بھارت ایک اور چال چل گیا

مسئلہ کشمیر، پانی کا تنازعہ، کھیل کا میدان اور تجارت و سفارت، بھارت ہر جگہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا آیا ہے


Mian Asghar Saleemi November 08, 2019
بھارت، پاکستانی اسپورٹس کے خلاف سازشیں کرتا نظر آتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہتے ہیں کہ ایک بار کوئی سردار کسی راستے سے گزرتے ہوئے کیلے کے چھلکے پر پاﺅں رکھ بیٹھا اور دھڑام سے منہ کے بل گر پڑا، شدید چوٹ آئی، سر کو سہلاتا ہوا چلا گیا۔ اتفاق سے کچھ دن کے بعد پھر اسی راستے سے گزر ہوا۔ پھر وہیں پر ایک کیلے کا چھلکا پڑا دیکھا۔ یہ دیکھ کر ٹھہر گیا، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سر کو سہلایا اور بولا "اج فیر ڈگنا پوﺅں" اور چھلکے پر قدم رکھ دیا۔ ہماری حالت بھی اسی سردار جیسی ہے، ہم پرانا درد بھی یاد کرتے ہیں، سر بھی سہلاتے ہیں مگر پھر بھی کیلے کے چھلکے سے بچ کر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔

پاکستان اور بھارت ہی کو لے لیجیے، بھارت ہمارے کھیلوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں کر رہا۔ اس کا اندازہ میرے ایک سابق اولمپیئن دوست کی باتوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق میری زندگی کا بڑا حصہ کھیلوں کے میدانوں میں گزرا ہے، اپنے اس تجربے کی بنا پرکہتا ہوں کہ بھارت پاکستان کو زندگی کے ہر محاذ پر عالمی سطح پر تنہا کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پانی کا تنازعہ، کھیلوں کے میدان ہوں یا تجارتی و سفارتی سمجھوتے، وہ ہر شعبے میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا نظر آئے گا۔ میری یہ بات لکھ لو کہ مستقبل میں بھی پاکستان کا جہاں جہاں فائدہ ہو گا، بھارتی اس کی راہ میں رکاوٹ ضرور بنیں گے۔

اپنے اس دوست کی باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا تو واقعات کی کڑیاں ایک ایک کرکے ملنا شروع ہو گئیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ کھیلوں کے شعبے ہی کو دیکھ لیجیے، بھارتی حکام کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے منگل کو پاکستان کو ڈیوس کپ ٹائی کی میزبانی سے محروم کردیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹینس میچز 29 اور 30 نومبر کو اسلام آباد میں شیڈول تھے جنہیں اب کسی اور ملک میں کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ڈیوس کپ مقابلوں ایشیا اوشیانا گروپ ون کا حصہ تھے۔

ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو بھارت، پاکستانی اسپورٹس کے خلاف سازشیں کرتا نظر آتا ہے۔ ہماری ٹیم بلائنڈ ورلڈ کپ کھیلنے کےلیے بھارت گئی تو میگا ایونٹ میں ہار کے خوف کی وجہ سے کپتان ذیشان عباسی کو تیزاب پلا کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ 2011 میں نیوزی لینڈ میں شیڈول ہاکی چیمپئنز ٹرافی میں روایتی حریف ٹیمیں آمنے سامنے ہوئیں تو بھارتی کھلاڑی ہاکیاں ہاتھ میں پکڑے پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد عمران پر ٹوٹ پڑے اور شدید ضربیں لگا کر جبڑا توڑ دیا۔ ہمارے 9 کھلاڑی جذبہ خیرسگالی کے تحت پہلی انڈین ہاکی لیگ میں کھیلنے کے بھارت گئے تو ہندو انتہا پسند تنظیمیں حرکت میں آ گئیں، جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دیں جن کی وجہ سے ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو ہنگامی بنیادوں پر وطن واپس بلانا پڑا۔

یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ بات دیگر دنیا کےلیے تو ٹھیک ہے لیکن اس فارمولے، اس نظریئے، آس آئیڈیا اور تھیوری کو پاکستان بھارت پر اپلائی نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت، پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ وہ تجارتی، سفارتی، معاشی اور اسپورٹس ڈپلومیسی کی باتیں کرتا ہے، ویزہ میں نرمی لانے کے فریب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ راستے کھولو، تجارت شروع کرو، ثقافتی اور تجارتی وفود کا تبادلہ کرو، ساتھ مل کر ناچو، ساتھ مل کر گاﺅ۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ سرحدیں کھول دی جاتی ہیں، بھارتی وی آئی پی شخصیات اور شہری بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں، پیار محبت، دوستی اور امن کا پرچار کرتے ہیں۔ لیکن پیار و محبت کی پینگوں کے پیچھے بھارت کی نیک نیتی نہیں بلکہ دوستی کی آڑ میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا مقصود ہوتا ہے؛ اور ہم بھولے بادشاہ چالاک اور عیار دشمن کی چالوں میں آکر اس کی ہر بات، ہر وعدے کا یقین کرلیتے ہیں۔

چانکیہ نے کہا تھا کہ جو ڈر جائے اسے ہمیشہ کےلیے ڈرائے رکھو؛ اور جو نہ ڈرے اس سے ہمیشہ ڈرے رہو۔ چانکیہ کا یہ قول بھارت کی نفسیات بھی ہے اور دفاعی پالیسی بھی۔ ہم جب تک بھارت سے نہیں ڈرتے تھے، اس وقت تک بھارت ہم سے ڈر کر رہتا تھا۔ لیکن جب سے ہم نے اس کے چھوٹے موٹے مطالبات ماننا شروع کردیئے ہیں۔ اس نے ہم پر ڈرائے رکھنے کی پالیسی استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں