یوم شہدائے جموں اندوہناک قتل عام

اس نسل کشی کی نہ تو کسی عالمی فورم پر تحقیق کی گئی اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے آواز بلند کی گئی


جموں سے پاکستان کا خواب لے کر ٹرکوں پر سوار گمنام مسافر اپنے قاتلوں کی تلاش میں ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہو ر: انسانوں کا قتل عام، بھیڑ بکریوں کی طرح زندہ انسانوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ سو یا دو سو نہیں بلکہ پورے دو لاکھ انسانوں کو ذبح کیا گیا۔ یہ ظلم ہٹلر، چنگیز خان یا زمانہ قدیم کے کسی بادشاہ نے نہیں کیا، بلکہ یہ قتل عام تقسیم برصغیر کے وقت ہندو بلوائیوں کے ذریعے جموں میں کرایا گیا۔ اس قتل عام کے حوالے سے متعدد بیانیے پاکستان اور کشمیر میں زیر بحث ہیں، لیکن تاریخ اس سے بالکل برعکس کہتی ہے۔

اس قتل عام کو برطانوی روزنامہ ''دی ٹائمز لندن'' نے رپورٹ کیا۔ اخبار کے مطابق جموں میں 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قتل عام کی تفصیل لکھی۔ ان کے مطابق 1947 کی خزاں تک 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ صحافی ہوریک الیگزینڈر نے اس قتل عام کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا ''جموں کے مسلمانوں نے پاکستان میں شمولیت کےلیے اپنی دولت، رشتے دار، زندگی اور جذبات سب قربان کردیا۔''

برطانوی مورخ ایسٹر لیمپ نے اپنی کتاب میں لکھا ''ہندوؤں اور سکھوں کے خونی جتھے جموں میں داخل ہوگئے، جنہوں نے وحشیانہ قتل و غارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان) کی طرف دھکیل دیا۔''

مسلمانوں کے قتل عام کےلیے حکومت اور بلوائیوں نے انتہائی دردناک طریقہ اختیار کیا۔ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور اور ریاسی میں مسلم آبادی کو ختم کردیا گیا۔ مختلف تاریخی کتابوں کے مطابق جموں کے 123 دیہاتوں میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی۔ آر ایس ایس کے قاتلوں سمیت، دیگر ہندو انتہاپسندوں نے ضلع کٹھوعہ میں پچاس فیصد مسلمانوں کو شہید کردیا۔ ریاسی 1947 کا بوسنیا تھا، جہاں 68 فیصد مسلمان آباد تھے۔ اس ضلع کے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا۔ رام نگر میں گجر برادری سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا جبکہ رائے پور گاؤں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔

جموں کے نواحی علاقوں بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہوچکا تھا۔ لیکن جموں میں مسلمانوں کا سب سے خطرناک قتلِ عام 4 نومبر 1947 کو بھارتی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ کے دورہ جموں کے بعد ہوا۔ کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ جموں میں قتل عام کی اصل سازش انہی کرداروں نے خود رچی تھی۔

اس سازش کے تحت بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کے خواہش مند مسلمان 5 نومبر کو پولیس لائنز میں پہنچ جائیں۔ چنانچہ ان نہتے اور بھوکے ننگے، ستم رسیدہ مسلمانوں کو 36 ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ اس قافلے کو سیالکوٹ براستہ آر ایس پورہ لے جانے کے بجائے سانبہ لے جایا گیا جہاں پر بندوقوں، تلواروں، بھالوں اور برچھیوں سے لیس تربیت یافتہ دہشت گردوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔

مسئلہ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے محقق اور دانشور سید سلیم گردیزی کے مطابق ''چھ نومبر 1947 کا قتل عام کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ اس سلسلہ وار قتل عام کا ڈراپ سین ہے جس کا آغاز مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ یہ سلسلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ صوبہ جموں میں مسلمانوں کا تناسب 61 فیصد تھا۔ اس قتل عام کے ذریعے مسلم آبادی کی 23 فیصد تعداد کا صفایا کیا گیا، جس سے اس صوبے میں مسلمانوں کی تعداد صرف 38 فیصد رہ گئی۔ اس طرح جموں کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کردیا گیا۔''

بعض بھارت نواز افراد اس قتل عام کا تعلق مظفرآباد میں قبائلی حملے سے جوڑتے ہیں۔ سلیم گردیزی کے مطابق ''قبائلی لشکر تو 22 اکتوبر کو مظفرآباد اور 24 اکتوبر کو بارہ مولا پہنچا لیکن جموں میں مسلمانوں کا قتل عام بہت پہلے سے جاری تھا۔ جیسا کہ 9 اکتوبر کو جموں کے استاد محلہ کے مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا۔ یہ عمل روزمرہ کی بنیاد پر شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔''

سرینگر کے سینئر صحافی اور مصنف جناب پی جی رسول اپنی کتاب ''مسئلہ کشمیر کی تاریخی اصلیت'' میں لکھتے ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں، نہرو، مہاراجہ ہری سنگھ، بلدیو سنگھ، سردار پٹیل، مہرچند مہاجن، شیخ عبداللہ اور اس المیے کے دوسرے کرداروں کی اگست تا نومبر 1947 کی سرکاری مراسلت، سرکاری ریکارڈ، غرض تمام تر شواہد سے جموں کے قتل عام میں بھارتی سرکاری سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔

میں نے کشمیر پر قبائلی حملے کے بارے میں اپنے گزشتہ بلاگ میں تاریخی حوالے دیئے۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ قبائلی مجاہدین نے کشمیر پر حملہ نہیں کیا بلکہ کشمیری عمائدین کی درخواست پر ان کی مدد کےلیے لشکر کشی کی۔ یہاں پر بھارت نواز قیادت کے تمام جھوٹے تاریخی دعوے جھوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ جموں کے قتل عام پر بھی بھارت کو معصوم ثابت کرنے کی کوششیں ماضی میں بھی کی گئیں حالانکہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی اس سے بدترین مثال کہیں نہیں ملتی۔

جموں، صوبہ پنجاب کا قریب ترین علاقہ ہے جبکہ جموں کے مسلمانوں کی قیام پاکستان سے قبل بھی پنجاب کے مسلمانوں سے رشتے داریاں موجود تھیں۔ جموں میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ الحاق پاکستان کےلیے یہاں کے مسلمان تحریک شروع کردیں گے، لیکن تحریک شروع کرنے سے پہلے ہی مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔

اس نسل کشی کی نہ تو کسی عالمی فورم پر تحقیق کی گئی اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے کوئی آواز بلند کی گئی۔

آج 6 نومبر ہے۔ جموں سے پاکستان کا خواب لے کر ٹرکوں پر سوار گمنام مسافر اپنے قاتلوں کی تلاش میں ہیں۔ آج بھی کشمیری عوام کی نسل کشی کےلیے تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار تب بھی خاموش تھے اور آج بھی ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ لیکن کیا کشمیریوں کےلیے ہم آواز بھی بلند نہیں کرسکتے؟ سوچیے گا ضرور۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں