چیلنجز پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کی ضرورت

معاشی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لا رہی ہیں


Editorial November 06, 2019
معاشی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وزیراعظم عمران خان نے احساس اسٹوڈنٹ پروگرام کا بھی افتتاح کیا اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام سے غریب گھرانوں کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، غریب گھرانوں کے لیے راشن پروگرام بھی متعارف کرایا جائے گا ، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اس طرح کے پروگرام شروع نہیں کیے گئے جن سے عام افراد کو اوپر اٹھنے کے مواقع میسر آ سکیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اس پروگرام کے آغاز پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو مبارکباد دی اور کہا لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ معاشرے میں یہ پروگرام کتنی بڑی تبدیلی لے کر آئے گا، اس موقع پر معاون خصوصی ثانیہ نشتر نے کہا کہ اس سال کے آخر تک احساس یتیم خانوں کا اجراء ہوگا، مزدوروں سے متعلق پالیسی جلد جاری کریں گے۔انھوں نے کہا کہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں غریب خواتین کی مالی معاونت کی پالیسی کا اعلان ہوگا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ اسکالر شپ پروگرام سے مدارس کے بچے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔

دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی پارلیمانی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت منتخب ہے ، سلیکٹڈ کا الزام احمقانہ ہے ،عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں کسی کی چھتری لے کر نہیں ،کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے ، پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں گے، پیرکو ہونے والے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی۔اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں وزیرِ اعظم اور حکومت کی کارکردگی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہم پارلیمنٹ کو جمہوری اقدار کے مطابق بدستور فعال رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

ارکان نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کردار پر بھی اطمینان کا اظہارکیا۔ پارلیمانی پارٹی کی قرارداد میں کہا گیا کہ فوج ہمیشہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، فوج غیرجانبدار ادارہ ہے، اپوزیشن کے کسی بھی غیرجمہوری اور غیر قانونی اقدام کو مستردکرتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کوشش ہے کہ اپوزیشن سمیت تمام پاکستانیوں کی جان و مال کی حفاظت کروں، اپوزیشن ملک میں انتشار چاہتی ہے لیکن ہم صبروتحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، ہماری برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔پاکستان کا استحکام اداروں کے ساتھ وابستہ ہے۔

معاشی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لا رہی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 32 فیصد کمی ہوئی، برآمدات میں اضافہ خوش آیند ہے، مزید اقدامات جاری ہیں، چند ماہ میں مزید بہتری آئے گی۔وزیراعظم عمران خان سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ملاقات کی جس میں اپوزیشن سے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا اور وزیراعظم سے رہنمائی لی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا کہنا تھاکہ وہ چاہتے ہیں معاملات سیاسی طور پر حل ہوں۔

تاہم پیداشدہ صورتحال بظاہر ایک سیاسی ،آئینی اور جمہوری گرداب ہے، تاہم حکومت کو ان دریاؤں کے پار اترنے کی ضرورت بھی ہے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کرچلنے کی بھی، دھمکیوں ،الزام تراشیوں اور کردار کشی سے صورتحال کے بہترہونے کا امکان نہیں ہوگا۔ صائب طریقہ جمہوری طرزعمل اور آئینی راستوں کا انتخاب ہے، ملک کے جن سنجیدہ طبقات نے پارلیمنٹ کو یاد کیا ہے اب اپوزیشن اور حکومت دونوں کو پارلیمان کی بالادستی کا عملی ثبوت دینے کے لیے اپنے تمام مسائل کی گٹھڑی پارلیمنٹ میںکھولنا پڑیگی، اسی صورت ریاست پر عوام کا اعتبار بحال ہوگا، جمہوری اداروںکوتقویت ملے گی، حکومت اور اپوزیشن کو اپنا اپنا کردار جمہوری انداز میں ادا کرنا کا استحقاق حاصل ہوگا ۔

یاد رہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورکمانڈر کانفرنس میں بڑی فکر انگیز باتیں کی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملکی امن مذموم مقاصد کے لیے رائیگاں جانے نہیں دیں گے، انھوں نے زور دیا کہ اسٹاک ہولڈرز میں ہم آہنگی ضروری ہے، جنرل باجوہ نے کہا کہ افواج پاکستان ملکی اداروں کی مدد کے لیے آئین و قانون میں تفویض کردہ فرائض انجام دیتی رہے گی، مشرقی سرحد اور ایل او سی پر تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیارہیں۔سٹیک ہولڈرز کی نگاہ ملکی معاشی صورتحال سے نہیں ہٹنی چاہیے، حکومت اگر آزادی مارچ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہتی ہے تو اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں ہوسکتا، ہر جمہوری ملک آئین و قانون کی روش اختیار کرکے ہی مسلمہ جمہوری طاقت بننے کا حقدار بنتا ہے۔

