بلاول بھٹو کے خطاب سے مستقبل کے عزائم آشکارہونا شروع
قائدین قومی اسمبلی بھیج کر باقاعدہ پارلیمانی وسیاسی تربیت دلوانے کے خواہاں
سانحہ کارسازکے 6سال مکمل ہونے پرشہدائے کارسازکی یاد میں منعقدہ تقریب کے موقع پرپاکستان پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کے جوشیلے خطاب سے ان کی ذاتی، خاندانی وسیاسی مجبوریاں اور مستقبل کے عزائم آشکارہوناشروع ہوگئے ہیں۔
بلاول کی تقریرپرتبصرہ کرنیوالوں کوانکی ذاتی،انکے والد محترم سابق صدرآصف علی زرداری اورانکی سیاسی پارٹی کے ہمہ جہت مسائل بھی ملحوظِ خاطررکھناچاہئیں،بلاول بھٹوزداری نوجوان ہیں،جذباتی تقریرتووہ کرینگے۔سیاست میں نووارد بلکہ عملی سیاست کے ابھی طالبعلم ہیں انکی باتوںمیں ناپختگی بھی ہوگی۔بعض میڈیارپورٹس سے بھی یہ تاثرعام ہے کہ بلاول اوربختاورکے مقابلے میں آصفہ بھٹو زرداری سیاسی طورپرزیادہ میچورہیں، اس تاثرکابھی بلاول کے ذہن پرایک پریشر ہے۔ بلاول کواردوبھی صحیح پڑھنانہیں آتی،وہ رومن اردومیں لکھی تقریرکرتے ہیں۔ انھیں اردوکے لفظ کی حقیقی گہرائی کابھی صحیح طورپراندازہ نہیں۔بلاول بھٹوزرداری کا اسپیچ رائٹربھی اس ساری صورت حال سے قطع نظرجذباتی تقریریں لکھے جارہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین اس بات پربھی سنجیدگی سے غورکررہے ہیں کہ لاڑکانہ کے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے منتخب ہونیوالے ایازسومروسے استعفیٰ دلواکربلاول بھٹو زرداری کوضمنی انتخابات میں اس حلقے سے الیکشن جتواکرقومی اسمبلی بھیجاجائے جہاںوہ باقاعدہ پارلیمانی وسیاسی تربیت حاصل کرسکیں جبکہ اس آئیڈیاکے مخالفین بعض پارٹی رہنماؤں کاکہناہے کہ بلاول بھٹو زرداری کوآئندہ عام انتخابات سے قبل عملی طورپرسیاست میں لانچ نہ کیاجائے۔ بے نظیر بھٹوکابیٹا ہونے کا سیاسی ایڈوانٹیج ایک حلقے کی بجائے پورے پاکستان کے حلقوں سے حاصل کرکے آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کومکمل طورپرسیاسی فائدہ پہنچایاجائے۔ دوسری جانب بلاول کے والد آصف علی زرداری کے اپنے بے شمارمسائل ہیں۔
9ستمبرسے قبل انھیں بحیثیت صدرجواستثنیٰ حاصل تھااب وہ نہیں رہا، ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے کیسزکسی بھی وقت کسی نہ کسی شکل میں کھولے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں اپنی ذات کے حوالے سے وہ حاصل کردہ اچھاتاثربھی بچانامشکل ہوجائے گاجوایوان صدر سے رخصتی کے وقت ان کی خدمات کے اعتراف کے طورپر قائم ہوا۔ انھیں اپنی آئندہ نسل کوبھی سیاسی اعتبارسے حالات کامقابلہ کرنے کے لیے تیارکرناہے۔
میڈیارپورٹس کے نتیجے میں قائم ہونے والایہ تاثربھی ان کے ذہن میں ہے کہ بلاول اور بختاوراچھے خاصے موڈی اورمن موجی ہیں جبکہ ان کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹوزراری قدرے سمجھداراورسیاسی طورپر زیادہ میچوراورذمے دارہیں ہیں،اس لیے گزشتہ دورحکومت میں انھوں نے آصفہ کوپولیوکے خاتمے کی حکومتی وبین الاقوامی کوششوں کے لیے خصوصی سفیرمقررکیاتھا اور انھوں نے اپنی ذمے داریاں بطریق احسن سرانجام دیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری کے لیے یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ان کی پارٹی کی سیاسی ساکھ صوبہ سندھ کے علاوہ دیگرتمام صوبوں میں بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔
آبادی اورووٹروں کے حساب سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے صدرمیاں منظوروٹونے انھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑاکہ وہ اپنی پارٹی کے اندرآپریشن کلین آپ کئے بغیرسیاسی جدوجہد کاآغازکرسکیں۔ آزاد کشمیر اورگلگت وبلتستان کی اسمبلیوںمیں انہیں اکثریت حاصل ہے اوربظاہران کی حکومتیں بھی قائم ہیں مگریہ دونوں حکومتیں اتنی کمزورہیں کہ جس روزوزیراعظم نوازشریف یاان کی مسلم لیگ (ن) کے کسی مرکزی قائد نے اس طرف غورسے دیکھا تو یہ دھڑام سے نیچے آگریں گی۔
آزادکشمیرمیں تومحترمہ فریال تالپور کے مبینہ احکامات کے نتیجے میں وزیراعظم آزادکشمیرکی جانب سے چوہدری یاسین سے وزارت ہائیڈروالیکٹرک واپس لینے سے توڑ پھوڑ کے عمل کاپہلے ہی آغازہوچکاہے کیونکہ یہ وزارت چوہدری یاسین کوحد درجہ عزیزتھی۔بلاول بھٹوزرداری کی تقریرپراب تک سامنے والے تبصرے بھی خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔سندھ حکومت کے وزیراطلاعات شرجیل میمن نے ٹویٹرپرمعنی خیزترجمہ کرتے ہوئے اتنا لکھا۔ یااللہ ،یارسولؐ ،بے نظیربے قصور۔اب سمجھنے والے اسے کیایہ سمجھیں کہ بلاول کی تقریرسے بے نظیربھٹوشہید کاکچھ لینادینانہیں وہ بے قصورہیں کہ انھیں اپنے بیٹے کی سیاسی تربیت کاموقع ہی نہ ملا۔وزیراطلاعات ونشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ 2018ء دورکی بات ہے،تب کی تب دیکھیں گے۔
بلاول کی تقریرپرتبصرہ کرنیوالوں کوانکی ذاتی،انکے والد محترم سابق صدرآصف علی زرداری اورانکی سیاسی پارٹی کے ہمہ جہت مسائل بھی ملحوظِ خاطررکھناچاہئیں،بلاول بھٹوزداری نوجوان ہیں،جذباتی تقریرتووہ کرینگے۔سیاست میں نووارد بلکہ عملی سیاست کے ابھی طالبعلم ہیں انکی باتوںمیں ناپختگی بھی ہوگی۔بعض میڈیارپورٹس سے بھی یہ تاثرعام ہے کہ بلاول اوربختاورکے مقابلے میں آصفہ بھٹو زرداری سیاسی طورپرزیادہ میچورہیں، اس تاثرکابھی بلاول کے ذہن پرایک پریشر ہے۔ بلاول کواردوبھی صحیح پڑھنانہیں آتی،وہ رومن اردومیں لکھی تقریرکرتے ہیں۔ انھیں اردوکے لفظ کی حقیقی گہرائی کابھی صحیح طورپراندازہ نہیں۔بلاول بھٹوزرداری کا اسپیچ رائٹربھی اس ساری صورت حال سے قطع نظرجذباتی تقریریں لکھے جارہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین اس بات پربھی سنجیدگی سے غورکررہے ہیں کہ لاڑکانہ کے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے منتخب ہونیوالے ایازسومروسے استعفیٰ دلواکربلاول بھٹو زرداری کوضمنی انتخابات میں اس حلقے سے الیکشن جتواکرقومی اسمبلی بھیجاجائے جہاںوہ باقاعدہ پارلیمانی وسیاسی تربیت حاصل کرسکیں جبکہ اس آئیڈیاکے مخالفین بعض پارٹی رہنماؤں کاکہناہے کہ بلاول بھٹو زرداری کوآئندہ عام انتخابات سے قبل عملی طورپرسیاست میں لانچ نہ کیاجائے۔ بے نظیر بھٹوکابیٹا ہونے کا سیاسی ایڈوانٹیج ایک حلقے کی بجائے پورے پاکستان کے حلقوں سے حاصل کرکے آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کومکمل طورپرسیاسی فائدہ پہنچایاجائے۔ دوسری جانب بلاول کے والد آصف علی زرداری کے اپنے بے شمارمسائل ہیں۔
