عظم بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یاد آ جاتا ہے کہ ہمارے اندھیروںکے ذمے دار اکلوتے راجہ صاحب ہیں حالانکہ راجہ صاحب کا قصور صرف اتنا ہے کہ جن دنوں موصوف بجلی کے وزیر ہوا کرتے تھے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی غلط تاریخ دے بیٹھے تھے۔ ہماری تاریخ میںخیمہ لگانا ظلم کے خلاف اعلان جنگ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ خادم اعلیٰ نے وفاقی حکومت کے خلاف خم ٹھونک لیا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال نے گُڈ گورننس کا تمبو ہی پھاڑ دیا۔ رحمن ملک نے کہا ہے کہ خادم اعلیٰ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تو ہڑتالیں کراتے ہیں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کی قیادت کر کے بھی اپنا شوق پورا کریں۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث بھی 30 سے زائد غریب لقمہ اجل بن گئے۔ ایک طویل عرصہ سے وطن عزیز میں ''فائیو اسٹارز اسپتال '' بھی موجود ہیں جہاں حسب توفیق دبئی، برطانیہ اور امریکا جیسے علاج معالجہ کی سہولتیں دستیاب ہیں مگر ہمارے حکمران چیک اپ کے لیے انھی ممالک کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہمارے کون،کون رہنما اپنی تسلی بخش ''اوور ہالنگ '' کے لیے کن، کن ممالک میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ایک طرف حکمرانوںکو دنیا کا مہنگا اور جدید ترین علاج دستیاب ہے دوسری طرف غریب عوام کو اپنے ملک کے مسیحا بھی میسر نہیںہیں اور وہ ڈاکٹروں کی ہڑتال اورپنجاب حکومت کی ''اہلیت'' کے بھینٹ چڑھ گئے۔ جن 30 بدنصیبوں کو زیادہ سے زیادہ عوام کی کیٹیگری میں ہی رکھا جاسکتا ہے ان کے '' قتل'' کی ایف آئی آر کس کے خلاف کاٹی گئی؟ اس ملک کے خا ک نشینوںکا مقدمہ فیض نے یوں بیان کیا تھا کہ:
نہ مدعی، نہ عدالت حساب صاف ہوا
یہ خون ِخاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
بجلی کا مسئلہ تو تمام حکمرانوںکی طرف سے مسلسل اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ مفروضہ نہیں ہے کہ بجلی کی قلت کو بحران کی شکل دینے کی ذمے داری ہمارے نجات دہندہ اورچِٹ کپڑئیے المعروف جمہوری حکمرانوں کے کندھوں پر ہے۔ گذشتہ 30 سال میں پاکستان میںآبادی میں اندھا دھند اضافے کے ساتھ، ساتھ لوگوںکا لائف اسٹائل بھی یکسر بدل گیا ہے۔ اسپلٹ یونٹ اے سی، الگ الگ بیڈ روم اور اٹیچ باتھ کلچر نے جہاںگھر کے افراد میں پرائیویسی کے ''شعور'' کو بیدار کیا وہاں بجلی کا مصرف کئی سو گنا بڑھ گیا۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل فون کی تعداد13 کروڑ 10 لاکھ بیان کی گئی ہے۔ اتنی تعداد میں موبائل چارج کرنے کے لیے اگر برق کا ایک، ایک قطرہ بھی چاہیے ہو تو ہماری ضرورت روزانہ بجلی کا ایک عدد ٹھاٹھیں مارتا دریا ہے۔ لیکن ہمارے دریا تو صحرا بن چکے ہیں جس کا ذمے دار بھارت ہے، مزید یہ کہ بھارت اور ہمارے درمیان حق وباطل کا طویل ''ٹورنامنٹ'' بھی جاری ہے۔ جسکے تحت دونوں ممالک کبھی 'ممبئی اٹیک' اور کبھی'سمجھوتہ ایکسپریس' کی شکل میں ''ففٹی'' بناتے رہتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ینگ ڈاکٹروں کے لیے مشروط معافی کا اعلان خوش کن ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا یہ سب غریب مریضوں کے مرنے سے پہلے کر لیا جاتا۔ ایک دوست نے کہا کہ ہمارا وطن بھی عجیب ہے جہاں مسجد یعنی اﷲ کے گھر کے تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ تعلیم دینے کی ذمے داری غیر ملکی امداد اور این جی اوز کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے اورعلاج معالجہ کے لیے خیرات اور زکوۃ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حکمران طبقے کی طرف سے قومی اوردفاعی ترجیحات سے لدے پھدے بجٹوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوںکے لیے مجموعی طور پر 2 سے 4 فیصد دان کرنے سے رعایا کے حالات کس قدر بہتر ہو سکتے ہیں؟ غریب عوام کے ساتھ، ساتھ صحت کے شعبہ کا اسٹیک ہولڈر ڈاکٹر بھی ہے جسے معاشی آسودگی میسر نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اختیارات، دولت اور سماجی مراتب کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ ان سے تھوڑا پڑھے لکھے، کم قابل اور غیر محنتی طبقات معاشرے میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر کی ڈگری کا حصول مشکل ترین ہے ہمارے ہاں سرکاری نوکری میں اس کی ترقی کا مرحلہ بھی مشکل ترین ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں قانون سازی کی ضرورت ہے جسے بلاتاخیر کرنا چاہیے۔
ینگ ڈاکٹروں کے نمایندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے بیٹوں پرمشتمل ''ینگ سنز الیون ٹیم '' جس میںحمزہ شہباز،موسیٰ گیلانی، عبدالقادر گیلانی،مونس الہی، ڈاکٹر ارسلان چوہدری اوربلاول بھٹو زرداری سمیت دوسرے بیٹے شامل ہیں۔متذکرہ بیٹوں کے ساتھ،ساتھ قوم کے دوسرے بیٹوںکو بھی ترقی کے یکساں مواقع اورمعاشی آسودگی میسر ہونی چاہیے۔ ایمانداری اورسچائی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت اورکاروبار حکومت سے لے کرریاستی اداروں میں عوامی طاقت اوردفاعی معروضی حالات کے باعث بحالیاں اورایکسٹینشنز کی روشن مثالیں بھی موجود ہیں۔ جب ہمارے یہ محب اوربڑے عوامی خدمت کے '' ادھورے منصوبوں '' کومکمل کرنے کے لیے ہیٹرک کرنا ضروری خیال کرتے ہیںتو ینگ ڈاکٹرزجو دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیںانکی پاکستانی تنخواہوں میں ''یو اے ای'' ٹائپ اضافہ کرنے میںکوئی ہرج نہیں۔
ان دنوں پنجاب میں سورج آگ برسا رہا ہے مگر لوڈشیڈنگ اسے سوا نیزے پر لے آئی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی ذمے دار چونکہ وفاقی حکومت ہے اس لیے خادم اعلیٰ نے مناسب جانا کہ احتجاجی تحریک کی قیادت کا ملامتی خیمہ لگایا جائے۔ مخالفین کچھ بھی کہیں خادم اعلیٰ کے یوں خیمہ بازی کرنے سے لوڈشیڈنگ کے محاذ پر پیپلز پارٹی کی حکومت لاجواب ضرور ہوئی ہے۔ لاجواب ہونے کا عملی مظاہرہ لوڈشیڈنگ ''فیم'' وزیرا عظم بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یاد آ جاتا ہے کہ ہمارے اندھیروںکے ذمے دار اکلوتے راجہ صاحب ہیں حالانکہ راجہ صاحب کا قصور صرف اتنا ہے کہ جن دنوں موصوف بجلی کے وزیر ہوا کرتے تھے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی غلط تاریخ دے بیٹھے تھے۔ ہماری تاریخ میںخیمہ لگانا ظلم کے خلاف اعلان جنگ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ خادم اعلیٰ نے وفاقی حکومت کے خلاف خم ٹھونک لیا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال نے گُڈ گورننس کا تمبو ہی پھاڑ دیا۔ رحمن ملک نے کہا ہے کہ خادم اعلیٰ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تو ہڑتالیں کراتے ہیں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کی قیادت کر کے بھی اپنا شوق پورا کریں۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث بھی 30 سے زائد غریب لقمہ اجل بن گئے۔ ایک طویل عرصہ سے وطن عزیز میں ''فائیو اسٹارز اسپتال '' بھی موجود ہیں جہاں حسب توفیق دبئی، برطانیہ اور امریکا جیسے علاج معالجہ کی سہولتیں دستیاب ہیں مگر ہمارے حکمران چیک اپ کے لیے انھی ممالک کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہمارے کون،کون رہنما اپنی تسلی بخش ''اوور ہالنگ '' کے لیے کن، کن ممالک میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ایک طرف حکمرانوںکو دنیا کا مہنگا اور جدید ترین علاج دستیاب ہے دوسری طرف غریب عوام کو اپنے ملک کے مسیحا بھی میسر نہیںہیں اور وہ ڈاکٹروں کی ہڑتال اورپنجاب حکومت کی ''اہلیت'' کے بھینٹ چڑھ گئے۔ جن 30 بدنصیبوں کو زیادہ سے زیادہ عوام کی کیٹیگری میں ہی رکھا جاسکتا ہے ان کے '' قتل'' کی ایف آئی آر کس کے خلاف کاٹی گئی؟ اس ملک کے خا ک نشینوںکا مقدمہ فیض نے یوں بیان کیا تھا کہ:
نہ مدعی، نہ عدالت حساب صاف ہوا
یہ خون ِخاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
بجلی کا مسئلہ تو تمام حکمرانوںکی طرف سے مسلسل اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ مفروضہ نہیں ہے کہ بجلی کی قلت کو بحران کی شکل دینے کی ذمے داری ہمارے نجات دہندہ اورچِٹ کپڑئیے المعروف جمہوری حکمرانوں کے کندھوں پر ہے۔ گذشتہ 30 سال میں پاکستان میںآبادی میں اندھا دھند اضافے کے ساتھ، ساتھ لوگوںکا لائف اسٹائل بھی یکسر بدل گیا ہے۔ اسپلٹ یونٹ اے سی، الگ الگ بیڈ روم اور اٹیچ باتھ کلچر نے جہاںگھر کے افراد میں پرائیویسی کے ''شعور'' کو بیدار کیا وہاں بجلی کا مصرف کئی سو گنا بڑھ گیا۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل فون کی تعداد13 کروڑ 10 لاکھ بیان کی گئی ہے۔ اتنی تعداد میں موبائل چارج کرنے کے لیے اگر برق کا ایک، ایک قطرہ بھی چاہیے ہو تو ہماری ضرورت روزانہ بجلی کا ایک عدد ٹھاٹھیں مارتا دریا ہے۔ لیکن ہمارے دریا تو صحرا بن چکے ہیں جس کا ذمے دار بھارت ہے، مزید یہ کہ بھارت اور ہمارے درمیان حق وباطل کا طویل ''ٹورنامنٹ'' بھی جاری ہے۔ جسکے تحت دونوں ممالک کبھی 'ممبئی اٹیک' اور کبھی'سمجھوتہ ایکسپریس' کی شکل میں ''ففٹی'' بناتے رہتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ینگ ڈاکٹروں کے لیے مشروط معافی کا اعلان خوش کن ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا یہ سب غریب مریضوں کے مرنے سے پہلے کر لیا جاتا۔ ایک دوست نے کہا کہ ہمارا وطن بھی عجیب ہے جہاں مسجد یعنی اﷲ کے گھر کے تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ تعلیم دینے کی ذمے داری غیر ملکی امداد اور این جی اوز کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے اورعلاج معالجہ کے لیے خیرات اور زکوۃ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حکمران طبقے کی طرف سے قومی اوردفاعی ترجیحات سے لدے پھدے بجٹوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوںکے لیے مجموعی طور پر 2 سے 4 فیصد دان کرنے سے رعایا کے حالات کس قدر بہتر ہو سکتے ہیں؟ غریب عوام کے ساتھ، ساتھ صحت کے شعبہ کا اسٹیک ہولڈر ڈاکٹر بھی ہے جسے معاشی آسودگی میسر نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اختیارات، دولت اور سماجی مراتب کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ ان سے تھوڑا پڑھے لکھے، کم قابل اور غیر محنتی طبقات معاشرے میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر کی ڈگری کا حصول مشکل ترین ہے ہمارے ہاں سرکاری نوکری میں اس کی ترقی کا مرحلہ بھی مشکل ترین ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں قانون سازی کی ضرورت ہے جسے بلاتاخیر کرنا چاہیے۔
ینگ ڈاکٹروں کے نمایندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے بیٹوں پرمشتمل ''ینگ سنز الیون ٹیم '' جس میںحمزہ شہباز،موسیٰ گیلانی، عبدالقادر گیلانی،مونس الہی، ڈاکٹر ارسلان چوہدری اوربلاول بھٹو زرداری سمیت دوسرے بیٹے شامل ہیں۔متذکرہ بیٹوں کے ساتھ،ساتھ قوم کے دوسرے بیٹوںکو بھی ترقی کے یکساں مواقع اورمعاشی آسودگی میسر ہونی چاہیے۔ ایمانداری اورسچائی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت اورکاروبار حکومت سے لے کرریاستی اداروں میں عوامی طاقت اوردفاعی معروضی حالات کے باعث بحالیاں اورایکسٹینشنز کی روشن مثالیں بھی موجود ہیں۔ جب ہمارے یہ محب اوربڑے عوامی خدمت کے '' ادھورے منصوبوں '' کومکمل کرنے کے لیے ہیٹرک کرنا ضروری خیال کرتے ہیںتو ینگ ڈاکٹرزجو دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیںانکی پاکستانی تنخواہوں میں ''یو اے ای'' ٹائپ اضافہ کرنے میںکوئی ہرج نہیں۔