ن م راشد دانائی بھری نظمیں
وطنیت کے جذبے سے سرشار اور پھر عشق اسلام میںڈوبے ہوئے
کسی بھی سماج کے زندہ اور متحرک ہونے کی اولین نشانی یہ ہے کہ اس کے ادیب ، شاعر اور مصور اپنے عہدکے ہیجان اور اپنی تاریخ کے زیرو بم کو محسوس کریں اور اسے رقم کریں۔ ہم 1757 بلکہ اس سے بھی پہلے سے جس دور ابتلا کا نشانہ بنے، وہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا۔ ایک آزاد اور خود مختار مملکت جسے اپنی وسعت اور اپنے شاندار دروبست پر ناز تھا۔ وہ مٹھی بھر غیر ملکی تاجروں کے ہاتھوں پسپا ہو رہی تھی۔ یہ تاجر کبھی ولندیزی، کبھی پرتگیزی اور کبھی فرانسیسی روپ میں آئے اورپھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی چھاؤنی چھائی۔ پلاسی کی جنگ کے بعد ایک ایسا ملک جو سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، اس کے پر نوچ لیے گئے۔ اس کی معیشت تباہ ہوئی اور اس کا حال سوداؔ کے شہر آشوب میں دکھائی دیتا ہے۔
ان سانحات کے بعد ہمارے یہاں میرؔ، مصحفیؔ، مومنؔ اور غالبؔ پیدا ہوئے جنھوں نے ملکی حال و احوال لکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ 1857 میں ہندوستان خون کے دریا میں نہایا اور یہی وہ زمانہ تھا جب مولانا فضل حق خیر آبادی اور مولانا جعفر تھانیسری کو آزادی کی طلب میں عبور دریائے شورکی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے اور ان کے ساتھ آزادی کے ہزاروں پروانوں نے کالے پانی کی سزا کاٹی، سندھ سے سیلون تک ہزاروں خاندان برباد ہوئے اور وہ طبقہ بھی پیدا ہوا جس نے جدید تعلیم کے زیر اثر زندگی کو دوسری عینک سے دیکھا۔
یہی وہ دور ہے جس میں اقبال پیدا ہوئے۔ وطنیت کے جذبے سے سرشار اور پھر عشق اسلام میںڈوبے ہوئے۔ اقبال کے بعد فیض آتے ہیں اور ان کے بعد ن م راشد۔ راشد کو ہمارے یہاں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا حالانکہ وہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہمارے اہم ترین شاعر تھے۔ جدید تعلیم اور جدید طرز سیاست سے آشنا۔ وہ جانتے تھے کہ ہمیں جو آزادی مل رہی ہے وہ سچی آزادی نہیں، اس کا التباس ہے۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ زندگی انھیں ایران لے گئی جہاں انھوں نے شہنشاہیت کو اقوام عالم کے سامنے سرنگوں دیکھا اور یہ جانا کہ مصدق جیسا وطن پرست کس طرح پسپا کیا جاتا ہے اور شاہ خود کو ڈھائی ہزار برس قدیم ایرانی عظمت کا سایہ کہتا ہے جب کہ اپنے شاہی لباس میں وہ کسی بونے کی طرح دبکا ہوا اور لرزتا ہوا ایک شخص مجہول ہے جو بڑ بولے پن کی بیماری میں مبتلا ہے اور خود کو آریہ مہر کہتا ہے۔
ن م راشد خوش نصیب تھے کہ انھوں نے 50ء کی دہائی میں وہ سیاسی رستا خیز دیکھی جب فرنگی تیل کے سوداگروں کے روپ میں آئے اور ایران کی آزادی سلب کر گئے۔
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر... وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں...چلے آئیں گے بن کے مہماں...تمہارے گھر میں...وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے... ناچیں گے، گائیں گے... بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے... وہ گرمائیں گے خون محفل!...پھر پَو پھٹے گی... تو پلکوں سے کھودو گے خود اپنے مردوں کی قبریں...بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے...بہاؤ گے آنسو!... بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو:
اسی طرح وہ دولا شاہ کے چوہوں کا ذکر ''زنجبیل کے آدمی'' میں کرتے ہیں۔
کئی بار میں نے... نکل کے چوک سے... سعی کی... کہ میں اپنی بھوتوں کی میلی وردی اتار دوں... نئے بولتے ہوئے آدمی کے نئے الم میں شریک ہوں... میں اسی کے حسن میں، اس کے فن میں، اسی کے دم میں ... شریک ہوں ... میں اسی کے خوابوں، انھی کے معنیٔ تہہ بہ تہہ میں...انھی کے بڑھتے ہوئے کرم میں شریک ہوں...وہ تمام چوہے... وہ شاہ دولا کے ارجمند......ہر ایک بار اچھل پڑے... مرے خوف سے... مرے جسم و جاں پہ ابل پڑے!