جمہوریت کی کثیر جہتی کا اندازہ اپوزیشن کی دو جماعتوں سے لگائیے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کی ، لیکن جب دھرنے یاڈی چوک کی طرف رجوع کرنے کا معاملہ آیا تو جمہوری طرز عمل اختیارکرنا دونوں جمہوری سیاسی جماعتوں کے پاؤں کی زنجیر بن گیا، پر تشدد اقدامات اور جذباتی فیصلوں سے آزادی مارچ کے جمہوری تشخص کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، ملک میں انا رکی پھیل سکتی ہے، اداروں میں اضطراب پیدا نہیں ہوناچاہیے، جو کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لہذا صائب انداز فکر یہی ہے کہ مسائل کو ٹھنڈے دل ودماغ اور مکمل جمہوری سپورٹ سے حل کرنے کو دیگر منفی اقدامات یاکارروائیوں سے دور رکھاجائے، کہتے ہیں قیادت کے جوہر آزمائش میں کھلتے ہیں ، زندہ و متحرک قیادت ملک کے مسائل کا عبوری حل نہیں ڈھونڈتی،قائدین اورسنجیدہ رہنما ملک کے مستقبل پر نظررکھتے ہیں۔

سیاست دانوں کے لیے موجودہ صورتحال جمہوریت کے استحکام اور سیاسی بصیرت کے مظاہرہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے، ہر شہری ملک میں امن واستحکام کا متمنی ہے، خطے کے حالات، بھارت کی کنٹرول لائن پر کشیدگی،فائرنگ،بلا اشتعال جارحیت، کشمیر کی اندوہ ناک اور غیر انسانی صورتحال ، تین ماہ سے مظلوم کشمیری عوام محصور ہیں، عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ضمیر خوابیدہ ہیں، انسانی حقوق کی دھجیاںارائی جارہ یہیں،انسانیت شرم سے منہ ڈھانپ کے رورہی ہے، اس منظرنامہ سے زیاہ دردناک صورت حال اور کیا ہوسکتی ہے ، پاکستان کے دشمن کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے سنہرے خواب دیکھتے ہونگے۔

اس لیے لازم ہے کہ قوم باہم شہر شکر ہوجائے۔یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ قوم کے ضمیر اور جمہوریت کے استحکام کے لیے بنیادی پتھر کا کردار ادا کررہی ہے، عدالتیں مسلسل کام کررہی ہیں، جمہوری عمل جاری ہے،نواز شریف کی بیماری پر تشویش کسی ایک سیاسی جماعت تک محدودنہیں، سیاسی اختلافات کے باوجود ہر سیاسی کارکن نے نواز شریف کی صحت یابی کے لیے دعا کی، عدالت نے مریم نواز کی ضمانت منظور کرلی، سابق صدر آصف زرداری کا علاج ہورہا ہے، احتساب کا عمل اور نیب کی کارروائیوں کے درمیان آئین اور قانون کے شیشے کی دیوار حائل ہے، ہر چیز شفافیت کی مظہر ہونا چاہیے۔ اب بھی ضرورت مزید شفافیت اور انصاف کی ہے تاکہ ملک میں عدل وانصاف کی فراہمی ایک حقیقت بن جائے۔

لوگ بیروزگاری اور مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں، جمہوریت کے ٹریکل ڈاؤن ثمرات کو عوام کی دہلیز تک آنے میں اب دیر نہیں لگنی چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے ، ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اجتماعی سیاسی وژن کا مظاہر کرنا ہوگا، آزادی مارچ ایک سیاسی عمل ہے اسے جمہوری انداز سے ٹیکل کرنا حکمرانوں کے لیے ایک امتحان ہے۔

توقع رکھنی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن نے آزادی مارچ کے آغاز سے لے اب تک جس بے مثال صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسے دی اینڈ تک اسی جوش و ہوشمندی کے ساتھ نتیجہ خیز بنایا جائے گا تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ پاکستان میں جمہوریت ہی مسائل کا واحد حل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں