برکت اور بے برکتی
رزق کے عام معنی مال دولت اور روپے پیسے کے لیے جاتے ہیں جوکہ درست نہیں
برکت کا کیا مفہوم و مطلب ہے؟ برکت کیا ہوتی ہے؟ ہم برکت کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اس کی ضد یعنی بے برکتی سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟جب مسلمان اپنے بھائی سے ملتا ہے توکہتا ہے ''السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ '' یعنی آپ پر اللہ تعالی کی رحمت و برکت ہو تو کیا کبھی ہم نے اس برکت کی دعاء کے معنیٰ پر غور کیا ہے؟ اسی طرح درود ابراہیمی میں ہم دعا کرتے ہیں اے اللہ! برکت نازل فرما محمدؐ پر اور آپ کی آل پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر۔ اسی طرح دعائے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں '' وبارک لی فیما اعطیت'' جو تو نے مجھے عطا کیا ہے اس میں برکت ڈال دے۔
شادی پر مبارک دیتے ہوئے ہم کہتے ہیں ''بارک اللہ لکما و بارک علیکم۔ اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لیے یہ باعث برکت بنائے اور تم پر ہمیشہ برکت کی برکھا برسائے رکھے۔ تو اس برکت کی حقیت کیا ہے؟ اور برکت کی اہمیت وافادیت ہماری عملی زندگی کے اعتبار سے کس قدر بنتی ہے اور ایک انسان کی روزمرہ کی زندگی میں یہ کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ برکت کے اصل معنی استحکام، ہمیشگی اور پختگی کے ہیں اور یہ بڑھوتری، نشوونما اور خیرکثیر کا دوسرا نام ہے۔
''برکت '' اللہ کا فضل ہے جو انسان کے پاس وہاں وہاں سے آپہنچتا ہے جہاں سے اسے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ سو ہر وہ کام جس میں غیر محسوس طریقے سے اضافہ اورکثرت نظر آئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت ڈال دی گئی ہے۔ برکت اللہ کا عطیہ ہے جو انسان کو مادی اسباب سے ماورا عطا کیا جاتا ہے۔
چنانچہ جب اللہ کسی کی عمر میں برکت ڈال دیتا ہے تو اس کو اطاعت کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے دیتا ہے یا اس میں بہت سی بھلائیاں جمع کر دیتا ہے اور جب اللہ صحت میں برکت ڈال دیتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ آدمی کی صحت کو پائیدارکردیتا ہے اور جب مال میں برکت ڈالتا ہے تو اس کو بڑھا کر زیادہ بھی کر دیتا ہے اور صالح بنا کر بھی دیتا ہے اور صاحب مال کو خیرکے کاموں میں مال خرچ کرنے کی توفیق دے دیتا ہے اور جب اولاد میں برکت ڈالتا ہے تو اولاد کو نیک بنا دیتا ہے اور صاحب اولاد کو اولاد کا حسن سلوک نصیب کرتا ہے۔
جب اللہ بیوی میں برکت دیتا ہے تو اس کو خاوند کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیتا ہے یوں کہ جب وہ اسے دیکھے تو خوش ہوجائے، جب وہ گھر سے باہر ہو تو اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کام میں برکت دیتا ہے تو اس کے اثرات کو وسعت پذیرکرکے اس کے فوائد زیادہ کردیتا ہے۔ اللہ کے لیے اخلاص اورنبی کریم کی اتباع جیسے اعمال سے بڑھ کرکوئی برکت والاکام نہیں ہوسکتا۔ ابن قیم فرماتے ہیں: ''ہر چیز جو اللہ کے لیے نہیں ہوتی برکت اس سے اٹھالی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی برکت والاہے اور ہر برکت اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ مسند احمد میں حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' جب میری اطاعت کی جائے تو میں خوش ہوتا ہوں، جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکتیں عطا کرتا ہوں اور میری برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔
رزق کے عام معنی مال دولت اور روپے پیسے کے لیے جاتے ہیں جوکہ درست نہیں۔ ہر ملنے والی نعمت راحت اور آسائش رزق میں شمار ہے اور رزق ایک ایسی نعمت ہے جس کی تقسیم کا اختیار و ذمہ مالکِ کائنات نے اپنے پاس رکھا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ ہر انسان کو طیب وطاہر اور پاک روزی رزق عطا فرماتا ہے اور اس رزق میں اضافہ و فراخی کے مواقعے بھی بخشتا ہے، مگر اکثر انسانوں کی فطرت ہے کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ رزق کا وعدہ رب تعالٰی کی ذات نے کر رکھا ہے، لہٰذا وہ ہمیں ہماری قسمت میں لکھا گیا دانہ پانی تقدیرکے مطابق ضرورعطا فرماتا ہے۔
تاہم کچھ لوگ توکل اور یقین کی کمی کا شکار ہوکر قبل از وقت، ضرورت سے زیادہ طلب کرتے یا لالچ کا شکار ہوکر بعض اوقات ناجائز وحرام ذرایع کے استعمال سے اپنا حلال کا رزق بھی کھودیتے ہیں۔ جب ہم شرعی حدود سے تجاوز اور احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں تو رزق میں سے برکت اٹھنا شروع ہوجاتی ہے اور یوں بڑی بڑی فیکٹریوں اورکارخانوں کے مالکان بھی بھکاری بن جایا کرتے ہیں۔ عروج و زوال کی ایسی بہت سی کہانیاں اوراق زمانہ میں بکھری ہوئی ہیں۔
رزق حلال کمانے والوں کے لیے اللہ پاک اپنی رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے ، دنیا میں باعزت رکھتا ہے آخرت میں بلند درجات سے نوازتا ہے ، مگر اللہ پاک کو چھوڑکر مال ودولت کے حصول کا غلام بن جانا سب سے بڑی بدقسمتی ہے اور یہی سب سے بڑی ذلت اور بے برکتی ہے ، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم رازق کو بھول جاتے ہیں اور روزی رزق کے پیچھے لگ جاتے ہیں اگر ہم روزی کو چھوڑکر رازق کے پیچھے لگ جائیں تو روزی خود بخود آپ کے پیچھے ہوگی۔
رات دیر تک جاگتے رہنے اور صبح کو دیر سے بیدار ہونے کی خراب عادت اب ہماری طرز زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے ہم کبھی یہ جاننے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ یہ بری عادت ہمیں کیا نقصانات پہنچا رہی ہے یا پھر اس عادت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت اہم باتیں اور نکات ہیں کہ جس گھر کے دروازے رشتہ داروں کے لیے بند ہوجائیں اور جس گھر میں رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے کا رواج پیدا ہوجائے تو وہاں رزق کی تنگی اور بے برکتی کوکوئی نہیں روک سکتا۔ اگر بلفرض ہم کسی مجبوری مثلا ملازمت وغیرہ کی وجہ سے جلدی نہیں سو سکتے تو کم از کم اتنا ضرورکرلیں کہ رات کو جس وقت بھی سوئیں لیکن صبح سویرے ضرورکچھ دیر بیدار ہوکر معمولات پورے کریں پھر چاہیں دوبارہ کچھ دیر سو جائیں۔
اسی طرح علمائے کرام بے برکتی کے بہت سے دیگر اسباب بھی بتاتے ہیں جن میں نماز میں سستی کرنا ، گناہ کرنا ، خصوصاً جھوٹ بولنا، نیک اعمال میں ٹال مٹول کرنا، بغیرہاتھ دھوئے کھانا کھانا ، ماں باپ کے لیے دعائے خیر نہ کرنا ، اندھیرے میں کھانا کھانا ، دروازے پر بیٹھ کر کھانا، بغیر دسترخوان بچھائے کھانا ، دانتوں سے روٹی کترنا ، چینی یا مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن استعمال میں رکھنا ، کھانے کے بعد جس برتن میں کھانا کھایا اس میں ہاتھ دھونا ،کھانے پینے کے برتن کھلے چھوڑ دینا، دسترخوان پرگرے ہوئے کھانے وغیرہ کے ذرے اٹھانے میں سستی کرنا ، گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا ، چراغ کو پھونک مارکر بجھانا ، ٹوٹی ہوئی کنگھی استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ آخرمیں ایک مکالمے کا خلاصہ جس میں ایک شکی ومنطقی کسی صاحبِ یقین سے طنزا کہتا ہے کہ تم لوگوں نے یہ کیا برکت نامی غیر مرئی مفروضہ بنایا ہوا ہے کسی عملی مثال سے سمجھاؤ تو ذرا، تو جواب ملتا ہے کہ کتے اور بھیڑ بکریوں کی پیدائش پر ذرا غورکرو، کتیا دس سے بارہ بچے ایک ساتھ دیتی ہے جب کہ بھیڑ بکریاں صرف ایک بچہ پیدا کرتی ہیں لیکن دنیا میں کتوں کی کثرت نہیں ہے جب کہ بھیڑ بکریاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں جب کہ منطقی لحاظ سے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی کو برکت کہتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب پر اور ہمارے وطن عزیز پر فضل، برکتیں آسانیاں اور خیرکثیر نازل فرمائے۔(آمین)