شاہ دولا کے یہ چوہے ان سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ان پر ہی ٹوٹ پڑے ہیں۔
یا جوج ماجوج کہنے کو ایک قدیم قصہ ہے جسے ہم نے اپنی بڑی بوڑھیوں سے سنا اور مذہبی کتابوں میں بھی اس کے حوالے آتے ہیں، اسے پڑھیے تو اس قوم کا قصہ سامنے آتا ہے جو دن کی روشنی میں لوہا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوارکو چاٹتی رہتی ہے، یہاں تک کہ سد سکندری جو دن بھر میں کاغذ کی طرح باریک ہوجاتی ہے۔ اسے چاٹنے والے یاجوج اور ماجوج تھک کر یہی طے کرتے ہیں کہ کل جب سورج نکلے گا، وہ اسے چاٹ کر ختم کردیں گے اور دوسری طرف اتر جائیں گے۔ لیکن کل کبھی نہیں آتی اور صبح کو سد سکندری اسی طرح ان کی راہ میں مزاحم رہتی ہے۔ راشد نے اس قدیم قصے کے پس منظر میں آج کے مسائل و معاملات کو کل پر چھوڑ دینے والوں کا معاملہ بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ کل کبھی نہیں آتی جو ہمارے معاملات و مسائل کو نمٹا کر آگے بڑھے۔
راشد بیسویں صدی کے نصف آخر کے ایک بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے تیل کے سوداگر ، اے غزالِ شب اور ''آنکھیں کالے غم کی '' جیسی نظمیں لکھیں۔
غم گرجا برسا، جیسے آمرگرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے
بستی والے بول اٹھے، اے مالک! اے باری
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری
کب ہوگا فرمان جاری ؟
ان دنوں ہمارے ارد گرد جو تماشا ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے راشد بے ساختہ یاد آتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ''وزیرے چنیں'' پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے کسی وزیر سر دبیر کا نقشہ کھینچ گئے ہیں۔ کہتے ہیں۔
تو جب سات سو آٹھویں رات آئی... تو کہنے لگی شہر زاد ... اے جواں بخت ... شیراز میں رہتا تھا نائی... وہ نائی تو تھا ہی... مگر اس کو بخشا تھا قدرت نے... اک اور نادر، گراں تر ہنر بھی...کہ جب بھی... کسی مردِ دانا کا ذہن رسا ... زنگ آلود ہونے کو آتا ... تو نائی کو جا کر دکھاتا... کہ نائی دماغوں کا مشہور ماہر تھا... وہ کاسۂ سر سے ان کو الگ کر کے...ان کی سب آلائشیں پاک کر کے... پھر اپنی جگہ لگانے کے فن میں کامل تھا ... خدا کا یہ کرنا ہوا ،... ایک دن ... اس کی دکان سے... ایران کا اک وزیر کہن سال گزرا... اور اس نے بھی چاہا ...کہ وہ بھی ذرا... اپنے الجھے ہوئے ذہن کی... ازسر نو صفائی کرالے!... کیا کاسۂ سر کو نائی نے خالی...
ابھی وہ صاف کرنے لگا تھا... کہ ناگاہ آکر کہا ایک خواجہ سرا نے... ''میں بھیجا گیا ہوں جنابِ وزارت پنہ کو بلانے!''... اور اس پر سراسیمہ ہوکر جو اٹھا وزیر ایک دم... رہ گیا پاس دلاک کے مغز اس کا... وہ بے مغز سر لے کر دربار سلطان میں پہنچا!...... مگر دوسرے روز اس نے...جو نائی سے آ کر تقاضا کیا... تو وہ کہنے لگا...حیف، کل شب پڑوسی کی بلی...کسی روزن در سے گھس کر... جناب وزارت پنہ کے... دماغِ فلک تاز کو کھا گئی ہے!... اب حکم سرکار ہو تو،... کسی اور حیوان کا مغز لے کر لگا دوں؟...تو دلاک (مالشیے) نے رکھ دیا... دانیال زمانہ کے سر میں...کسی بیل کا مغز لے کر... تو لوگوں نے دیکھا...جناب وزارت پنہ اب...فراست میں... دانش میں... اور کاروبار وزارت میں... پہلے سے بھی چاق و چوبند تر ہو گئے ہیں!''
اس نظم کو پڑھیے کتنے چہرے نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ مالشیے نے ان کے کاسہ سر کو دھو مانجھ کر کس خریا گورخر کے دماغ سے سرفراز کیا ہے کہ ان کی لن ترانیاں اپنے آقا کی شان میں روز افزوں ہیں۔
ن م راشد چلے گئے ہیں لیکن اپنے پیچھے کیسی دانائی بھری نظمیں چھوڑ گئے ہیں۔