9ستمبرسے قبل انھیں بحیثیت صدرجواستثنیٰ حاصل تھااب وہ نہیں رہا، ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے کیسزکسی بھی وقت کسی نہ کسی شکل میں کھولے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں اپنی ذات کے حوالے سے وہ حاصل کردہ اچھاتاثربھی بچانامشکل ہوجائے گاجوایوان صدر سے رخصتی کے وقت ان کی خدمات کے اعتراف کے طورپر قائم ہوا۔ انھیں اپنی آئندہ نسل کوبھی سیاسی اعتبارسے حالات کامقابلہ کرنے کے لیے تیارکرناہے۔
میڈیارپورٹس کے نتیجے میں قائم ہونے والایہ تاثربھی ان کے ذہن میں ہے کہ بلاول اور بختاوراچھے خاصے موڈی اورمن موجی ہیں جبکہ ان کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹوزراری قدرے سمجھداراورسیاسی طورپر زیادہ میچوراورذمے دارہیں ہیں،اس لیے گزشتہ دورحکومت میں انھوں نے آصفہ کوپولیوکے خاتمے کی حکومتی وبین الاقوامی کوششوں کے لیے خصوصی سفیرمقررکیاتھا اور انھوں نے اپنی ذمے داریاں بطریق احسن سرانجام دیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری کے لیے یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ان کی پارٹی کی سیاسی ساکھ صوبہ سندھ کے علاوہ دیگرتمام صوبوں میں بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔
آبادی اورووٹروں کے حساب سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے صدرمیاں منظوروٹونے انھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑاکہ وہ اپنی پارٹی کے اندرآپریشن کلین آپ کئے بغیرسیاسی جدوجہد کاآغازکرسکیں۔ آزاد کشمیر اورگلگت وبلتستان کی اسمبلیوںمیں انہیں اکثریت حاصل ہے اوربظاہران کی حکومتیں بھی قائم ہیں مگریہ دونوں حکومتیں اتنی کمزورہیں کہ جس روزوزیراعظم نوازشریف یاان کی مسلم لیگ (ن) کے کسی مرکزی قائد نے اس طرف غورسے دیکھا تو یہ دھڑام سے نیچے آگریں گی۔
آزادکشمیرمیں تومحترمہ فریال تالپور کے مبینہ احکامات کے نتیجے میں وزیراعظم آزادکشمیرکی جانب سے چوہدری یاسین سے وزارت ہائیڈروالیکٹرک واپس لینے سے توڑ پھوڑ کے عمل کاپہلے ہی آغازہوچکاہے کیونکہ یہ وزارت چوہدری یاسین کوحد درجہ عزیزتھی۔بلاول بھٹوزرداری کی تقریرپراب تک سامنے والے تبصرے بھی خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔سندھ حکومت کے وزیراطلاعات شرجیل میمن نے ٹویٹرپرمعنی خیزترجمہ کرتے ہوئے اتنا لکھا۔ یااللہ ،یارسولؐ ،بے نظیربے قصور۔اب سمجھنے والے اسے کیایہ سمجھیں کہ بلاول کی تقریرسے بے نظیربھٹوشہید کاکچھ لینادینانہیں وہ بے قصورہیں کہ انھیں اپنے بیٹے کی سیاسی تربیت کاموقع ہی نہ ملا۔وزیراطلاعات ونشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ 2018ء دورکی بات ہے،تب کی تب دیکھیں گے۔